اقتدار یا طاقت کی جنگ؟۔

کیا حزبِ اختلاف کی سیاسی جدوجہد قانون کی بالادستی یا سول بالادستی کے لیے ہے؟

کیا حزبِ اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی سیاسی جدوجہد جمہوریت، قانون کی بالادستی یا سول بالادستی کے لیے ہے؟ یا یہ بھی ماضی کی سیاسی، مذہبی تحریکوں کی طرح محض اقتدار کے حصول کی جنگ ہے؟ اقتدار کی جنگ بری نہیں، کیونکہ سیاست اقتدار کے حصول کے لیے ہی ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہ سیاست یا اقتدار کی جنگ کسی بڑے سیاسی، فکری، نظریاتی اصولوں کے بجائے محض ذاتی، جماعتی یا کسی خاندانی مفادات کے گرد گھومتی ہو تو پھر جمہوریت کی منزل نہ صرف دور ہوجاتی ہے بلکہ جمہوریت کی کمزوری کا بھی سبب بنتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کے اس اتحاد میں وہ تمام جماعتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں ماضی یا حال میں اقتدار کے کھیل کا حصہ رہی ہیں۔ ان سبھی جماعتوں کا سیاسی وجمہوری مقدمہ بہت کمزور رہا ہے۔ بالخصوص اقتدار کے کھیل میں ان کی سیاست جمہوریت، آئین، قانون، عوامی مفاد یا سول بالادستی کے بجائے ذاتی مفادات کے گرد ہی گھومتی ہے۔
جو لوگ اس موجودہ سیاسی مہم جوئی یا حزبِ اختلاف کی تحریک کو بنیاد بناکر اسے دو حصوں یعنی جمہوری یا غیر جمہوری قوتوں کی جنگ کے طور پر پیش کررہے ہیں، اس میں ان کا تجزیہ کم اور خواہش کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نوازشریف کے سیاسی بیانیے میں جمہوریت یا قانون کی بالادستی کا رنگ بھرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ نوازشریف اور اُن کا خاندان پچھلے دو برسوں سے اسٹیبلشمنٹ سے کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کے کھیل کا حصہ تھا۔ لیکن اس کھیل میں ناکامی کے بعد ان کے پاس جو ہتھیار بچا ہے وہ بے چاری اور معصوم جمہوریت ہی ہے۔ جمہوریت ہمیشہ سے یہاں سیاسی بالادست قوتوں کے لیے ایک مؤثر سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہی ہے، اور اس کھیل کے پیچھے اصل مقصد جمہوریت کم اور اقتدار کا حصول زیادہ ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں سیاسی مہم جو، حزبِ اختلاف کو جمہوریت کا استعارہ جبکہ تحریک انصاف کی حکومت، اتحادی جماعتوں یا ان کے ہی حمایت یافتہ طبقے کو غیر جمہوری یا اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کارکے طور پر پیش کررہے ہیں۔ حالانکہ اس حزبِ اختلاف کی بیشتر جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی مجموعی سیاست ہی اسٹیبلشمنٹ کی مرہونِ منت رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ سے لاڈلی جماعت رہی ہے، اور اب اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں خرابی کے باعث اس کے پاس جمہوریت ہی وہ سہارا ہے جس کو بنیاد بناکر وہ دوبارہ طاقت کے کھیل میں اپنے آپ کو حصہ دار بنانا چاہتی ہے۔ نوازشریف اور پی ڈی ایم کے بیانیے کا جو سیاسی پیکیج ہے وہ جمہوریت سے زیادہ عمران خان کی حکومت کو جائز یا ناجائز، یا اسٹیبلشمنٹ کی مدد اور حمایت کے ساتھ گھر بھیجنا ہے۔
یہ کوئی نئی سیاسی جنگ نہیں۔ ماضی کی تمام سیاسی تحریکوں کو دیکھ لیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی تحریکیں… سب میں جمہوریت اور اسلام کو ڈھال بناکر عملی طور پر اپنے اقتدار یا اپنی بادشاہت قائم کرنے کا ہی کھیل کھیلا گیا ہے۔ ماضی کی تحریکوں میں بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بنیاد بناکر حمایت یا مخالفت کا کھیل کھیلا گیا۔ اس لیے موجودہ سیاسی کھیل بھی جمہوریت سے زیادہ فرد یعنی عمران خان کی مخالفت کا کھیل ہے، اور حزبِ اختلاف کے سامنے بڑا ہدف ہی عمران خان حکومت کا خاتمہ ہے۔ ماضی میں بھی یہ کھیل نوازشریف یا بے نظیر کو نکالنے یا لانے کے لیے کھیلا جاتا رہا ہے۔ اب دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ حزبِ اختلاف کی تحریک چار بنیادی اصولوں پر کھڑی ہے:
(1) سیاسی نظام کو ہر صورت آئین اور جمہوری تقاضوں کے مطابق چلنا چاہیے۔
(2) ہر ادارہ اپنی قانونی حدود کے اندر رہ کر کام کرے جو آئین میں اس کے لیے متعین ہیں۔
(3) منصفانہ اور شفاف انتخابات اور اس عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی عدم مداخلت۔
(4) عوام کی حاکمیت یا سول بالادستی کی عملی جنگ۔
ان تمام نکات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ جو بھی جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی بات کرے گا وہ ان ہی نکات کو بنیاد بناکر اپنا سیاسی مقدمہ پیش کرے گا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری مجموعی قومی سیاست میں سیاسی نعروں کو بنیاد بناکر حقیقی سیاسی جنگ کم اور جذباتیت کی بنیاد پر ان سیاسی نعروں کو ’’بطور ہتھیار‘‘ استعمال کرنے کی عملی جنگ نمایاں نظر آتی ہے۔
ہمارے اہلِ دانش کو پی ڈی ایم کی حمایت ضرور کرنی چاہیے، اور یہ ان کا سیاسی حق ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں ان جمہوری اور سیاسی لوگوں سے کچھ سوالات بھی ضرور کرنے چاہئیں۔ جب یہ لوگ اقتدار کی سیاست میں تھے تو یہ سب مل کر ملک میں جمہوریت،آئین، قانون اور پارلیمنٹ یا سول بالادستی… عوامی مفادات کی سیاست… منصفانہ اور شفاف انتخابات کے مربوط نظام… آئینی، سیاسی، قانونی و انتظامی اداروں کی خودمختاری یا بالادستی… اداروں میں سیاسی عدم مداخلت، اپنی ہی سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو جمہوری بنیاد پر استوار کرنے، احتساب کے منصفانہ نظام کو قائم کرنے، سیاست اور جرائم کے باہمی گٹھ جوڑ کے خاتمے کے معاملات پر کیوں کچھ نہ کرسکے؟ آج ہمیںجن مسائل کا سامنا ہے یا جن پر حزبِ اختلاف کا رونا ہے اُن پر اپنی ہی حکومتوں میں اصلاحات کا عمل کیوں نہیں ہوسکا؟ کیا یہ سیاسی المیہ بدستور رہے گا کہ ہم حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے طور پر دو سیاسی چہرے دیکھیں جو ایک دوسرے سے تضاد اور ٹکرائو رکھتے ہوں؟ ایسے میں یہاں پر جمہوریت کی بحث محض لفظوں یا جذبات کے کھیل میں ایک سیاسی تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ سیاسی قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے، وہ زیادہ دور نہ جائیں، پچھلے دو برس کی سیاست کا تجزیہ کرلیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پس پردہ جوکھیل کھیلا جارہا تھا اور جس انداز سے یہ دونوں جماعتیں ان ہی پسِ پردہ قوتوں کے ساتھ مل کر کچھ لو اور کچھ دو کا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہی تھیں وہ کیسے جمہوری سیاست کے دائرۂ کار میں آتا ہے؟ یعنی اگر اسٹیبلشمنٹ سیاسی قوتوں کی حمایت کرے تو سب اچھا، اور اگر مخالفت کرے تو پھر پیٹ میں جمہوریت کے مروڑ اٹھ جائیں اور ہم لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑیں اور اس جنگ کو بطور سیاسی ہتھیار طاقت ور قوتوں کے ساتھ لین دین کے طور پر استعمال کریں۔
اس لیے موجودہ پی ڈی ایم کا جو بیانیہ ہے وہ محض حکومت کو گرانے اور عمران خان حکومت کو چلتا کرنے کا ہے۔ اس ملک کو حزبِ اختلاف عملاً کیسے بہتر بنائے گی اور اس کا حکمرانی کا متبادل نظام کیا ہوگا اس کے کوئی خدوخال موجود نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی یہی قوتیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام دے رہی ہیں کہ وہ موجودہ حکومت پر سے شفقت کا ہاتھ اٹھا کر ہم پر اپنی شفقت کا مظاہرہ کریں، ہم بہتر طور پر آپ کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔ جمہوری جدوجہد ہونی چاہیے اور ملک کو بھی جمہوری بنانے کے لیے سب کو آگے بڑھنا چاہیے، لیکن یہ جمہوری جدوجہد کیا ہے؟ اور جدوجہد میں عام آدمی کے مفادات، سیاست، جمہوریت اور قانون سمیت ادارہ جاتی مفادات کو کیسے تقویت دینا ہے، یہ واضح اورشفاف نظر آنا چاہیے۔