سوید ابن حارث کہتے یں کہ میں چند ساتھیوں کے ہمراہ حضورؐ کی خدمت میں گیا اور کہاکہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ حضورؐ نے پوچھا: تمہارے اسلام کی نوعیت کیا ہے؟ میں نے بتایا: آپؐ کے مبلغین نے ہمیں دس چیزیں بتائیں جن میں سے پانچ یعنی خدا، ملائکہ، پہلی کتابوں، تمام انبیا اور آخرت پر ہم ایمان لائے، اور پانچ یعنی نماز، زکوٰۃ (ارکان خمسہ) وغیرہ پر ہم عمل کررہے ہیں۔ ان کے علاوہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن پر ہم زمانہ جاہلیت سے عمل کررہے ہیں یعنی رضا بالقضا، نعمت پر شکر، مصیبت پر صبر، جنگ میں ثابت قدم اور دشمن کی شکست پہ خوش نہ ہونا۔ حضورؐ نے فرمایا: ان خوبیوں میں پانچ اور کا اضافہ کرلو، تمہارا اسلام مکمل ہوجائے گا:
(1) ناممکن الحصول کی تلاش مت کرو۔
(2) ایسی عمارات مت بنائو جنہیں آباد نہ کرسکو۔
(3) ایسا مال جمع نہ کرو جسے کھا نہ سکو۔
(4) اس گھر میں دل مت لگائو جسے کل چھوڑ کر جانا ہے۔
(5) اور اللہ سے ہر وقت ڈرتے رہو۔ (الفخری)
۔(ماہنامہ چشم ِبیدار، اکتوبر 2017ء)۔
بخار
علامہ ابن جوزیؒ نقل فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعبؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’’بخار کا صلہ کیا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ ’’جب تک (بخار کی وجہ سے) قدم لڑکھڑاتے رہیں یا نبض تیز چلتی رہے اُس وقت تک اس کے حق میں نیکیاں لکھی جاتی رہتی ہیں‘‘۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے یہ سن کر دعا فرمائی کہ خدایا! میں تجھ سے ایسے بخار کا سوال کرتا ہوں جو نہ مجھے تیری راہ میں جہاد کرنے سے روک سکے اور نہ تیرے گھر اور تیرے نبیؐ کی مسجد تک جانے سے… چنانچہ اس کے بعد حضرت ابی بن کعبؓ کو ہمیشہ بخار رہتا تھا، جو شخص بھی انہیں چھوتا اسے بخار محسوس ہوتا۔
۔(مفتی محمدتقی عثمانی۔ تراشے)۔
ہمسایہ
٭ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کا پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہو۔ (مسلم شریف)۔
٭وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔ (مشکوٰۃشریف)۔
٭خدا کی قسم وہ ایمان نہیں رکھتا جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے محفوظ نہ رہے۔ (بخاری)۔
٭(قیامت کے دن) جن دو آدمیوں کا مقدمہ سب سے پہلے پیش ہوگا وہ دو پڑوسی ہوں گے۔ (مشکوٰۃ)۔
٭جبرائیل علیہ السلام مجھ کو پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی برابر تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ پڑوسی کا وارث بنادیں گے۔ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)۔
٭اپنے ہمسایہ پر بدی کا منصوبہ مت باندھ جس حال میں کہ وہ بے فکر ہو کر تیرے پاس رہتاہے۔ (حضرت سلیمان علیہ السلام)
٭ہمسایہ کی بدخواہی اور نیکوں کے ساتھ برائی انتہائی شقاوت ہے۔ (حضرت علیؓ)۔
٭بہادری یہ ہے کہ آڑے وقت میں پڑوسی کا ساتھ دیا جائے اور مصیبت کے وقت صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔ (امام حسینؓ)۔
مقام علم
ابو معاویہ محمد بن خازم الضریر (717ء) اوائل عباسیہ کے فاضل اجل تھے، لیکن تھے نابینا۔ ایک دن ہارون الرشید (786۔ 809ء) نے انہیں کھانے پر بلایا اور بعداز طعام پوچھا: کچھ آپ کو پتا چلا کہ آپ کے ہاتھ کس نے دھلائے تھے؟
کہا:’’کسی غلام نے دھلائے ہوں گے‘‘۔ فرمایا: ’’یہ سعادت! اِس غلام نے حاصل کی‘‘۔ پوچھا: ’’آپ نے یہ تکلیف کیوں فرمائی؟‘‘ فرمایا: ’’دنیا کو علم کا مقام بتانے کے لیے‘‘۔