”اس بچے کو کچھ بھی کرلیں، یہ بیمار ہی پڑتا ہے۔“
گرمی ہو، بہار ہو، یا سردی کا موسم۔۔۔ اس طرح کا تبصرہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔
جب تفصیلات میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ ماں باپ بھی لاشعوری، اور کبھی کبھی شعوری طور پر بھی بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہوتا کیا ہے اگر اس کو سمجھ لیں تو شاید احتیاط کرنے سے بڑی بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔
بچوں میں جو بیماریاں کامن ہیں ان کی تقسیم اس طرح کی جاسکتی ہے:
ماحول یا ہوا سے پھیلنے والی بیماریاں
پانی یا کھانے کے ذریعے لگنے والی بیماریاں
وراثتی یا جینیٹک مسائل کی وجہ سے بیماریاں
ماحول یا ہوا سے لگنے والی بیماریاں
سردی اور گرمی دونوں میں مختلف قسم کی موسمی بیماریاں بچوں میں دیکھنے میں آتی ہیں، مثلآً موسمی بخار، نزلہ کھانسی،گلے میں خراش، پسلی چلنا (Bronchiolitis)، نمونیہ، آشوب ِچشم (Conjunctivitis)،الرجی، جلد کی حساسیت اور خارش وغیرہ۔
آج کل ملک میں سردی کی ابتدا ہوچکی ہے، اور کراچی میں بھی رات میں اور صبح کے اوقات میں خنکی محسوس ہونے لگی ہے، جس کی وجہ سے کلینک میں ہوا اور ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے زیادہ بچے سانس کے امراض میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔
ہوا میں خشکی کی وجہ سے جلد کے امراض میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
یہاں چونکہ موضوع احتیاط ہے، اس لیے علاج سے ہٹتے ہوئے احتیاط پر ہی بات کریں گے۔
مثلاً کیا کریں کہ بچے اس موسم میں محفوظ رہیں؟
بچے چونکہ موسم کی تبدیلی کے اثرات کا جلدی شکار ہوجاتے ہیں، اس لیے سردی میں خاص طور پر اور گرمی میں عمومی طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ سردی میں دیر تک باہر نہ رہیں خاص طور پر صبح سویرے اور شام کو، یعنی صبح اسکول کے اوقات میں سردی سے بچاؤ کے حفاظتی انتظامات کے ساتھ باہر نکلیں، موٹر سائیکل اور کھلی سواری رکشہ میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ شام کو باہر کی تقریبات سے گریز کریں، اسی طرح سانس کے ذریعے لگنے والی بیماریوں سے بچاؤ کی بہترین ترکیب اس ماحول سے دوری ہے۔
جن بچوں کو الرجی ہے ان کے سامنے جھاڑو نہ لگائیں، سگریٹ نوشی نہ کریں ، پرفیوم اور باڈی اسپرے استعمال نہ کریں، ، روم اسپرے اور مچھر مار اسپرے سے بھی احتیاط لازم ہے۔،
سگریٹ کے لیے ایک خاص بات کہ نہ صرف اس کا دھواں قاتل ہے بلکہ اس کے پینے والے کے کپڑوں اور اس کے آس پاس بھی کئی کیمیکل جمع ہوجاتے ہیں جو کہ بچوں کے لیے خاص طور پر شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
الرجی والے گھرانوں میں پرندے اور بال والے جانور بھی بطور پالتو جانور نہیں ہونے چاہئیں، کیونکہ بلی، کتے، خرگوش کا، فر بھی سانس والوں کی تکلیف میں اضافہ ہی کرتا ہے۔
اسی طرح چھوٹے بچے کمبل کے روئیں سے الرجک ہوسکتے ہیں، تو بہتر ہے کہ کمبل کے بجائے لحاف یا پھر کمبل پر غلاف کا استعمال کیا جائے۔
کمرے کے خشک ماحول/ ہوا کو کمرے میں ایک برتن میں پانی رکھ کر مرطوب/ Humidifying کیا جاسکتا ہے تاکہ گلے کی خراش سے بچاؤ ممکن ہو، ورنہ بازار میں موجود Humidifier استعمال کریں۔
پانی اور کھانے سے لگنے والی بیماریاں
ہر بڑے شہر کی طرح کراچی میں بھی ہوٹلنگ تمام تر اپیلوں کے باوجود زیادہ ہے، اور اب تو ہوم ڈیلیوری کے ذریعے آپ کے من پسند کھانے کی فراہمی آپ کے گھر پر ہورہی ہے، مگر کبھی ہم نے سوچا کہ اس بڑھتے ہوئے رجحان سے ہم پیٹ کی مختلف بیماریوں مثلاً یرقان، ٹائیفائیڈ، ڈائریا، فوڈ پوائزننگ میں اب زیادہ مبتلا ہورہے ہیں۔
گھر میں بنے ہوئے کھانے کی نسبت بازار کے مہنگے ترین کھانے کے باعث بیمار پڑنے کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح پانی بھی پیٹ کی بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ پانی کو یا تو ابال کر استعمال کریں، یا پھر اگر بوتل کا استعمال کرنا مجبوری ہے تو کسی بااعتماد کمپنی کا استعمال کریں۔
بات بالآخر یہی بنی کہ ان بیماریوں سے بچنا بہت ضروری ہے، اور اس کی سادہ سی ترکیب یہ ہے کہ کھانا صاف ستھرا گھر میں بنا ہوا کھائیں اور پانی کے بارے میں خاص احتیاط کریں۔
ایک کام کی بات پیٹ کی بیماریوں سے متعلق یہ ہے کہ تمام یہ بیماریاں انسانوں سے ایک دوسرے کو لگتی ہیں۔ ہم خراب کھانا یا پانی استعمال کرتے ہیں اور یہ جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں، اور ہم سے دوسروں تک پہنچتے ہیں، کہ ان جراثیم کا اخراج انسانی فضلے یعنی پوٹی میں ہوتا ہے۔ اگر باتھ روم استعمال کرنے کے بعد صابن سے ہاتھ نہ دھوئے جائیں، تو ہم ہی اس کو پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اسی لیے باتھ روم/ ٹوائلٹ کے استعمال، خاص طور پر پوٹی/ پاخانے کے بعد لازمی طور پر اچھی طرح ہاتھوں کو صابن سے دھوئیں۔ ماؤں کے لیے خاص طور پر یہ ہدایت ہے کہ بچے کی پوٹی صاف کرنے کے بعد لازمی صابن سے ہاتھ دھو لیں۔ اسی طرح مائیں عام طور پر بچوں کا جھوٹا کھانا کھالیتی ہیں، جو کہ عام طور پر ایک اچھا کام ہے، مگر ٹائیفائیڈ اور وائرل ہیپاٹائٹس A کے مریض بچوں کی ماؤں کو اس میں احتیاط کرنی چاہیے کہ بچا ہوا کھانا نہ کھائیں۔
وراثتی/ جینیٹک بیماریاں
اس میں بہت سی بیماریاں ہیں، لیکن احتیاط کے پہلو سے ایک کا ذکر بہت اہم ہے، اور اس بیماری کا نام تھیلے سیمیا ہے۔ اگر ماں باپ تھیلے سیمیا مائنر میں مبتلا ہوں تو بچے میں تھیلے سیمیا میجر کے امکانات ہوتے ہیں۔ تو یہاں خاص طور پر اگر شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ کرالیا جائے تو بچاؤ ممکن ہے۔
نفسیاتی بیماریاں
ایسا نہیں کہ بچے اپنے آس پاس کے ماحول، لوگوں کی گفتگو اور حالات کے بدلتے رجحانات کا اثر نہیں لیتے۔ بچے بھی انسان ہیں، ان کے بھی احساسات، جذبات، رجحانات ہیں، اور اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے، بروقت اثرات پر توجہ نہ دی جائے تو منفی اثرات محسوس ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
مسلسل آگے بڑھنے، یا اپنے بچے کو ہمیشہ ٹاپ کلاس طالب علم دیکھنے کی خواہش، اس کے معیارِ زندگی (Quality of life) کو شدید متاثر کرتی ہے۔ صبح اسکول ، پھر ٹیوشن اور پھر قاری صاحب ۔۔۔اب ایسے میں اس کے پاس کھیلنے یا جسمانی ورزش کا وقت کہاں؟
کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو وقت دیں ، اسکول کے علاوہ باقی تعلیم خود دیں۔ اسی طرح بچوں کے سامنے الفاظ کے استعمال میں احتیاط برتیں۔ غصہ، افسردگی (Depression)، بلاوجہ کا خوف یا بچے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانا اُس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو تباہ کردے گا۔
ایک بہتر، انسان دوست ماحول بچے کی فطری صلاحیتوں میں اضافہ کرتا ہے۔