ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے کامیاب دورے کے بعد حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار کا دورۂ پاکستان
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا مرحلہ جوں جوں قریب آتا جارہا ہے، وہاں امن کے حوالے سے لوگوں کی تشویش میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ پچھلے چند دنوں کے دوران پے درپے وقوع پذیر ہونے والے بدامنی کے واقعات سے بھی لوگوں کی پریشانی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ طالبان کے جنوب مغربی صوبے نیمروز میں ایک پولیس چوکی پر حملے کے نتیجے میں 20 سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت اور 6 کے اغوا کیے جانے کے بعد کابل میں ایک نجی تعلیمی ادارے میں ہونے والے مبینہ خودکش دھماکے میں تیس افراد کی ہلاکت سے افغانستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل جب سے امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کا اعلان کررکھا ہے اور اس ضمن میں اس سال فروری میں طالبان کے ساتھ ایک تحریری سمجھوتے پر دستخط کیے گئے ہیں، تب سے افغانستان کے امن میں دلچسپی رکھنے والی قوتوں کے ہاں یہ سوال زیر گردش ہے کہ آیا امریکی افواج کے انخلاء سے پہلے پہلے اگر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان انٹرا افغان ڈائیلاگ کے پلیٹ فارم سے کوئی قابلِ عمل مفاہمت نہیں ہوتی تو اس کا اثر نہ صرف امریکی افواج کے انخلاء کے ٹائم فریم پر پڑے گا بلکہ اس سے افغانستان میں مستقبل میں قیام امن کی کوششوں اور خواہش کو بھی دھچکہ پہنچ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ اپنی جاری انتخابی مہم کے دوران متعدد مواقع پر افغانستان سے امریکی افواج کے طالبان امریکہ معاہدے کے طے شدہ شیڈول سے بھی پہلے انخلا کا عندیہ دے چکے ہیں، جس کے متعلق مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نومبر میں منعقد ہونے والے امریکہ کے صدارتی انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ یقیناً قوم کو اس سال کرسمس سے پہلے اپنا یہ وعدہ ایفا کرنے کا تحفہ دے سکتے ہیں، البتہ اگر وہ الیکشن ہار جاتے ہیں جس کے تادم تحریر واضح امکانات نظر آرہے ہیں تو ایسے میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے ٹائم فریم کے متاثر ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ صدر ٹرمپ کے حریف ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جوبائیڈن افغانستان سے امریکی افوج کے جذباتی انداز میں فوری انخلاء کو امریکہ کی 20 سالہ سرمایہ کاری کو دریا برد کرنے کے مترادف قرار دے چکے ہیں۔ بقول اُن کے وہ اس حوالے سے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر نظرثانی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان حکومت سے قطع نظر جو امریکی بیساکھیوں کے بل بوتے پر قائم ہے، وہ قوتیں بھی امریکی افواج کے افغانستان سے فوری انخلا کے حق میں نہیں ہیں جو ماضی میں امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کی مخالف یا ناقد رہی ہیں۔ حیران کن طور پر ان قوتوں میں ایران، روس اور چین کے علاوہ خود وہ افغان دھڑے بھی شامل ہیں جو اب تک افغان سرزمین پر امریکی موجودگی کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ دراصل ان قوتوں کی اس خواہش کے پیچھے جہاں امریکہ کو اس خطے اور افغانستان کی دلدل میں انگیج رکھ کر امریکہ پر اپنا دبائو برقرار رکھنے کی سوچ کارفرما ہے، وہیں ان قوتوں کو یہ بھی خدشات لاحق ہیں کہ اگر امریکہ افغانستان کو ماضی کی طرح تن تنہا چھوڑ کر یہاں سے نکل گیا تو افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی کو روکنا شاید پھر کسی کے بس میں بھی نہیں ہوگا، جس کا خمیازہ افغانوں کے ساتھ ساتھ ان قوتوں کو بھی مختلف صورتوں میں بھگتنا پڑے گا۔
اس ساری صورت حال میں اگر ایک طرف پاکستان زیادہ بہتر پوزیشن میں نظرآتا ہے تو دوسر ی جانب اس ساری صورت حال نے اگر کسی بیرونی قوت کو پریشان کررکھا ہے تو وہ بھارت ہے، جس نے پچھلی دو دہائیوں کے دوران امریکی بیساکھیوں کے سہارے افغانستان کے موجودہ سیٹ اَپ میں پاکستان مخالف جذبات بھڑکاکر خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، لیکن پاکستان پچھلے عرصے سے اپنے پتّے جس کامیابی سے کھیل رہا ہے اس سے بھارت کا بھڑکنا قابلِ فہم ہے۔ پاکستان کی اس کامیاب ڈپلومیسی کو روس، چین اور ایران بھی حسرت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ پاکستان نے امریکہ طالبان مذاکرات اور معاہدے میں جو مثالی اور تاریخی کردار ادا کیا ہے، پوری دنیا اس کی تعریف کررہی ہے، جبکہ دوسری جانب پاکستان نے افغانستان کے موجودہ سیٹ اَپ میں کلیدی کردار کے حامل شمالی اتحاد کے ساتھ اپنے تعلقات کو جس زیرک بینی سے استوار کیا ہے اس کی نمایاں مثال شمالی اتحاد کے اہم ترین راہنما، افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا بہت عرصے بعد کامیاب اور خوشگوار دورۂ اسلام آباد ہے، جس میں انہیں ایک سربراہِ حکومت جتنا پروٹوکول دیا گیا جس کی وجہ سے وہ پہلی بار یہاں سے ایک خوشگوار دوستی کا پیغام ساتھ لے کرگئے ہیں۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر افغانستان کے سابق وزیراعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار بھی اپنا تین روزہ دورۂ اسلام آباد مکمل کرکے وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔ حکمت یار کو ان کے اسلام آباد میں تین روزہ قیام کے دوران جو پذیر ائی ملی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان افغانستان میں اپنے نئے اتحادیو ں کے ساتھ ساتھ پرانے بہی خواہوں کا اعتماد حاصل کرنے کی پالیسی پربھی گامزن ہے۔ اس حقیقت کو پوری دنیا جانتی ہے کہ گلبدین حکمت یار وہ واحد افغان رہنما ہیں جنہوں نے انتہائی سخت دور میں بھی کبھی پاکستان کا برا نہیں چاہا، اور نہ ہی کبھی انھوں نے دیگر افغان رہنمائوں کی طرح احسان فراموشی کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف کبھی کوئی دشنام طرازی کی ہے، بلکہ انھوں نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دے کر اس کے ساتھ محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے جس پر بعض اوقات افغانستان کے اندر تنقید بھی ہوتی رہی ہے اور انہیں پاکستان نواز ہونے کے طعنے بھی سننے پڑتے رہے ہیں، لیکن ان کے عزم میں کوئی فرق نہیں آیا، کیونکہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور عالم اسلام کا حقیقی پشتیبان سمجھتے ہیں، اور ان کا پاکستان سے یہ تعلق نظریاتی بنیادوں پر استوار ہے۔
گلبدین حکمت یار کی دانش مندی اور اسلام کی آفاقیت پر پختہ یقین رکھنے کی ایک اور نمایاں مثال اُن کا بھارت کی جانب سے ہر طرح کی پیشکشوں کے باوجود پاکستان کی مخالفت میں بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ نہ بڑھانا ہے، حالانکہ بھارت انہیں بار بار دورۂ دہلی کی دعوت دے چکا ہے، لیکن وہ چونکہ بھارت کے مکروہ چہرے کو بخوبی جانتے ہیں اور انہیں افغان جہاد کے دوران بھارت کا روس نواز اور مجاہدین مخالفت کردار اچھی طرح یاد ہے، اس لیے وہ دیگر افغان راہنمائوں کے برعکس نہ صرف یہ کہ بھارتی بہکاوے میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ متعدد مواقع پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و جبر کی واضح الفاظ میں مذمت بھی کر چکے ہیں، حالانکہ ان مظالم پر دیگر افغان راہنمائوں نے اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان چونکہ یک جان دو قالب ہیں، اس لیے پاکستان نے ہمیشہ تمام مشکلات کے باوجود افغانستان کے حوالے سے کبھی بھی معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنایا،بلکہ ہر مشکل گھڑی میں افغانوں کی مدد اور تعاون کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر انجام دیا ہے۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور انجینئر گلبدین حکمت یار جیسے سابق جہادی راہنمائوںکے بعد موجودہ افغان اولسی جرگہ (قومی اسمبلی) کے اسپیکر امیر رحمان رحمانی کی قیادت میں 17 رکنی پارلیمانی تجارتی وفد کی اسلام آباد آمد، اور دو طرفہ روابط اور تجارت کو فروغ دینے کے اعلانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں پاک افغان دو طرفہ تعلقات ان شا اللہ دوستی اور تعاون کی نئی بلندیوں کوچھوئیں گے۔