ٹکرائو کی اس سیاست سے بچنا اور خود کو محفوظ رکھنا حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور حزبِ اختلاف سمیت میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے
عمومی طور پر پاکستانی سیاست میں ہمیشہ سے حکومت اورحزبِ اختلاف میں نمایاںٹکرائو نظر آتا تھا۔ ٹکرائو کی یہ کیفیت آج بھی ہماری سیاست میں بالادست ہے۔ کوئی بھی فریق دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر فریق کی کوشش ہے کہ وہ دوسرے کو نہ صرف شکست دے بلکہ اس کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے سے انکار کردے۔ لیکن اِس بار سیاسی محاذ آرائی یا ٹکرائو کی سیاست میں ایک پہلو حزبِ اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو کا بھی نظر آتا ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی اس ٹکرائو کی پسِ پردہ کئی شکلیں ہم دیکھتے رہے ہیں، لیکن اِس بار یہ ٹکرائو زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی مجالس ہوں، جلسے ہوں، ٹی وی ٹاک شوز ہوں یا سوشل میڈیا… سب جگہ سیاسی ہیجان غالب نظر آتا ہے۔
حزبِ اختلاف بالخصوص نوازشریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کے بقول ان کی لڑائی وزیراعظم عمران خان سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ یا اس میں موجود مرکزی کرداروں سے ہے۔ ان کے بقول موجودہ بحران اسی اسٹیبلشمنٹ کا پیدا کردہ ہے اور وزیراعظم عمران خان یا اُن کی حکومت ایک پتلی تماشا سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کا نشانہ محض ایک ادارہ یا اس کے چند افراد ہی نہیں، بلکہ وہ ہر ادارے بشمول عدلیہ اور نیب کو بھی نہ صرف سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ ان کو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے گٹھ جوڑ سے دیکھ کر اپنا بیانیہ پیش کرتے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے محاذ پر بھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک میں کوئی بڑی سیاسی جنگ لڑی جارہی ہے اور لوگ اس میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا مقدمہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں حکومت، حزبِ اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ کی جنگ میں کچھ ایسے بیانات بھی حزبِ اختلاف یا حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سننے کو مل رہے ہیں جو ایک خطرناک لڑائی کا اشارہ دیتے ہیں۔ کوئٹہ کے جلسے میں آزاد بلوچستان کا نعرہ، قومی اسمبلی میں سابق اسپیکر سردار ایاز صادق، اردو زبان کے بارے میں محمود خان اچکزئی کا بیان، وزیراعظم یا ریاست پر کشمیر کا سودا کرنے کا الزام، ایف اے ٹی ایف پر پاکستان کے اقدامات پر شکوک و شبہات پیدا کرنا، سی پیک منصوبے پر پاکستان کی جانب سے سست روی اور چین کے مقابلے میں امریکی مفادات کو تحفظ دینے، اور دہشت گردی سے نمٹنے پر ریاست یا حکومت کے اقدامات پر الزامات… یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح کی بیان بازی سے ہمارا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہورہا ہے۔ ان بیانات سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو پہنچ رہا ہے جو ہماری سیاست سے جڑے کرداروں کے بیانات کو بنیاد بناکر ہمارے خلاف منفی مہم چلا رہا ہے۔
بدقسمتی سے اداروں کے ساتھ براہِ راست ٹکرائو کی یہ کیفیت کسی بھی صورت میں ہماری سیاست، جمہوریت، ریاست یا ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہوسکتی۔ ٹکرائو کی اس سیاست سے بچنا اور خود کو محفوظ رکھنا حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور حزبِ اختلاف سمیت میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اس ٹکرائو سے صرف ہماری ریاست یا سیاست کو ہی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اس کا براہِ راست فائدہ ہماری دشمن قوتوں کو ہوگا، جو ہمیں داخلی، علاقائی اور خارجی محاذ پر تنہا، یا ایک منفی ملک کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ذاتیات پر مبنی یا شخصیات کو بنیاد بناکر جو کھیل کھیلا جارہا ہے اُس سے ریاستی مفاد بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سامنے ہدف عملًا ریاست کا مفاد کم اور اپنا مفاد زیادہ ہوگیا ہے۔ نوازشریف یا مریم نواز کا بیانیہ جسے عملی طور پر جمہوریت اور سول بالادستی کا بیانیہ بناکر پیش کیا جارہا ہے وہی اس وقت حزبِ اختلاف کی سیاست کے لیے ایک بڑے خطرے کا بیانیہ بن گیا ہے۔ حزبِ اختلاف کو خود ایک بڑا خطرہ نوازشریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست سے ہے، جو صرف اور صرف ٹکرائو کا ایجنڈا ہے۔ یہ جو کچھ منفی طرز کے بیانات سننے کو مل رہے ہیں جن میں ریاست کے اداروں کو ہی چیلنج کیا جارہا ہے وہ کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیے جارہے، بلکہ یہ کھیل ایک منظم اور سوچی سمجھی حکمت کا حصہ ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف اداروں میں ٹکرائو اور تقسیم کے کھیل کو تقویت دینا ہے، اور اس کا نتیجہ جمہوری عمل کو مزید کمزور کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
حکومت کا اپنا رویہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے ردعمل کی سیاست کررہی ہے، اور اس کا اثر ایک بڑی سیاسی محاذ آرائی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے حلیف یا مخالف کے طور پر براہِ راست فریق بنارہی ہیں، اسے ہر صورت روکنا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دونوں سیاسی فریق کو یہ پیغام دیں کہ وہ اپنے معاملات سیاسی بنیادوں پر حل کریں اور بلاوجہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے حق یا مخالفت میں پیش کرنے سے گریز کریں۔ اگرچہ سیاسی فریقین میں مکالمہ ہی مسئلے کا حل بنتا ہے، لیکن اس وقت جو سیاست حکومت اور حزبِ اختلاف کی چل رہی ہے اس میں مکالمے کے امکانات کہیں دور گم ہوکر رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم حزب اختلاف کی قیادت نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمٰن سمیت کسی کو نہ تو قبول کرتے ہیں نہ اُن سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ یہی رویہ اب نوازشریف، مریم نواز اورمولانا فضل الرحمٰن کا بھی ہے جو عمران خان کے نہ تو سیاسی و حکومتی مینڈیٹ کو قبول کرتے ہیں، اورنہ ہی اُن سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ان فریقین میں مکالمے کا ہونا سوالیہ نشان ہے۔
سیاست میں عمومی طور پر دروازے بند نہیں کیے جاتے بلکہ ہمیشہ سے کھڑکی کو کھلا رکھا جاتا ہے تاکہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نکلتا ہو تو اسے ہر صورت اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن ہماری سیاست دروازے کھولنے کے امکانات کو پیدا کرنے کے بجائے انہیں مزید بند کرکے قومی سیاست کو بند گلی میں لے جارہی ہے۔ اس کڑوے سچ کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جو کچھ ہماری قومی سیاست میں ہورہا ہے یہ لڑائی جمہوری یا سول حکمرانی کی لڑائی یا کسی اصول اورنظریے کے بجائے محض طاقت یا اقتدار کے کھیل میں بندر بانٹ، یا کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر لڑی جارہی ہے۔ حزبِ اختلاف ہو یا حزبِ اقتدار… ان کا جمہوری مقدمہ پہلے بھی بہت کمزور تھا اوراب بھی اس کی کوئی حیثیت نہیں۔کیونکہ یہ سب لوگ اس نام نہاد لڑائی سے قبل اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر پسِ پردہ مفاہمت کا کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ اس کھیل کی ہی ناکامی کے بعد اب جمہوریت اورسول حکمرانی کو بطور سیاسی ہتھیار اختیار کرکے اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی سیاست کو طاقت دی جارہی ہے۔ اس لیے حزبِ اقتدار، حزبِ اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے تمام فریق بند راستے سے نکلیں اور مفاہمت کا ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو صرف اور صرف ریاست یا ملک کے مفاد سے جڑا ہونا چاہیے۔