یہ نقاب پوش بزرگ کسی خطۂ عرب کے بادشاہ تھے۔ پہلے بڑے شاعر اور عشقِ مجازی میں مبتلا تھے۔ حکومت اور ملک کے حریص، نازک طبع اور صاحب ِ جمال تھے۔ عشقِ حقیقی کی طرف ان کی رغبت ہونے لگی تو اس کیف و مستی کا ان کے دل پر بڑا اثر ہوا۔ حکومت و سلطنت تلخ محسوس ہونے لگی۔
دست در دیوانگی باید زدن
زین خرد جاہل ہمی باید شدن
عشقِ حق دل میں پیدا کرو۔ محض خرد سے حق تک رسائی نہ ہوگی، بلکہ جو عقل نورِ وحی سے منور نہ ہو اس سے تو جاہل ہی رہنا بہتر ہے۔
بالآخر عشقِ حقیقی نے اس بادشاہ کو تخت و تاج سے بے نیاز کرکے آدھی رات کو جنگل کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ کوہ و دریا، دشت و دمن سے دیوانہ وار گزرتا ہوا وہ بادشاہ اپنی حدودِ سلطنت سے نکل کر سرحدِ تبوک میں داخل ہوگیا۔ چہرے پر نقاب ڈال لیا تاکہ… جلالتِ شاہانہ سے لوگ نہ سمجھ لیں کہ یہ گدڑی پوش کسی ملک کا رئیس یا بادشاہ ہے۔ ملکِ تبوک میں اس بادشاہ پر جب کئی فاقے گزر گئے تو ضعف و نقاہت سے مجبور ہوکر مزدوروں کے ساتھ اینٹیں بنانے لگا۔
اگرچہ وہ بادشاہ چہرے پر نقاب کیے ہوئے تھا لیکن اس کے رنگ ڈھنگ سے مزدوروں میں تذکرے ہونے لگے کہ یہ نقاب پوش کسی ملک کا سفیر یا بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ خبر شاہِ تبوک تک پہنچ گئی۔ شاہِ تبوک کو فکر لاحق ہوگئی کہ یہ ماجرا کیا ہے…؟ شاہِ تبوک نے فوراً سامانِ سفر باندھا اور اس مزدور بادشاہ کی جھونپڑی میں جا پہنچا اور دریافت کرنے لگا ’’اے صاحبِ جمال! آپ اپنے صحیح حال سے مجھے آگاہ کریں۔ آپ کا یہ روشن چہرہ شہادت دیتا ہے کہ آپ کسی ملک کے بادشاہ ہیں۔ یہ فقر و سکنت کا سبب کیا ہے؟ آپ نے اپنی راحت اور سلطانیت کو فقر کی ذلت پر قربان کیا۔
اے عالی حوصلہ! آپ کی ہمت پر میری یہ سلطنت تبوک ہی نہیں بلکہ صدہا سلطنتیں قربان ہوں، مجھے جلد اپنے راز سے آگاہ کریں۔ اگر آپ میرے پاس مہمان رہیں تو یہ میری خوش نصیبی ہوگی اور آپ کے قرب سے میری جان بوجہ خوشی سو جان کے برابر ہوجائے گی‘‘۔ اس طرح بہت سی ترکیبوں سے شاہِ تبوک لباسِ فقر میں ملبوس اس شاہ سے دیر تک باتیں کرتا رہا تاکہ اس کا راز منکشف ہوجائے۔ راز و نیاز کی گفتگو کے بجائے اس نقاب پوش بادشاہ نے شاہِ تبوک کے کان میں درد و عشق کی نہ جانے کیا بات کہہ دی کہ شاہِ تبوک نے درد بھری چیخ ماری، گریبان چاک کردیا… شاہانہ جاہ و جلال کا ہوش نہ رہا… حسنِ لازوال کے عشق و محبت میں ماہیِ بے آب کی طرح تڑپنے لگا… آدھی رات کا وقت ہوا… دونوں بادشاہ اس ملک سے نکل کر مالک الملک کی طرف کسی اور علاقے میں چل دیئے تاکہ خلقت پریشان نہ کرے اور فراغِ قلب سے محبوبِ حقیقی کی یاد میں مشغولی نصیب ہو… اس نقاب پوش عاشقِ صادق کی بات میں نہ جانے کیسی لذت تھی کہ شاہِ تبوک پر سلطنت کی تمام لذتیں حرام ہوگئیں۔ سارے عیش اس لذت کے سامنے ہیچ ہوگئے اور دل میں عشقِ الٰہی کا ایک دریا موجزن ہوگیا۔ شاہ تبوک نے اسی وقت اپنے سینے میں تعلق باللہ کی دولت محسوس کی۔
جزاک اللّٰہ کہ چشم باز کردی
مرا با جانِ جاں ہمراز کردی
خدا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے ہماری آنکھیں کھول دیں اور محبوبِ حقیقی سے ہمراز کردیا۔
اس نے نقاب پوش صاحبِ نسبت بادشاہ سے عرض کیا کہ ہمیں بھی اپنے ہمراہ لے چلیں، آپ کا قلب سرچشمۂ آتشِ عشق ہے۔ اس عشقِ حق کی آگ سے میرا سینہ بھی بھر دیجیے۔ سلطنت ترک کرکے آپ کا مزدوروں کے ساتھ اینٹیں بنانا اور لباسِ فقر میں خستہ حال رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ باطن میں کوئی دوسری سلطنت دیکھ چکے ہیں، جس کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت بھی گرد ہے۔
مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
صرف ان دو بادشاہوں کو ہی نہیں، اور بھی بے شمار بادشاہوں کو عشق نے ان کے ملک اور خاندان سے جدا کردیا، جب عشق خونی کمان پر چلہ چڑھا لیتا ہے تو لاکھوں سر اس وقت ایک پیسے کے مول بک جاتے ہیں۔
صد ہزاراں سر بہ پولے آں زمان
عشق خونی چوں کندہ زہ بر کماں
درسِ حیات: جب حق سے آشنائی ہوجائے تو دنیا کی ہر چیز ہیچ نظر آنے لگتی ہے۔