زیرک سیاست دان اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد عرصے بعد سیاسی منظر پر نظر آئے ہیں۔ وہ ہماری پارلیمانی اور سیاسی تاریخ کا ایک اجلا اور شگفتہ کردار ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، سیاسی مجالس اور میڈیا ٹاک شوز میں ان کی بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور کاٹ دار جملے لوگوں کو اب تک یاد ہیں۔ برموقع فقرے چست کرنے والے حافظ حسین احمد نے گزشتہ دنوں ایک قومی اخبار کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دبائو میں آکر اسمبلیوں میں بیٹھنے کا اُن کی پارٹی کا فیصلہ غلط تھا۔ اور اب مسلم لیگ (ن) کو بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ اُن کا یہ فیصلہ غلط تھا جس کی وجہ سے وہ بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ حافظ حسین احمد نے اپنی گفتگو میں یہ اشارہ بھی دیا کہ پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے وقت میں استعفے دیے جائیں جب حکومت کے پاس کوئی آپشن باقی نہ رہے۔
حافظ حسین احمد بہت عرصے بعد میڈیا میں نظر آئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو اُن کی علالت ہے۔ لیکن حافظ صاحب تو بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان کے سیاسی نیازمند ہیں جو پیس میکر لگا کر اسپتال میں بھی اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کرلیتے تھے، اس لیے علالت تو حافظ صاحب کے راستے کی رکاوٹ نہیں ہے۔ سیاسی حلقے اُن کی طویل اور مسلسل خاموشی کی وجہ مولانا فضل الرحمٰن سے اُن کے بعض اختلافات بتاتے ہیں۔ ان اختلافات کی تفصیل تو معلوم نہیں کہ حافظ حسین احمد وضع دار اور دھڑے کے پکے آدمی ہیں۔ وہ اپنے اختلافات کو ایشو بنانے اور پارٹی کو نقصان پہنچانے کے قائل نہیں ہیں۔ قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ میں بھرپور کردار ادا کرنے کے علاوہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری جیسے اہم عہدے پر فائز رہنے والے حافظ حسین احمد جب پارٹی کے کسی عہدے پر نہ رہے اور اس دوران اُن کی سینیٹ کی مدت بھی ختم ہوگئی تو مولانا فضل الرحمٰن کی بعض پالیسیوں سے ان کے اختلافات کی بازگشت سنی گئی، لیکن خود حافظ حسین احمد نے اس پر کبھی کوئی مزاحیہ تبصرہ بھی نہیں کیا۔ اب وہ ایک بار پھر متحرک ہوئے ہیں تو دعا ہے کہ وہ پہلے جیسے خوبصورت اورمعنی خیز جملوں سے ہماری آلودہ سیاست کو شگفتگی دیں اور اپنے متحرک کردار سے سیاسی عمل کو تحرک بخشیں۔
اتفاق سے حافظ حسین احمد کا یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب وہ خود قومی اسمبلی یا سینیٹ میں نہیں ہیں، اور اُن کے قائد مولانا فضل الرحمٰن بھی اسمبلی سے باہر ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی سیاست دان اسمبلی میں نہیں ہوتا تو اُسے اسمبلیاں فضول اور بے ہودہ لگتی ہیں۔ اور تو اور اپنے بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس اسمبلی میں موجود ہوتے اسے آخری دم تک بچانے کی کوشش کرتے، اور جس اسمبلی میں وہ خود نہ ہوتے اُسے پہلے دن ہی سے گرانے میں لگ جاتے۔ راوی کے مطابق 1977ء کے انتخابات میں اُن سمیت پی این اے کے تمام لیڈر کامیاب ہوچکے تھے مگر قوم دھاندلی کے خلاف میدان میں نکل آئی تھی، تب نواب زادہ صاحب جمہوریت اور انسانی حقوق کی لڑائی اسمبلیوں کے اندر لڑنے کے حامی تھے۔ وہ تو عوام کا دبائو اتنا زیادہ تھا اور پی این اے کے بعض مؤثر لیڈر بائیکاٹ پر بضد تھے، اس لیے نواب زادہ صاحب بادلِ ناخواستہ اس اسمبلی کے بائیکاٹ پر راضی ہوگئے۔ شاید بعد میں بھی انھیں اس کا قلق رہا ہو۔ اسی طرح بعض لیڈروں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اسمبلی کی پوری مدت انجوائے کرتے ہیں اور مدت ختم ہونے سے دو چار ماہ قبل ان اسمبلیوں پر لعن طعن شروع کردیتے ہیں تاکہ عوام کے سامنے اپنی کچھ فیس سیونگ کرسکیں۔ اور بعض تو ماضی میں ایسے بھی رہے ہیں جو مدت ختم ہونے سے دوچار ماہ قبل کوئی بہانہ بناکر استعفیٰ ہی دے دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ اگلی اسمبلی میں منتخب ہوکر آسکیں۔
ہمارے ہاں چونکہ امیدوار بڑے پاپڑ بیلنے اور پارٹیوں کو بھاری عطیات دینے کے بعد ٹکٹ حاصل کرتے ہیں، پھر انتخابی مہم کے دوران کروڑوں کے اخراجات کرتے ہیں، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے نخرے برداشت کرتے ہیں، عام شہریوں کے طعنے سنتے ہیں… اس لیے کوئی منتخب فرد وقت سے پہلے اسمبلی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔ پھر اسمبلی کی مراعات، ٹور ٹبہ، عوام اور انتظامیہ پر دبائو اور اسمبلی کی رکنیت کے نام پر ذاتی اور کاروباری کام نکلوانے کا بھی ایک لالچ ہوتا ہے۔ ان مراعات اور اس چکاچوند نے ارکانِ اسمبلی کو مشکلات کا شکار اور جدوجہد سے دور کردیا ہے۔ اُن میں سے بیشتر مراعات کے عادی اور مصلحت پسند ہوچکے ہیں۔ دوسرے انہیں ہر وقت یہ خدشہ دامن گیر رہتا ہے کہ اُن کی جدوجہد اور قربانیوں کی پارٹی قیادت کی نظر میں کوئی وقعت بھی ہے یا نہیں۔ خود حافظ حسین احمد اس کی مثال ہیں، اُن کی صلاحیتوں، جدوجہد اور قربانیوں کو پارٹی قیادت نے وہ وزن نہیں دیا جس کے وہ حق دار تھے۔ اس لیے ہماری رائے میں جمعیت العلمائے اسلام کے انتہائی زیرک رہنما مولانا فضل الرحمٰن نے اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کے دبائو میں نہیں کیا، بلکہ اپنی پارٹی کی کمزوریوں اور مشکلات کو سامنے رکھ کر کیا ہے جو یقیناً مناسب اور ٹھیک فیصلہ ہے۔
حافظ صاحب کا یہ کہنا کہ اب مسلم لیگ (ن) کو بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھنے کا اُن کا فیصلہ غلط تھا۔ ہوسکتا ہے مسلم لیگ (ن) زبانی طور پر ایسا کہتی ہو، مگر عملاً ایسا نہیں ہے۔ اوپر بیان کی گئی مجبوریوں اور قباحتوں کا مسلم لیگی قیادت کو پورا ادراک اور تجربہ ہے، اور اسمبلی میں بیٹھنے کا اُن کا فیصلہ ان معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہی تھا۔ لیگی قیادت کی نظریں اب بھی اسٹیبلشمنٹ پر ہیں۔ وہ اب بھی مقدمات سے جان چھڑانے اور اقتدار میں حصے دار بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر انہوں نے اپنے ارکان سے استعفے مانگے تو دس بارہ کے سوا کوئی استعفیٰ نہیں دے گا۔ بلکہ اُن کا یہ فیصلہ پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کا نقطہ آغاز ہوگا۔ ماضی میں بھی کوئی پارٹی استعفوں کا آپشن استعمال نہیں کرسکی، اب بھی ایسا نہیں ہوسکے گا۔ اگر1977ء میں پی این اے کے ارکان حلف اُٹھا لیتے تو شاید اُن سے بھی استعفیٰ لینا مشکل ہوتا۔ اس لیے حافظ صاحب اور مولانا فضل الرحمٰن استعفوں کی بات جانے دیں۔ حکومت کو ہٹانے کے لیے دیگر آپشنز استعمال کریں۔ یہ آپشن اپوزیشن جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں دے سکے گا۔ خود پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بھی استعفوں کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔ حافظ صاحب کا یہ کہنا کہ رکن جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے وقت میں استعفے دیے جائیں جب حکومت کے پاس کوئی آپشن نہ ہو… یہ خود وقت ٹالنے کی کوشش ہے۔ شاید اس بات پر کبھی بھی پی ڈی ایم کی جماعتیں متفق نہ ہوسکیں گی کہ اب وہ وقت آگیا ہے۔ اور اگر بالفرض ایسا وقت آبھی گیا تو اسٹیبلشمنٹ اپنا نیا کھیل شروع کردے گی، تاہم اُس کی بھی خواہش ہوگی کہ استعفوں کا آپشن استعمال نہ ہو۔ اگر یہ آپشن کامیاب ہوجاتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے حربے بے وقعت ہوجائیں گے۔ موجودہ صورت حال میں اگر بالفرض دس بارہ ارکان نے استعفے دے بھی دئیے تو اس سے کوئی انقلاب نہیں آجائے گا۔ قومی اتحاد کی تحریک کے دوران پیپلز پارٹی کے چار ارکانِ قومی اسمبلی نے استعفے دے دیے تھے، مگر اس سے بھی نئے انتخابات کی راہ ہموار نہیں ہوئی تھی، جبکہ پی این اے کے37 ارکان نے پہلے ہی حلف نہیں اٹھایا تھا۔ اس لیے حافظ صاحب جو خود اس سارے معاملے کو بہت بہتر سمجھتے ہیں استعفوں کے آپشن کو دھمکی کے طور پر تو استعمال کرلیں، لیکن یہ غلطی نہ کربیٹھیں، ورنہ وہ سیاست کی دوڑ میں بہت پیچھے چلے جائیں گے۔