پی ٹی ایم اور حکومت دونوں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں مصروف
ملک کا سیاسی منظرنامہ ایک بار پھر بدلتا ہوا محسوس ہورہا ہے، جس کے ساتھ ہی تشویش کے سائے بھی گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں کے بعد وزیراعظم عمران خان کے پے درپے جلسے، اور اُن کے وزراء اور مشیروں کے اپوزیشن پر حملے اس تشویش کو مزید گہرا کررہے ہیں۔ پنجاب میں کئی ادوار کے سیاسی قلاباز فیاض الحسن چوہان کی جگہ اسی طرح کی سیاسی شہرت کی حامل ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی تعیناتی ظاہر کررہی ہے کہ حکومت خود محسوس کرتی ہے کہ اُس کی صفوں میں تسلی بخش کام نہیں ہورہا۔ حکومت میڈیا کے محاذ پر ساری سیاسی لڑائی لڑ رہی ہے۔ فیاض الحسن چوہان کو پہلے اس عہدے سے ہٹا کر کچھ عرصے بعد ہی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ وہ دلیل سے کام لینے والے آدمی نہیں ہیں۔ اپنا زیادہ کام لفظوں کی غلیل سے چلاتے ہیں۔ یہ کام چند دن تو حکمرانوں کو پسند آتا ہے، مگر جوابی حملے کے بعد جو جواب در جواب چلتا ہے وہ حکمرانوں اور حکومتوں کی پوزیشن بہتر کرنے کے بجائے خراب کردیتا ہے۔ فردوس عاشق اعوان مرکز میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے بعد اس طرح ہٹائی گئی تھیں جیسے وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہی ہیں۔ اب انہیں یہی کام سب سے بڑے صوبے پنجاب میں دے دیا گیا ہے۔ اُن کی اِس بار کی ’’چاکری‘‘ بھی چند ماہ سے زیادہ کی نہیں ہے۔ حکومتی صفوں میں میڈیا کے محاذ پر ایک نیا اضافہ علی امین گنڈا پور کا ہے، لیکن میڈیا اور اپوزیشن نے جس طرح انہیں آڑے ہاتھوں لیا ہے، لگتا ہے کہ بہت جلد انہیں اگلے محاذوں سے پچھلے مورچوں پر لانا پڑے گا۔ حکومت کے نصف درجن سے زیادہ وزراء اور مشیر مستقل بنیادوں پر، اور اتنے ہی گاہے بہ گاہے اپوزیشن پر تیراندازی کررہے ہیں۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ کپتان اس کارکردگی سے مطمئن نہیں، وہ ہر بار کوئی نیا سیاسی بولر میدان میں اُتارتے ہیں، لیکن ہر بار کامیابی اُن سے دور ہورہی ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں سب سے اہم اور تشویش ناک بات خود وزیراعظم کا اشتعال ہے۔ اپنے جلسوں میں وہ جس طرح اپوزیشن پر حملے کررہے ہیں وہ سیاست ہی نہیں اخلاقیات میں بھی اُن کے قد کو چھوٹا کررہے ہیں۔ اُن کا اچانک یکے بعد دیگرے جلسے کرنا، ان جلسوں میں منہ سے جھاگ لاتے ہوئے اور چہرے پر سخت تنائو کے ساتھ اپوزیشن رہنمائوں پر حملے کرنا اُن کی کمزور پوزیشن کا اظہار ہے۔ وہ تاحال کنٹینر پر موجود ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہیں سے کامیابی اُن کے قدم چومے گی۔ اس جذباتی حکمتِ عملی کے ساتھ وہ اپنے اصل فرائض اور ذمہ داریاں نظرانداز کرتے جارہے ہیں جو اُن کی مستقبل کی چارج شیٹ میں اضافہ کررہی ہے۔ اُن کی حکومت اب تک کچھ ڈیلیور نہیں کرسکی۔ اپوزیشن جماعتوں اور رہنمائوں کو گالیاں دے کر انہوں نے جو کچھ حاصل کرنا تھا، کرلیا۔ اب اس سے مزید کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ وہ تاحال اپنے منشور پر دو فیصد بھی عمل نہیں کرسکے۔ 50 لاکھ مکانات میں سے ابھی ایک بھی تیار نہیں ہوسکا۔ یہی حال ایک کروڑ نوکریوں کا ہے۔ مہنگائی ہر روز بڑھ رہی ہے، پہلے سے پیچیدہ نظام میں خوف زدہ بیوروکریسی کسی کام کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں۔ چنانچہ عوام اپنے کاموں کے لیے دفاتر میں پہلے سے زیادہ دھکے کھا رہے ہیں۔ بلدیاتی ادارے توڑنے کے بعد حکومت عوام کو نچلی سطح پر معمولی سا ریلیف بھی نہیں دے پارہی، اور اس ساری صورتِ حال کو اپوزیشن کیش کرارہی ہے۔ چنانچہ اُس کے جلسوں میں حاضری بڑھ رہی ہے اور جوش و خروش میں اضافہ ہورہا ہے جو حکومت کے لیے مزید پریشانی کا باعث ہے۔ اب شاید اپوزیشن نیب اور عدالتوں سے بھی بے خوف ہوتی جارہی ہے۔
موجودہ سیاسی منظرنامے میں پی ڈی ایم اتحاد اور حکومت دونوں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں مصروف ہیں جو سیاسی اعتبار سے انتہائی تکلیف دہ ہے کہ فیصلے اور کوئی تبدیلی اب بھی عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ہوگی۔ دونوں گروہ اپنی بارگیننگ پوزیشن بہتر بناکر پیش کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیںکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے زیادہ سودمند اور مؤثر ہیں۔ اس بات کا اندازہ خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہوگیا ہے، چنانچہ وہ کسی حد تک دبائو میں آنے کے باوجود خوش ہے کہ سیاست دانوں کی امید کے سارے راستے اُن ہی کے چوراہے پر آکر رکتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے پی ڈی ایم بناکر اسٹیبلشمنٹ کو اپنی جانب متوجہ کیا، پھر بڑے جلسے کرکے اُسے متاثر بھی کرلیا۔ نوازشریف نے اِن جلسوں میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض کے نام لے کر اسٹیبلشمنٹ پر اپنا دبائو بھی بڑھا لیا، لیکن نوازشریف کے اس حملے کا ثمر وہ خود یا اُن کی جماعت حاصل نہیں کرسکے گی، کیونکہ گیارہ جماعتی اتحاد میں سے کسی نے بھی اس کی حمایت نہیں کی، بلکہ بلاول بھٹو نے تو باقاعدہ اس کی مخالفت بھی کردی ہے۔ خود مسلم لیگی حلقوں میں اس کی مخالفت جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری کے استعفوں سے سامنے آگئی ہے۔ وہ بہانہ کچھ بھی بنائیں، عسکری قیادت پر الزام تراشی ہی اصل وجۂ شکایت ہے کہ ان دونوں، اور ان کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کے درجنوں لیڈروں کی ساری سیاست اسٹیبلشمنٹ خصوصاً عسکری حلقوں کی تائید و حمایت ہی سے آگے بڑھی ہے اور آئندہ بھی اُن کی اصل طاقت یہی حمایت ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) نے اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لاکر اپنے لیے مشکلات پیدا کرلی ہیں۔ مائنس نوازشریف پہلے ہی ہوچکا، اب مسلم لیگ(ن) کے حصے بخرے بھی ہوسکتے ہیں، اور خود اس جماعت کے اندر سے قیادت کا ایک حصہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی وفاداری کا یقین بھی دلا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی دبائو کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات سیدھے کرنے کی خاموش حکمت عملی پر گامزن ہے، اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں اس کے اثرات بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ عمران خان کا سارا اشتعال اور زور اس بات پر ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلائیں کہ اپوزیشن اس کی وفادار نہیں بلکہ اُسے گندا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے، جبکہ وہ اور اُن کی جماعت جس پر سلیکٹڈ کا پہلے ہی الزام ہے، اسٹیبلشمنٹ کے تمام مفادات اور مطالبات بہتر انداز میں پورے کرسکتی ہے۔ عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ اپوزیشن جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے کو بڑھائیں۔ وہ اس میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں یہ وقت بتائے گا، لیکن موجودہ صورتِ حال میں اسٹیبلشمنٹ اب اکیلے اُن کا بوجھ نہیں سہہ سکے گی، وہ یقیناً اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بھی ڈیل کی پالیسی اپنائے گی۔ اس ساری صورتِ حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس سارے گند میں نہ کہیں جمہوریت ہے نہ عوام، نہ ووٹ کو عزت دینے کی بات ہے نہ منتخب حکومتوں کی اس پر بالادستی کا معاملہ۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں خود اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو آگے بڑھا رہی ہیں اور ماضی کی طرح اب بھی اُس کی نظرِکرم کی متلاشی ہیں۔ اگرچہ اِس بار اسٹیبلشمنٹ خود بھی دبائو میں ہے جس کی وجہ موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی ہے، اور اس حکومت کو اقتدار سونپنے کا الزام اسی اسٹیبلشمنٹ پر ہے، لیکن مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں بھی اُس کی پوزیشن نظر آرہی ہے جو بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں۔