گلبد ین حکمت یار کا دورۂ پاکستان

مستقبل کا افغانستان پاکستان کا ایک مخلص دوست اور خیر خواہ ہوگا

ایک طویل عرصے کے بعد افغان رہنما جناب گلبدین حکمت یار پاکستان تشریف لائے، ان سے قبل عبداللہ عبداللہ اسلام آباد آئے تھے۔ افغان قوم اس وقت اپنی تاریخ کے ایک سنگین بحران سے گزر رہی ہے۔ اسے امن، ترقی،خوشحالی اور خودمختاری چاہیے، تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکے، نور محمد ترہ کئی سے لے کر آج تک کابل میں امن قائم نہیں ہوسکا، یہ عرصہ چالیس پینتالیس برسوں پر محیط ہے، حکمت یار کا حالیہ دورہ اسلام آباد اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس وقت طالبان امریکہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ افغان سیاسی جماعتوں کے باہمی مذاکرات کی جانب پیش رفت جاری ہے، اور حکمت یار اسی سلسلے میں اسلام آباد پہنچے تھے۔ اس دورے میں انہیں حکومت کی جانب سے پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کیا گیا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ کابل میں بھارت کا اثررسوخ کم ہو، اس کی پاکستان کے خلاف سازشیں افغان رہنما ضرور اپنی نظروں میں رکھیں۔ حکمت یار نے بھی اپنی بات سنائی، ان کی آپ بیتی اور جگ بیتی ایسی ہے کہ غم کا ایک پہاڑ ہے۔ بہرحال پاکستان نے انہیں یقین دلایا کہ ہم کابل میں ہر قیمت پر امن چاہتے ہیں۔ طالبان امریکہ مذاکرات کے بعد اگل مرحلہ بین الافغان مذاکرات تھا، تاہم یہ عمل ابھی تک شروع نہیں ہوسکا، بلکہ باہمی اعتماد کی فضا مسلسل بداعتمادی کی کھائی میں گررہی ہے۔ افغان ڈائیلاگ کے لیے پاکستان بھی متحرک ہے۔ اس محاذ پر سابق سفیر محمد صادق کی خدمات لی گئی ہیں، متعدد افغان رہنمائوں کے بعد پاکستان کی دعوت پر حکمت یار پاکستان آئے، دفتر خارجہ نے ان کے دورہ پاکستان، حتیٰ کہ یہاں ملاقاتوں کی تمام تفصیلات اور مصروفیات اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ مقامی ہوٹل میں ان کے ساتھ کالم نگاروں کی نشست ہوئی، جس میں وہی روایتی سوال تھے، تاہم حکمت یار نے بھی جواب انہی سوالوں کا دیا جن میں کچھ جان تھی، باقی سوال انہوں نے نظرانداز کیے۔ وزیراعظم، صدر مملکت اور وزیر خارجہ سے ملاقاتوں کے علاوہ آئی پی ایس میں خطاب کیا، اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ان کے اعزاز میں ناشتے کی تقریب رکھی۔ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے نائب امیر، سابق ایم این اے میاں محمد اسلم کی رہائش گاہ پر ناشتے کی میز سجائی گئی۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم، نائب امراء میں لیاقت بلوچ، پروفیسر محمد ابراہیم، میاں محمد اسلم، رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی، سابق ایم این اے شبیر احمد خان و دیگر بھی موجود تھے۔ سینیٹر سراج الحق نے خیرمقدمی کلمات ادا کیے کہ افغانستان اور پاکستان یک جان دو قالب ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت اور سازش دونوں برادر اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتی۔ افغانوں نے پے درپے استعماری قوتوں کو شکست دے کر امت کا سر فخر سے بلند کیا ہے، حکمت یار بلاشبہ اس جنگِ آزادی کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان جہاد میں پاکستان کے لوگوں نے افغانوں کے ساتھ مل کر بڑی قربانیاں دی ہیں۔ افغانوں نے تاریخ کی عظیم ہجرت کی اور پاکستانیوں نے انصار کا کردار پیش کیا۔ افغانستان پر نیٹو، روس اور انگریزوں سمیت باہر سے حملہ آور جارح قوتوں کو منہ کی کھانا پڑی اور انہیں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ایک آزاد اور پُرامن افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی ضرورت ہے۔ انہوں نے افغان شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔ سراج الحق نے اس موقع پر سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ؒ کا بھی ذکر کیا جنہوں نے افغان جہاد کی سرپرستی اور پشت پناہی کی۔ گلبدین حکمت یار نے تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانوں کی جدوجہد کے نتیجے میں عالمی استعماری قوتوں کے عزائم پاش پاش ہوگئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے عوام کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے 40لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو محبت اور پناہ دی اور مہمانوں کی طرح ان کا خیال رکھا۔ افغانستان سے امریکی انخلا اب نوشتہ دیوار ہے، افغانستان کے مسائل کا حل بین الافغان مذاکرات میں ہے۔ مستقبل کا افغانستان پاکستان کا ایک مخلص دوست اور خیر خواہ ہوگا، کچھ عناصر اب بھی نہیں چاہتے کہ افغانستان میں امن قائم ہو، تاہم وہ تمام فریقوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ افغان وفد نے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کو افغانستان کے دورے کی دعوت بھی دی اور جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منورحسن ؒ اور نائب امیر و ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی عبدالغفار عزیز ؒ کے لیے مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کی۔ گل بدین حکمت یار کے دورے کے بعد ایک اہم افغان وفد اسلام آباد پہنچا، مزید وفود بھی آئیں گے، افغان وفد میں تاجر بھی شامل تھے جن کے اعزاز میں چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر اسمبلی نے تقریبات رکھیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی ان میں شریک ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کے زیراہتمام پاک افغان تجارت و سرمایہ کاری فورم 2020 کے سیمینار سے خطاب کیا اور کھل کر کہاکہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات صدیوں پرانے ہیں، دونوں ممالک زبان، ثقافت، تہذیب، تمدن، مذہب اور دیگر مماثلت رکھتے ہیں۔ افغانستان میں امن نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے ناگزیر ہے، افغانستان چار دہائیوں سے انتشار کا شکار رہا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچا ہے۔ دونوں ممالک نے دہشت گردی کی جنگ میں بے شمار جانی و مالی قربانیاں دی ہیں۔ وزیراعظم نے برملا کہا کہ بھارت کی حکومت وقت کی بدترین حکومت ثابت ہوئی ہے جس نے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کا دعویٰ کرنے والے بھارت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے، بھارت میں اقلیتوں کا جینا محال ہوچکا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی، ناانصافی اور ظلم و سفاکی کی مثال قائم کردی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے معصوم نہتے 80لاکھ کشمیریوں کو قید و بند میں رکھا ہوا ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر اہم فورم پر اجاگر کرکے مقبوضہ کشمیر کی حالتِ زار دنیا کے سامنے پیش کی ہے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آواز اٹھا رہی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے دراصل یہ بات کرکے باور کرانے کی کوشش کی کہ بھارت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ افغان تاجروں کے وفد کے ساتھ ایسی گفتگو بہت ضروری ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں تجارت، سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کے لیے وسیع مواقع موجود ہیں جن سے مؤثر انداز میں مستفید ہوکر نہ صرف اس خطے بلکہ جنوبی ایشیا کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان علاقائی تجارت کا مرکز ثابت ہوسکتے ہیں۔ CPEC کی بدولت مشرق وسطیٰ کے ممالک تک رسائی سے پاکستان تجارت و سرمایہ کاری کا مرکز ثابت ہوگا۔ افغانستان کے امن اور سلامتی کے حوالے سے جتنی کاوشیں پاکستان نے کی ہیں دنیا کے کسی دوسرے ملک نے نہیں کیں۔ اس لیے پاکستان ہمیشہ سے افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات پر زور دیتا رہا ہے اور اس کے لیے بھرپور اقدامات بھی اٹھائے، جس کا واضح ثبوت ہے کہ دنیا بھر نے پاکستان کی افغان امن کے لیے کوششوں کو سراہا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ خطے میں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اور سرمایہ کاری کے لیے راہیں ہموار کرنے سے ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب پاکستان اور افغانستان مل کر ٹرانزٹ ٹریڈ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ تاجر برادری اور عوامی سطح پر روابط کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ وسطی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر ہونے کے ناتے افغانستان کا محلِ وقوع بہترین علاقائی رابطے کا حامل ہے، مل کر عالمگیر آزمائشوں بالخصوص غربت اور عدم استحکام کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینا ہوگا، تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے اور تاجروں کو سہولت پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ایسے اقدامات سے پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کے حجم میں اضافہ ہوگا اور غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی میں بھی بہت مدد ملے گی اور ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے، اور اسی طرح سرحد کے دونوں جانب ٹیرف کے علاوہ دیگر رکاوٹوں کو کم کرنے سے باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا۔ کراسنگ پوائنٹس، بندرگاہوں اور دیگر مقامات پر تاجر برادری کی سہولت اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ جبکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے سرحد پار کرنے کو مزید تین مقامات پر بارڈر چیک پوائنٹس بھی کھول رہے ہیں اور اس طرح پارلیمانی غوروفکر کے بعد نئی ویزا پالیسی کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ ویزا پالیسی افغانستان کے ساتھ ہمارے مضبوط برادرانہ تعلقات اور باہمی خوشحالی کے لیے مخلصانہ تعاون کا مظہر ہے۔ یہ افغان بھائیوں، طلبہ، کاروباری افراد، سرمایہ کاروں اور مریضوں کے لیے سہولت پیدا کرکے ہمارے سماجی اور معاشی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی جانب پیش رفت میں معاون ہوگا۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (APTTA)کے مذاکرات کی شرائط کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی ٹاسک فورس کی مدت سال 2021ء میں ختم ہو رہی ہے اور مستقبل کے ایک جامع تجارتی معاہدے کے لیے سرحد کے دونوں جانب سے اراکینِ پارلیمان اور ادارتی اسٹیک ہولڈرز سے رائے لینے کی ضرورت ہے۔ افغان امن عمل اور بین الافغان مذاکرات کے لیے پاکستان کی حمایت کو نہ صرف افغان حکومت بلکہ بین الاقوامی برادری نے بھی سراہا ہے اور ہم امن کے عمل کے لیے اپنی مسلسل حمایت کا اعادہ کر تے ہیں۔افغان پارلیمنٹ ولسی جرگہ کے اسپیکر میر رحمٰن رحمانی نے کہا کہ افغانستان میں امن کے قیام اور افغان امن عمل مذاکرات میں پاکستان کے کردار کے شکر گزار ہیں، دونوں ممالک میں سرمایہ کاری و تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے جو آسانیاں پیدا کی ہیں اس سے نمایاں بہتری آئی ہے، اضافی کراسنگ پوائنٹس کی سہولت سے بھی تجارت اور آمد ورفت میں بہتری ہوگی۔

توہین رسالت،سینٹ اور قومی اسمبلی میں قرار دادِ مذمت

سینیٹر سراج الحق کی جانب سے جمعے کو یوم احتجاج کی پکار

فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر پوری مسلم دنیا تشویش میں مبتلا ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں اس فعل کی ایک مشترکہ قرارداد میں مذمت کی گئی، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے جمعہ کو اہلِ پاکستان سے احتجاج کی اپیل کی ہے۔ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے اہم معاملے پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں متفقہ قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔ قرارداد کے مطابق یہ ایوان فرانس میں ہوئے توہین آمیز خاکوں کی مذمت کرتا ہے۔ یہ ایوان فرانسیسی صدر میکرون کے توہین آمیز الفاظ کی بھی مذمت کرتا ہے۔ یہ ایوان قرآن اور صاحبِ قرآن کی توہین کی مذمت کرتا ہے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ یہ ایوان فرانس میں حجاب کی توہین کی بھی مذمت کرتا ہے۔ ایوان قرار دیتا ہے کہ اسلاموفوبیا کو روکا جائے۔ ایوان او آئی سی ممالک سے فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ قرارداد کے مطابق ایوان او آئی سی اور نان او آئی سی ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسی توہین کو روکنے کے لیے قانون سازی کریں۔ اس سے قبل خواجہ آصف کا قرارداد پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ متحدہ اپوزیشن فرانس کے میگزین میں شائع خاکوں کی مذمت کرتی ہے۔ فرانس کی طرف سے دو ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کی قرارداد مطالبہ کرتی ہے کہ فرانس سے اپنا سفیر واپس بلایا جائے۔ وزیر خارجہ کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کے خلاف قرارداد پیش کی گئی کہ فرانس میں گستاخی قابلِ قبول نہیں، مسلم امہ کے جذبات مجروح ہوئے، اسلاموفوبیا کے ٹرینڈ پر ہمیں تشویش ہے۔ ایوانِ بالا (سینیٹ) میں یورپی ملک فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ یہ تاریخی قرارداد قائدِ ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے پیش کی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ ایسے اقدامات جب حکومتی سرپرستی میں ہوں تو مختلف مذاہب میں تقسیم پیدا ہوتی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہماری محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کوئی مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ دنیا میں آباد مسلمان کسی صورت اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ ایوان فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی مسلسل ترویج اور صدر میکرون کے غیر ذمہ دارانہ عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ وفاقی حکومت او آئی سی اور اقوام متحدہ میں یہ معاملہ اٹھائے تاکہ مستقبل میں اسلام دشمن طرزعمل کا راستہ روکا جا سکے۔ اجلاس کے دوران چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے قرارداد کی کاپی دفتر خارجہ اور فرانسیسی سفیر کے حوالے کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ فرانس کے عمل سے پونے دو ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ او آئی سی کا اجلاس اس مسئلے پر بلانا ضروری ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ فرانس کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور اس کے سفیر کو ملک سے نکالا جائے۔ پاکستان کو اس معاملے کو او آئی سی میں لیڈ کرنا چاہیے۔ سینیٹ اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مولانا عطا الرحمان نے قرارداد کی حمایت کی اور مطالبہ کیا کہ فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات مکمل طور پر ختم کردینے چاہئیں، فرانس کے ہمسایہ ملکوں کو بھی وارننگ دینی چاہیے۔ ہمیں اپنی اولاد اور والدین سے بھی زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ ہمیں کسی بھی پیغمبر کی توہین برداشت نہیں، ہمارے لیے تمام پیغمبر ایک جیسے ہیں۔ اس طرح پوری دنیا کا ماحول خراب کیا جا رہا ہے۔ ایک ملک میں فرانس کے سفارت خانے کو آگ لگا دی گئی ہے۔ جب ایسے واقعات ہوں گے تو مسلمانوں پر الزام نہ لگایا جائے۔