”تیز بخار، سستی، الٹیاں… تین دن ہوگئے بالکل سست ہے، بخار بالکل اتر ہی نہیں رہا۔
کچھ نہیں گیا منہ میں تین دن سے… الٹی پہ الٹی… کچھ نہیں بچ رہا پیٹ میں، مسلسل پیٹ میں درد اور چکر آنے کی شکایت۔
جب بخار تیز ہوتا ہے تو کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔“
مسلسل کئی دن سے اسی قسم کے مسائل کے ساتھ کلینک میں مریض بچوں کو دیکھ رہے ہیں۔
پہلے ہم ڈینگی اور ملیریا کی بات کرتے ہیں، بعد میں ٹائیفائیڈ پر بات کریں گے۔
ڈینگی اور ملیریا دونوں ہی مچھر کے کاٹنے سے ہونے والی بیماریاں، مگر دونوں بیماریوں کے جراثیم الگ الگ۔
ڈینگی ایک وائرس ہے جو مچھر کے کاٹنے سے جسم میں داخل ہوتا ہے اور پھر انسانی جسم میں تیزی سے نشوونما پاکر بیماری پیدا کرتا ہے۔
کوئی بھی انسان اس بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے، یعنی نومولود سے لے کر بوڑھے انسان تک۔
ڈینگی وائرس کی چار مختلف اقسام ہیں، اور ایک مرتبہ ایک قسم سے ہونے کے بعد اس قسم کے ڈینگی وائرس سے مدافعت (اینٹی باڈیز) پیدا ہوجاتی ہے، مگر آئندہ باقی اقسام سے ڈینگی وائرس میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ برقرار رہتا ہے۔ یعنی جس قسم کے وائرس سے ڈینگی ہو اُس سے آئندہ کے لیے بچت۔
ڈینگی وائرس سے انسان کو شدید بخار، جسم کے مختلف حصوں میں شدید درد، خاص طور پر آنکھوں میں درد، خارش، متلی، الٹی، چکر، شدید کمزوری، منہ کا ذائقہ خراب/ کڑوا، اور پیٹ میں مروڑ وغیرہ ہوتی ہے۔
ڈینگی وائرس کے انفیکشن سے خون میں موجود مختلف سیلز (WBC,Platelets) میں تبدیلیاں، خاص طور پر پلیٹ لیٹس (Platelets) میں خاصی کمی، جس کی وجہ سے خون کا مختلف جگہوں خاص طور پر مسوڑھوں، جلد اور پیشاب میں نظر آنا اور خون کا بہنا ہے۔
ایسے میں مریض کو اسپتال میں داخل کرکے Platelets لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ڈینگی کی تشخیص کے لیے اب کئی ٹیسٹ موجود ہیں جو کہ چند گھنٹوں میں بیماری کی تشخیص کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ڈینگی چونکہ ایک وائرل بیماری ہے اس لیے اس کی کوئی خاص دوا نہیں، صرف علامتی علاج (Symptomatic treatment) ہی کیا جاتا ہے جس میں بخار اور درد کی دوا پیراسیٹامول استعمال کی جاتی ہے، یا پھر پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے ڈرپس وغیرہ، مریض کو پانی اور جوس پینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اگر صرف ڈینگی ہے تو مزید کسی اور دوا کی ضرورت نہیں ہے۔ عام طور پر سات آٹھ دن میں مریض بہتر ہوجاتا ہے۔
دوسری جانب ملیریا بھی مچھر کے کاٹے سے پھیلتا ہے، مگر ملیریا کے جراثیم بالکل مختلف اور علاج بھی مختلف ہوتا ہے۔ ملیریا ایک پیراسائٹ (Protozoa parasite) کے ذریعے مچھروں سے انسانی جسم میں پھیلتا ہے۔
ملیریا کی پانچ مختلف اقسام انسانوں کو بیمار کرنے کا باعث ہیں۔ ملیریا کے جرثومے کو زندہ رہنے کے لیے ایک میزبان کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ عام طور پر انسانی جسم ہی ہوتا ہے۔
تیز بخار سردی کے ساتھ، متلی، الٹی اور کبھی ڈائیریا ملیریا کی ابتدائی علامات ہیں۔ مگر یہ علامات بچوں میں کئی بیماریوں کی ابتدائی علامات ہیں۔ اس لیے ہر بچے کو ان کی بنیاد پر ملیریا کی ادویہ استعمال کروانا درست نہیں ہے۔
ملیریا کے لیے ٹیسٹ کروانا ضروری ہے جیسا کہ ڈینگی کے لیے ضروری ہے۔
ملیریا میں چونکہ پانچ مختلف اقسام کے پلازموڈیم بیماری پیدا کرتے ہیں، اور ملیریا میں کوئی ایک نہیں کئی ادویہ ملیریا کی قسم اور علاقائی ضرورت کے مطابق تبدیل کی جاسکتی ہیں، اس لیے ملیریا میں ٹیسٹ کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
خون کے سیلز میں کمی اور تبدیلی ملیریا میں بھی ہوتی ہے، یعنی WBC اور Platelets کا بھی چیک کیا جانا ضروری ہے تاکہ اگر ضرورت پڑے تو اسپتال میں داخل کرایا جاسکے۔
ملیریا میں بھی کمزوری اور متلی کی وجہ سے کبھی کبھی ڈرپس لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
درست تشخیص بیماری کی علامات اور ٹیسٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے، اور درست تشخیص کے بعد ہی ڈاکٹر آپ کے بچے/ بچی کو بہتر دوا تجویز کرسکتا ہے۔
ہم نے شروع میں تیز بخار، درد، کمزوری، چکر، متلی، الٹی، اور بھوک کی کمی وغیرہ کا ذکر کیا تھا۔
بہت ہی چھوٹے بچوں کو اگر چھوڑ دیں جن میں کہ ٹائیفائیڈ کے اثرات بہت کم ہونے کے چانسز ہیں، (سوائے اس نومولود کے، جس کو اس کی ماں سے آنول،Umblicl Cord کے ذریعے ہوا ہو) کسی بھی بچے/ بچی میں ٹائیفائیڈ کھانے اور پینے کے ذریعے ہی پھیلتا ہے۔ یعنی اگر آپ ایسا کھانا یا پانی استعمال کرتے ہیں جو کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں، کھانے یا پینے کی اشیاء میں جراثیم شامل ہیں یا ان کے تیار کرنے والے ٹائیفائیڈ کے مریض تھے/ ہیں اور باتھ روم کے استعمال کے بعد صابن سے اچھی طرح ہاتھوں کو صاف نہیں کیا، اور ان ہی ہاتھوں سے کھانے یا پینے کی چیز تیار کردی تو ان کے ہاتھوں میں ممکنہ طور پر موجود ٹائیفائیڈ آپ تک منتقل ہوسکتا ہے۔
ٹائیفائیڈ ایک بیکٹیریا سے پھیلنے والی بیماری ہے، اس کو عام طور پر میعادی بخار بھی کہا جاتا ہے۔ تیز بخار، کمزوری، ڈائیریا، بھوک کا نہ لگنا، چڑچڑا پن وغیرہ اس کی علامات، زبان کی سفیدی اس کی ایک بڑی علامت، ٹائیفائیڈ ایک خطرناک بیماری ہے جس میں مریض کی جان جاسکتی ہے، اس لیے جہاں بخار چند دن سے زیادہ ہوجائے اور علامتیں بھی موجود ہوں وہاں پر ٹائیفائیڈ کے بارے میں ڈاکٹر کو ضرور سوچنا چاہیے، کیونکہ یہ ہمارے ملک میں بہت عام ہے اور اب اس کی وہ اقسام دیکھنے میں آرہی ہیں جو بہت ہی زیادہ مہلک اور مشکل سے قابو میں آنے والی ہیں، جس کو XDR Typhoid کہتے ہیں، یعنی ایسا ٹائیفائیڈ جو بہت ساری ادویہ سے اب قابو میں نہیں آتا۔
اس لیے اگر آپ کے بچے کو بخار چند دن سے زیادہ ہوجائے اور ڈاکٹر ٹائیفائیڈ کا خدشہ ظاہر کرے تو لازم ہے کہ ٹائیفائیڈ کا مخصوص ٹیسٹ جو کہ صرف اور صرف بلڈ کلچر (Blood culture) ہے، کیا جائے تاکہ ادویہ کے استعمال اور انتخاب میں کسی غلطی کا امکان نہ رہے۔
چونکہ ٹائیفائیڈ ایک مہلک اور خطرناک بیماری ہے اور جسم کے مختلف حصوں میں اپنے خراب اثرات ڈال کر جسم کے افعال کو خراب کرتا ہے، خاص طور پر پیٹ کے کام، یعنی نظام ہضم کو… اس لیے عام طور پر ڈاکٹر ٹائیفائیڈ میں مریض کو غذائی احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔ اور چونکہ مریض کو کھانے پینے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی تو بیشتر اوقات اسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑ جاتی ہے تاکہ غذائی ضروریات ڈرپس کے ذریعے پوری کی جاسکیں۔ ٹائیفائیڈ کی بگڑی ہوئی قسم آج کل چونکہ زیادہ نظر آرہی ہے اس لیے اینٹی بائیوٹک ادویہ انجکشن کے ذریعے دینے کی ضرورت بڑھ گئی ہے، گرچہ کچھ مریضوں میں اب بھی منہ سے پلانے والی ادویہ کے استعمال سے بھی ٹائیفائیڈ کا علاج ممکن ہے۔
ڈینگی، ملیریا، ٹائیفائیڈ… تینوں بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے اگر گندے پانی اور کچرے کی بروقت صفائی اور نکاسی کا انتظام ہو اور مچھروں کی افزائشِ نسل کو روکنے کے لیے جراثیم کُش ادویہ کا باقاعدگی سے اسپرے ہو۔
ڈینگی وائرس جس مچھر سے پھیلتا ہے وہ جمع شدہ صاف پانی پر پرورش پاتا ہے، اس لیے اگر ہم پانی اسٹور کرنا چاہتے ہیں تو اس کو ڈھانک کر رکھیں۔
کیاریوں اور سڑک پر، یا بارشوں کے بعد پانی کو جمع نہ ہونے دیں، تو ڈینگی مچھر کی افزائش روکی جاسکتی ہے۔
مچھروں سے بچنے کے لیے مچھردانی کا استعمال کریں۔
گھر کے اندر مچھر مار اسپرے یا کوائل کا استعمال بچوں میں سانس کی نالیوں میں تنگی/ سوجن کا باعث ہے، اس لیے ان کے استعمال سے گریز بہتر ہے۔
ٹائیفائیڈ چونکہ کھانے اور پینے سے لگنے والی بیماری ہے، اس لیے کھانے اور پینے کی اشیاء کا صاف ہونا بہت ضروری ہے۔
پینے کے لیے پانی ابال کر استعمال کریں۔
بہتر ہے گھر کا پکا ہوا کھانا کھائیں۔
احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں، ان کی حفاظت، بیماریوں سے بچاؤ اور بہتر تعلیم و تربیت ہماری دینی و قومی ذمہ داری ہے۔