امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا خطاب
جماعت اسلامی پاکستان ملک میں اسلام کا عملی نفاذ چاہتی ہے اور اس کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ پارلیمنٹ ہو یا پارلیمنٹ سے باہر کا کوئی میدان… جماعت اسلامی ہر جگہ اس کے لئے کوشاں ہے۔ ملکی معیشت اور عام آدمی کے لیے اس کے ثمرات ایک بہت وسیع موضوع ہے، اس پر ملک گیر سطح پر مسلسل بحث کی ضرورت ہے تاکہ کوئی ایسی صورت اور شکل سامنے آجائے کہ آئین کے آرٹیکل 31 کی روشنی میں ملک میں ہر شعبہ زندگی میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ ہوجائے۔ اپنی کوشش کے اظہار کے لیے جماعت اسلامی نے ربیع الاول کی مناسبت سے طے کیا ۔ اسلام آباد جماعت اسلامی کی مقامی تنظیم نے اسی نسبت سے یہ پروگرام طے کیا اور الفلاح ہال میں یہ پروگرام ہوا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق مہمانِ خصوصی تھے، جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصر اللہ رندھاوا اس پروگرام کے محرک تھے، جب کہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ماہر تعلیم سید محمد بلال نے انجام دیے۔ سیمینار میں ماہرینِ معیشت، علمائے کرام اور اس شعبے سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی اور اپنے پیپرز پڑھے۔ ماہرین نے نقشہ کھینچا کہ معیشت کی تباہی کی صورتِ حال کو عمیق نظروں سے دیکھا جائے تو تمام خرابیوں کی جڑ سودی نظامِ معیشت ہے۔ پاکستان پر اس وقت سو ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ ہے جس نے پوری معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ ملک کا کُل جی ڈی پی 7500ارب روپے ہے جس میں سے 2900 ارب سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جو کُل آمدن کا 39.7 فیصد بنتا ہے۔ اگرکسی ملک کی آدھی آمدن سود کی ادائیگی میں چلی جائے، تو وہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے؟ اس وقت امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے 75 ممالک میں اسلامی بینکاری جاری ہے اور حیرت انگیز طور پر غیر مسلم بھی اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ برطانیہ کے جس بینک نے اسلامی بینکاری کا آغاز کیا تھا اُس میں سب سے پہلا اکائونٹ ایک غیر مسلم نے کھلوایا، اور اب اس بینک کی 14شاخیںقائم ہوچکی ہیں۔ ملائشیا کے اسلامی بینکوں میں چالیس فیصد سے زائد کھاتہ دار غیر مسلم ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ ہمارے ہاں اس پر زیادہ پیش رفت نہ ہونے کی اصل وجہ ملک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا معیشت پر کنٹرول ہے۔ آئی ایم ایف نے اژدھے کی طرح معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ سود پر قرضے دینے والے یہ کیسے پسند کرسکتے ہیں کہ اُن کا کاروبار بند ہوجائے! اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکاری کے لیے ایک ڈپٹی گورنر تو مقرر کیا ہے لیکن سودی معیشت کے خاتمے کا واضح روڈمیپ نہیں دیا، جو دیا جانا ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے دوٹوک اعلان ہوجانا چاہیے کہ کب تک آئین کی ان دفعات پر عمل درآمد ہوجائے گا جس کے ذریعے سودی نظام کا خاتمہ اور اسلامی نظام معیشت قائم ہوجائے۔ الفلاح ہال میں ہونے والے سیمینار سے پروفیسر ڈاکٹر علی محی الدین قراداوی، قانت خلیل اللہ، پروفیسر خلیل الرحمٰن چشتی، ڈاکٹر عتیق الرحمٰن، حافظ عاطف وحید نے بھی خطاب کیا۔
سینیٹر سراج الحق نے پاکستان میں سود پر مبنی معاشی نظام کو بحرانوں کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا اور اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک کو مزید گہرائی میں ڈال رہی ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے ڈھائی سال میں قومی معیشت کو سنگین بحرانوں سے پیچھے کھینچنے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، اس کے بجائے اسلامی معاشی نظام کے مقابلے میں ربا پر مبنی معاشی نظام کو ترجیح دیتے ہوئے معاشی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے، جبکہ اسلامی معاشی نظام ہی ملک میں معاشی خوشحالی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے معاشی جادوگروں نے سفارش کی ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کے لیے ربا پر مبنی غیر ملکی نظام کو جاری رکھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل اسلامی معاشی نظام کو عملی جامہ پہنانے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے پاس ملک میں آزاد معاشی نظام کو نافذ کرنے کے لیے مکمل مہارت ہے، کئی دہائیوں تک پاکستان پر حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کا شکار ہیں اور پاکستان کو آج عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ انہوں نے پی آئی اے اور دیگر اداروں کا حوالہ دیا جو برسوں سے نقصان میں جارہے ہیں لیکن پی ٹی آئی حکومت نقصان روکنے اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ ماہرین معاشیات کا اتفاقِ رائے تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اسپانسر شدہ غیر ملکی پالیسیاں پاکستان کے معاشی مسائل کو بڑھاوا دینے کی بنیادی وجہ ہیں۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ قرضوں پر سود ملک کی معیشت کو خراب کرنے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حکومت نے مدینہ کی اسلامی ریاست کا دعویٰ کیا تھا، مگر 23 ماہ بعد بھی سود کے خلاف کچھ نہیں کر سکی۔ سودی نظام اور مدینہ کی ریاست ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ملکی آئین اور شریعت، دونوں سودی کاروبار کی اجازت نہیں دیتے۔ سودی معیشت آئین و شریعت کی کھلی خلاف ورزی اور اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔ جب تک سودی نظام سے توبہ اور زکوٰۃ و عشر کے پاکیزہ نظام کو اختیار نہیں کیا جاتا، ملکی ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ سودی نظام لاگو کرنے والے سودی نظام سے بیزار ہیں، یہ استحصالی نظام ہے،سودی نظام کی وجہ سے اگر کھیتوں میں سونا بھی نکلتا ہے تو اُس کو آگ لگا دیں،سودی نظام تباہی کا نظام ہے۔ اسلامی نظام قوم کے لیے چھتری ہے اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے پانچ مسائل ہیں: ہمارے وسائل کم ہیں اخراجات زیادہ ہیں،بیرونی اوراندرونی قرضے زیادہ ہیں، ہماری معیشت دستاویزی نہیں ہے، حکومتی ادارے خسارے میں ہیں جس میں پی آئی اے، اسٹیل مل اور ریلوے جیسے ادارے شامل ہیں،صحت اور تعلیم پر حکومت پیسے خرچ نہیں کررہی،حکومت نے صحت اور تعلیم سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت کو ہم نے تجاویز دی تھیں، حکومت نے آج تک شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔ حکومت کو ایف بی آر کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا، لوگ ایف بی آر کو ٹیکس نہیں دینا چاہتے،اگر حکومت زکوٰۃ کا نظام متعارف کردے تو عالمی مالیاتی اداروں کی ضرورت نہیں ہو گی۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ ملک کا کل بجٹ 7.7 ٹریلین ہے جس میں سے تین ٹریلین سود میں چلا جاتاہے، 13 سو ارب روپے دفاع، جبکہ 475 ارب روپے حکومت کے جاری اخراجات پر خرچ کرنا پڑتے ہیں، جس کے بعد ملک میں ترقیاتی کاموں کے لیے صرف450 ارب روپے بچتے ہیں جس کی وجہ سے ملکی ترقی کا پہیہ جام ہوچکاہے، اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام اور تجارت کو حلال کیاہے لیکن اسلام کے نام پربننے والے ملک میں ہر حکومت نے اللہ کے احکامات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے سودی قرضے لے کر ملک و قوم کو عالمی مالیاتی اداروں کا اسیر بنایا۔ آج آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی مرضی کے خلاف حکومت کوئی پالیسی نہیں بناسکتی، حکمران خود انحصاری اختیار کرنے کے بجائے قرضوں کے حصو ل کو ترجیح دیتے ہیں اور آمدن سے زیادہ اخراجات کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ غیر رجسٹرڈ اکانومی کی وجہ سے بھی حکومت کو ٹیکسوں کے حصو ل میں مشکلات کا سامنا رہتاہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حکومتی اداروں کے خسارے نے اداروں کی کارکردگی کو شدید متاثر کیاہے اور بیشتر ادارے تو تباہ ہوچکے ہیں۔ حکومت کے پاس تعلیم، صحت اور فلاح عامہ کے لیے وسائل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی نے ملک میں مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور عوام میں ناامیدی اور مایوسی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ حکومت اگر زکوٰۃ و عشرکا نظام نافذ کردے تو زکوٰۃ دینے والوں کی تعداد ٹیکس دینے والوں سے دوگنا ہوسکتی ہے۔ لوگ ٹیکس دینے کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں جبکہ زکوٰۃ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں زکوٰۃ و صدقات دینے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سودی شکنجے اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے آزادی کے لیے فوری طور پر ملک میں اسلامی نظام معیشت نافذ کرے۔