افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک سوڈان اور امریکہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت امریکہ سوڈان کا نام دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی فہرست سے خارج کردے گا۔ اس معاہدے کے بعد امریکی عدالتوں میں سوڈان کے خلاف زیر سماعت مقدمات کا تصفیہ بھی کیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے مطابق اس سمجھوتے کے بعد امریکہ نے سوڈان کا نام دہشت گرد ممالک کی فہرست سے خارج کرنے کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ اس عمل کے بعد امریکی کانگریس 45 روز میں ٹرمپ انتظامیہ کے اقدام پر اعتراض اٹھا سکتی ہے، تاہم مائیک پومپیو کے مطابق کانگریس میں دونوں جماعتوں یعنی ری پبلکن اور ڈیموکریٹ کے درمیان اس معاملے پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ درست اقدام کیا جانا چاہیے۔ سوڈان کا امریکہ کی جانب سے ’’دہشت گرد ممالک‘‘ کی فہرست سے اخراج اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کرنے یا بہ الفاظِ دیگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا انعام ہے۔ گزشتہ ماہ 23 اکتوبر 2020ء کو سوڈان نے بھی متحدہ عرب امارات اور بحرین کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ کرلیا تھا۔ یکم نومبر 2020ء کو امریکی صدر کی موجودگی میں سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ امریکی صدر نے سوڈان کی نئی حکومت کو یہی لالچ دیا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا انعام دہشت گرد ممالک کی فہرست سے نام خارج کرنے کی صورت میں دیا جائے گا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں یعنی انتخابی مہم کی مصروفیات کے دوران میں بھی اسرائیل کے قدموں میں ایک اور مسلم ملک کو ڈالنے کا تحفہ دیا ہے۔ اس معاہدے سے متعلق مذاکرات میں امریکی صدر ٹرمپ کے سینئر مشیر اور داماد جیررڈکشنر کا خصوصی ہاتھ ہے۔
امریکہ نے تقریباً دو عشروں سے افریقی مسلمان ملک سوڈان کو دبائو میں رکھنے کے لیے دہشت گرد ممالک کی فہرست میں رکھا ہوا تھا۔ صدر بل کلنٹن کے زمانے میں امریکی حکومت نے سوڈان پر کروز میزائلوں سے حملہ بھی کیا تھا۔ اب محض اسرائیل کو تسلیم کرلینے کی وجہ سے وہ پاک صاف ملک بن گیا ہے۔ سوڈان پر اتنا دبائو ڈالا گیا کہ وہ جنوبی سوڈان میں دارفور کو علیحدہ کرنے پر بھی مجبور ہوگیا۔ سوڈان کی حکومت کی جانب سے امریکی جبر و استبداد کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بعد سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ سوڈان کی بڑی سیاسی جماعتیں سختی سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالفت کررہی ہیں۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ 1967ء میں عرب لیگ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس فیصلے کی خلاف ورزی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اوسلو معاہدے اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت مصر، اردن اور پی ایل او نے اسرائیل سے معاہدہ کیا جس پر اسرائیل نے عمل بھی نہیں کیا، یہاں تک کہ یاسر عرفات کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ حماس کے قائد شیخ احمد یٰسین اور اس کے بعد اُن کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی کو میزائل حملوں سے شہید کیا گیا، لیکن امریکہ نے اسرائیل کو کبھی بھی دہشت گرد ریاست قرار نہیں دیا، حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے۔ اس معاہدے سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ ’’دہشت گردی‘‘ امریکی حکومت کا عالمِ اسلام کو دبائو میں رکھنے کا ایک حربہ ہے۔ دہشت گردی کا قانون صرف اسرائیل کے تحفظ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے بارے میں قانون سازی کے بعد امریکہ نے سب سے پہلے دو شخصیات نیلسن منڈیلا اور یاسر عرفات کو دہشت گرد قرار دیا، بعد میں ان سے مذاکرات اور معاہدے بھی کیے۔ اسرائیل کو تسلیم کرلینے کے بعد یاسر عرفات کو امن کا نوبیل انعام بھی دیا گیا۔ اب یہی تاریخ اس طرح دہرائی جارہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلینے کے بعد سوڈان پاک صاف ہوگیا۔ ایک وقت تھا کہ یہی امریکہ سوڈان کو برائی کا محور اور دہشت گردی کا مجرم قرار دیتا تھا ،اب سوڈان امن کا علَم بردار ہوگیا ہے، اور امریکہ نے خوش ہوکر کہا ہے کہ ’’سوڈان کی عبوری حکومت نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی، جمہوری اداروں کی تعمیر، اور اپنے پڑوسیوں سے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے جرأت اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ اس کے نئے آغاز میں شراکت کرنے پر اتفاق کیا گیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ عالمی برادری میں پوری طرح پہچانا جائے‘‘۔
یہ ہے امریکہ کا اصل چہرہ جس سے عالمِ اسلام کے تمام حکمران واقف ہیں، لیکن وہ اپنے عوام کو بتانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کمزوری میں صرف سوڈان جیسے ممالک کے حکمران ہی شامل نہیں ہیں، بلکہ تمام ہی مسلم ممالک شامل ہیں۔ تمام مسلم ممالک کے حکمران اپنے عوام کے خلاف تو جنگ کرتے ہیں، لیکن طاقتور ممالک کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔ چاہے وہ بادشاہتیں ہوں یا رجواڑے، فوجی ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوری حکمران، کوئی بھی عالمی طاقت کے سامنے مزاحمت کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ سوڈان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد کچھ مزید مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں۔ سوڈان نے اس دعوے کی تصدیق کردی ہے۔ اس سے کم از کم مسلمانوں کو یہ تو معلوم ہوگیا ہے کہ ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ ایک دھوکا ہے۔ یہ جنگ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ نہیں ہے بلکہ مسلم عوام کو دہشت زدہ کرکے غلامی پر راضی کرنے کی جنگ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ اور دہشت گردی کی امریکی تعریف کو چیلنج کیا جائے۔ لیکن کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم ملک نے دہشت گردی کی جنگ کو چیلنج نہیں کیا۔ امریکی احکامات کی اطاعت کے باوجود مسلمان ممالک کے مصائب ختم نہیں ہوتے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی نام نہاد امریکی جنگ کا ’’اتحادی‘‘ بننے کے باوجود امریکہ نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو دہشت گرد ممالک کی فہرست میں ڈالا ہوا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ جہاد اور دہشت گردی کو ہم معنی قرار دے دیا جائے۔ اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن دہشت گرد تنظیم داعش کا تخلیق کار امریکہ کو قرار دے چکے ہیں۔