المیۂ فلسطین ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں
۔(گیارھواں اور آخری حصہ)۔
خاص حیثیت
بعض اسرائیل پرست حلقے بار بار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر روس، جاپان، برما، نیپال، سری لنکا اور کئی دوسرے ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں تو ہندوستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، اگر ان سب ہی ملکوں کے ساتھ عرب ملک بگاڑ پیدا نہیں کرسکے تو عرب ہندوستان کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بنیادی طور پر یہ بات بالکل غلط بھی ہے اور حقیقت کے تقاضوں سے پردہ پوشی کے برابر بھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کا شروع ہی سے یہ رویہ رہا ہے کہ ہم نے فلسطین پر جارحانہ صہیونی قبضے کی کبھی حمایت نہیں کی ہے۔ پچھلے 30 سال سے ہم عربوں کی حمایت میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ اب اگر ہم نے اس معاملے میں قلابازی کھائی تو 30 برسوں کی پالیسی نہ صرف جھوٹی پڑ جائے گی بلکہ عرب دنیا میں ہم نے جو عزت اور احترام حاصل کیا ہے وہ بھی ختم جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے جیسا کہ اسٹیٹس مین کے نامہ نگار مسٹر جینسن نے لکھا ہے کہ اقتصادی اعتبار سے جتنی ضرورت ہمیں عربوں کی ہے اتنی شاید عربوں کو ہماری نہیں ہے، جو کچھ ہم عربوں کو دیتے ہیں وہ کئی دوسرے ملکوں سے بھی حاصل کرسکتے ہیں، لیکن عرب دنیا میں ہمارے لیے جو اقتصادی مواقع ہیں وہ شاید ہمیں اور کہیں حاصل نہیں ہوسکتے، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں عربوں سے ہمیں اربوں روپے سالانہ کا قومی فائدہ بھی ہوتا ہے اور لاکھوں ہندوستانی عرب دنیا کے مختلف حصوں میں انتہائی خوشحالی کی زندگی بھی بسر کررہے ہیں۔ ان کے علاوہ عالمی برادری میں ایک بہت بڑا بلاک عرب ملکوں کا اب بھی موجود ہے۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہوگی کہ ہم 15 عرب ملکوں اور ان کے کم از کم 15 مزید حامیوں کو محض ایک اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ناراض کرلیں! مغربی خیرات پر مستقل پلنے والے 25 لاکھ یہودیوں کو 12 کروڑ سے زائد آزاد عربوں پر ترجیح دینا سیاسی خودکشی کے برابر ہے، اور اپنے اقتصادی پیروں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف بھی۔ یہ کہنا بھی قطعاً غلط ہے کہ ہندوستان کا مقابلہ کچھ ایسے چھوٹے چھوٹے ملکوں سے کیا جاسکتا ہے جن کے رویّے کی عرب کچھ زیادہ پروا نہیں کرتے، ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے جو ہندوستان کو اتنے چھوٹے چھوٹے ملکوں کا ہم پلہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے ملکوں سے عربوں کے بہت زیادہ تجارتی، اقتصادی، سیاسی اور ذہنی رشتے کبھی تھے ہی نہیں، یہ ملک کچھ بھی رویہ اختیار کرلیں، عربوں کو ذہنی طور پر کوئی خاص تکلیف نہیں پہنچتی، لیکن ہندوستان کے ساتھ اتنے گہرے رشتے ہیں کہ اس سے توقعات بھی اتنی ہی زیادہ ہیں۔ ہمارے کسی بھی غلط قدم سے ان توقعات کو جو ٹھیس پہنچے گی اس سے ہندوستان کے سوا اور کسی کا سیاسی یا اقتصادی نقصان نہیں ہوسکتا۔
اس سے بھی اہم بات وہ خطرہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متحدہ عرب جمہوریہ کے اعلیٰ نمائندہ ڈاکٹر محمود فوزی نے اقوام متحدہ کے ہر ممبر خصوصاً افریشیائی اقوام کو ان الفاظ میں وارننگ دی تھی: ’’1956ء میں مصر پر حملہ ہوا تھا، اِس بار شام اور اردن بھی حملے کا شکار ہوگئے، اب کس کی باری ہے؟ آپ کی، آپ کی، اور آپ کی۔ افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ، بلقان اور خدا جانے کس کس کو اسرائیلی جارحیت کا اگلا شکار بننا پڑے گا‘‘۔
۔(پیٹریاٹ 22 جون 1967ء)۔
قومی آدرشوں کا تقاضا
بعض لوگ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ہندوستان کے دوٹوک رویّے پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ ہندوستان نے جو پالیسی اب اپنا رکھی ہے وہ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ہماری قومی تحریک۔ اس پالیسی کو بدلنے کا مطالبہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ہماری قومی تحریک اور اس کے اصولوں سے نہ کوئی تعلق رکھتے ہیں اور نہ عقیدت۔
گاندھی جی نے 1938ء ہی میں فلسطین پر یہودی دعووں کو رد کرتے ہوئے انتہائی صفائی کے ساتھ یہ لکھا تھا: ’’یورپ کے مظلوم یہودیوں سے مجھے پوری ہمدردی ہے، لیکن اپنی ہمدردی کی بدولت میں انصاف کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کرسکتا، یہودیوں کے لیے ایک قومی گھر کا نعرہ مجھے بالکل نہیں بھاتا، فلسطین اسی طرح عربوں کا ہے جیسے انگلستان انگریزوں کا اور فرانس فرانسیسیوں کا۔ یہودیوں کو عربوں پر مسلط کرنا بالکل غلط ہے، اگر فلسطین کے بجائے یہودیوں کو اور کسی ملک میں رہنے کا حق نہ دیا گیا تو کیا انہیں یہ پسند ہوگا کہ وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر فلسطین میں آباد ہوجائیں؟ یا یہ کہ وہ دو گھر چاہتے ہیں جہاں اپنی مرضی کے مطابق رہتے رہیں۔ یہودیوں کے لیے یہ بالکل نامناسب ہے کہ وہ انگریزوں کی بندوقوں کے سائے میں فلسطین میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔ ایسی صورت میں ہزار مشکلوں کے باوجود عربوں کی مزاحمت بالکل جائز بھی ہے اور مناسب بھی‘‘۔
۔(ہریجن 26 نومبر 1938ء)۔
تحریکِ آزادی کے دوران انڈین نیشنل کانگریس نے کئی بار فلسطین کے عربوں سے گہری ہمدردی اور ان کی پُرزور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ 1928ء، 1937ء اور 1938ء میں کانگریس نے اپنے اجلاسوں کے دوران فلسطین میں برطانوی چالوں کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اپنے کئی ریزولیوشنز میں بار بار یہ کہا تھا کہ فلسطین ایک عرب ملک ہے اور اس پر عربوں ہی کا اختیار رہنا چاہیے۔ 1937ء میں کانگریس نے ایک ریزولیوشن کے دوران فلسطین کی مجوزہ تقسیم کی پُرزور مذمت کی تھی اور یہ کہا تھا کہ برطانوی سامراج کو ایسی تمام چالوں سے باز رہنا چاہیے جن سے فلسطین پر وہاں کے مقامی باشندوں یعنی عربوں کے حقوق مجروح ہونے کا اندیشہ ہے۔ فروری 1938ء میں کانگریس نے اپنے ہری پورہ کے اجلاس میں مندرجہ ذیل ریزولیوشن منظور کیا تھا:۔
’’کانگریس حکومت برطانیہ کے اس فیصلے کی پُرزور مذمت کرتی ہے کہ فلسطین کی تقسیم کی کوشش کی جائے۔ کانگریس ان سامراجی کوششوں کے خلاف سخت احتجاج کرتی ہے کہ جس کا مطلب فلسطین کے مظلوم عرب باشندوں پر طرح طرح کے مظالم توڑ کر انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم کرنا ہے۔ کانگریس عربوں سے پوری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے یہ یقین دلاتی ہے کہ برطانوی سامراج کے خلاف قومی آزادی کی جنگ میں وہ پوری طرح ان کے ساتھ ہے‘‘۔
پنڈت نہرو نے 1936-37ء اور 1938ء میں ماڈرن ریویو کلکتہ ’’ہندو‘‘ مدراس اور نیشنل ہیرلڈ لکھنؤ میں اسی مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فلسطین پر عربوں کے حقوق کی مکمل وضاحت کی تھی۔ 1938ء میں نیشنل ہیرلڈ میں انہوں نے ایک مضمون کے دوران صاف صاف لکھا تھا کہ فلسطین ایک عرب ملک ہے اور وہاں پر عرب مفاد اور عرب حقوق ہی کو برتری حاصل ہونی چاہیے۔ 1936ء میں انہوں نے ماڈرن ریویو میں ایک مضمون کے دوران بالفور اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ عربوں سے انگریزوں کی غداری کی سب سے شرمناک مثال ہے۔ انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ یہ صرف اس لیے ممکن ہوسکا کہ ایشیا کی آزادی کی تحریکیں مضبوط نہیں تھیں، ورنہ اگر ایشیائی ملکوں میں عوامی تحریکیں منظم ہوتیں تو انگریزوں کو عرب حقوق پر اس طرح چھاپہ مارنے کی ہمت کبھی نہ ہوتی۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس زمانے میں بھی کئی اہم صہیونیت پرست یہودیوں نے پوری کوشش کی تھی کہ وہ گاندھی جی، پنڈت نہرو اور ہماری قومی تحریک کو عربوں کی حمایت کے راستے سے ہٹالیں۔ اس سلسلے میں یہ جھوٹ بھی پھیلایا گیا کہ گاندھی جی صرف مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے عربوں کی حمایت کررہے ہیں۔ 1942ء اور اس کے بعد 1947ء میں ہریجن میں شائع شدہ دو مضامین میں گاندھی جی نے ان الزامات کی پُرزور الفاظ میں تردید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ سچ کا ساتھ تب بھی دیں گے جبکہ ان کا حامی خدا کے سوا اور کوئی نہ ہو۔ اگست 1947ء میں ایک مضمون کے دوران انہوں نے برصغیر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات پر آنسو بہاتے ہوئے اپنے قارئین کو ’’ایک اور المیہ‘‘ کی یاد بھی دلائی جہاں معصوم لوگوں کو تنگ نظری اور دہشت پسندی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے لکھا ’’یہودیوں نے پہلے یہ بھیانک غلطی کی تھی کہ انہوں نے انگریزوں اور امریکنوں کی مدد سے اپنے آپ کو فلسطین پر مسلط کرنا چاہا تھا، اب وہ اس سے بھی بڑی غلطی برہنہ دہشت پسندی کے طریقوں کو اپناکر کررہے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جس سرزمین پر انہیں کوئی پسند نہیں کرتا وہاں وہ انگریز ہتھیاروں اور امریکی سرمائے کی مدد سے گھسنا کیوں چاہتے ہیں؟‘‘ گاندھی جی عام طور پر ایسی سخت زبان لکھنے کے عادی نہیں تھے، مگر ان کی یہ تحریریں ظاہر کرتی ہیںکہ انہیں اسرائیلی سامراجیت اور صہیونی دہشت پسندی کے بھیانک روپ سے اس قدر آگاہی تھی کہ انہوں نے سخت ترین الفاظ میں اس کی مذمت سے گریز نہیں کیا۔
اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان نے اپنی آزادی کے فوراً بعد اقوام متحدہ میں فلسطین کے بارے میں قائم کیے گئے گیارہ طاقتی کمیشن میں فلسطین کی تقسیم کی پُرزور مخالفت کی تھی، عام اسمبلی میں بھی ہندوستان نے حتی المقدور پوری کوشش کی کہ تقسیم کا ریزولیوشن پاس نہ ہونے پائے، یہ بات اور ہے کہ سامراجی چالوں کے سامنے اس کی پیش نہ چلی۔
باپو کے نقشِ قدم پر
اسرائیل کے قیام کے بعد ہندوستان نے ہر قسم کے دبائو کے باوجود اس سے سفارتی تعلقات قائم کرنا گوارا نہ کیا۔ ہندوستان اور اس کے رہنما بار بار عرب مہاجرین کے حقوق کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ 18 نومبر 1956ء کو لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے مصر پر تین طاقتی سامراجی حملے کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ حملہ ایک طرح سے ہندوستان اور سب ہی ایشیائی افریقی ملکوں کی آزادی پر حملہ ہے، ہمارا قومی مفاد تقاضا کرتا ہے کہ ہم عرب عوام کی آزادی کی پُرزور حمایت کریں اور اسرائیلی توسیع پسندی کی پُرزور مذمت۔
1963ء میں پنڈت نہرو نے ہندوستان کی طرف سے نئی دلی میں مقیم عرب سفیروں کو یقین دلایا تھا کہ ہندوستان دریائے اردن کے پانی کے معاملے میں عرب مؤقف کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ 19 دسمبر 1964ء کو ہند عرب تعلقات کے ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے جواہر لال نہرو ہی کے عظیم جانشین سورگیہ شری شاستری نے یہ کہا تھا کہ ہندوستان دریائے اردن اور عرب مہاجرین سے متعلقہ مسائل پر عرب نقطہ نظر سے مکمل طور پر متفق ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سلسلے میں اپنے جائز حقوق کی حفاظت کے لیے عرب ملک جو بھی قدم اٹھانا مناسب سمجھیں گے ہم اس کی حمایت کریں گے۔
نومبر 1966ء میں اسرائیل نے جب اردن کے گائوں سموہ پر حملہ کیا اور وہاں کے سینکڑوں بے گناہ عرب باشندوں کو جارحانہ دہشت پسندی کا شکار بنایا تو حکومتِ ہند نے واضح ترین الفاظ میں ایک سرکاری بیان کے ذریعے اس کی مذمت کی۔ اس بیان میں کہا گیا کہ ’’ہم اسرائیل کے ان شرمناک اقدامات کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے یہ واضح کردینا چاہتے ہیںکہ اسرائیلی حکومت اپنی ان ذمہ داریوں سے انکار نہیں کرسکتی۔ اتنے مذموم طریقے سے طاقت استعمال کرکے اسرائیل نے نہ صرف جنگ بندی کے معاہدے کی قطعی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے منشور اور سلامتی کونسل کی طاقت کو جھٹلانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اسرائیل حکومت کو جان لینا چاہیے کہ عالمی رائے عامہ کسی قسم کے سوچے سمجھے جارحانہ اقدامات کو معاف نہیں کرسکتی۔
حالیہ جنگ سے کچھ پہلے بھی ہند سرکار نے اپنا رویہ بالکل صاف اور واضح کردیا تھا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ شری چھاگلہ نے اپنے 23 مئی کے بیان میں یہ واضح کردیا تھا کہ ہم آبنائے طیران پر مصر کی بالادستی کو پوری طرح تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے بیان کے شروع ہی میں کہا تھا کہ اسرائیل کی تشکیل کے ساتھ ہی ساتھ وسط مشرق میں کئی قسم کے تنازعے پیدا ہوتے رہے ہیں، ہند سرکار یہ سمجھتی ہے کہ ان کی بنیاد یہ ہے کہ عرب حقوق کا مناسب تحفظ نہیں کیا گیا۔
موجودہ پالیسی
سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے ہندوستان نے امن اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مظلوم عربوں کی پوری حمایت کی ہے اور اسرائیل کی پُرزور مذمت۔ امن قائم رکھنے ہی کے خیال سے ہندوستان نے سلامتی کونسل میں 2 جون کو اپنا مشہور پانچ نکاتی پروگرام پیش کیا تھا، اس میں سفارش کی گئی تھی کہ اقوام متحدہ کی طرف سے فوراً ایسے فوجی مبصر بھیجے جائیں جو دونوں طرف جاکر مغربی ایشیامیں امن قائم رکھنے کی کوشش کریں، یہ بھی تجویز کیا گیا کہ عربوں اور اسرائیلیوں اور اقوام متحدہ کے فوجی نمائندوں پر مشتمل وہ جنگ بندی کمیشن دوبارہ کام کرنا شروع کردیں جو اسرائیلی بائیکاٹ کے باعث معطل پڑے ہیں۔ اگر ان تجاویز کو مان لیا جاتا تو اسرائیل کے لیے حالیہ جارحانہ کارروائی کرنا آسان نہ ہوتا، عین اسی لیے امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی پُرزور مخالفت کے باعث یہ تجویز نامنظور کردی گئی۔ 6 جون 1966ء کو پارلیمنٹ میں اپنا شہرۂ آفاق بیان دیتے ہوئے شریمتی گاندھی نے صاف صاف کہا تھا کہ ہمارے پاس آنے والی اطلاعات کی بنا پر اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ تنازعے کو جنگ کی شکل دینے کی مکمل ذمہ داری اسرائیل کی ہے۔
دلی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شریمتی گاندھی نے کہاکہ طاقت کے ذریعے سرحدوں میں تبدیلی کا اصول ہندوستان کبھی تسلیم نہیں کرسکتا، ہم مغربی ایشیا میں امن کے قیام میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ایک بات بالکل صاف ہے کہ ہم کسی ایسے ملک کی پالیسی کی حمایت نہیں کرسکتے جو جارحیت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہو۔ انصاف اور دھاندلی کی ٹکر میں ہندوستان غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔
۔(ٹائمز آف انڈیا نئی دہلی، 26 جون 1967ء)۔
وزیر دفاع سردار سورن سنگھ نے اسی مؤقف کو دہراتے ہوئے پارلیمنٹ میں کہاکہ ہندوستان عربوں کی حمایت کررہا ہے کیونکہ وہ بدترین قسم کی عریاں جارحیت کا شکار ہوئے ہیں۔
۔(پیٹریاٹ، 25 جون 1967ء)۔
سابق وزیر خارجہ جناب ایم۔ سی۔ چھاگلہ نے اقوام متحدہ کی عام اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب سے پہلے ہمیں اس بات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے کہ اسرائیل عرب علاقوں سے اپنی فوجیں فوراً اور غیر مشروط طور پر واپس ہٹالے۔ عالمی ادارے کو متنبہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہاکہ اگر ہم آج یہ اصول مان لیتے ہیں کہ فاتح اقوام متحدہ کو جھٹلانے کا حق رکھتا ہے تو پھر بہتریہی ہوگا کہ منشور کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھاڑ کر پھینک دیں اور جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے اصول کو تسلیم کرلیں۔
۔(ٹائمز آف انڈیا نئی دہلی، 23 جون 1967ء)۔
جنگ کے دوران اور اس کے بعد ہندوستان نے عربوں کی حمایت کا جو رویہ اختیار کیا اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں رہی، سب ہی عرب ملک اپنے رہنمائوں اور نمائندوں کی معرفت انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ہندوستان کی پالیسی کا پُرزور شکریہ ادا کرچکے ہیں۔ ایسے رہنمائوں میں صدر ناصر، صدر بو محی الدین، شاہ حسین، شاہ فیصل اور صدر الازہری بھی شامل ہیں۔
ہندوستان نے یہ رویہ جن اصولوں کی بنا پر اپنایا وہ ہماری تیس برس کی قومی پالیسی میں نمایاں رہے ہیں، شریمتی اندرا گاندھی نے ان ہی اصولوں کا خلاصہ انتہائی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ قاہرہ کے اخبار الاہرام کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’’ہم اسرائیل کی مخالفت صرف عربوں سے دوستی کی بنا پر ہی نہیں کرتے، ہم اسرائیل کی مخالفت اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ہم مذہبی تنگ نظری کی بنا پر قائم ریاستوں کی حمایت نہیںکرسکتے، اور نہ ہی جارحانہ طریقوں سے ہتھیائے ہوئے علاقوں پر قبضے کو جائز تسلیم کرسکتے ہیں۔‘‘
۔(الاہرام، 10جولائی 1966ء)۔