جارج صلیبا کون ہیں؟۔
ترجمہ: ناصر فاروق
عالمی جریدے ‘Muslim Heritage’ میں کلیم حسین کی پروفیسر جارج صلیبا سے مفصل گفتگو ہوئی، جس کے سوالات حذف کرکے ہم آپ کے سامنے اُن کی گفتگو پیش کررہے ہیں، جس میں اُن کی علمی سرگزشت سامنے آتی ہے، جو یقیناً علمی و تحقیقی ذوق رکھنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ مترجم
گوکہ یہ لمبی کہانی ہے، مگر میں آپ کے سامنے اختصار سے پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ میں نے علمی زندگی کی ابتدا ریاضی کے طالب علم کے طور پر کی، میں اُن دنوں بیروت کیAmerican University میں انڈر گریجویٹ کا طالب علم تھا۔ آخری تعلیمی سال تھا، جب یونیورسٹی نے معروف اسلامی عالم سید حسین نصر کومدعو کیا۔ حسین نصر نے امریکی یونیورسٹی بیروت میں 6 لیکچر دیے، ان کا مرکزی موضوع اسلامک اسٹڈیز اور اسلامی فلسفہ تھا۔ یقیناً یہاں موجود سب ہی شرکاء اُن کی کتاب ‘Science and Civilization in Islam’ سے واقف تھے۔ حسین نصر کے پہلے لیکچر میں پچاس حاضرین تھے، جو دوسرے لیکچر میں سو ہوگئے، اور پھر سامعین کے لیے گنجائش نہ رہی۔ آخری لیکچرکا اہتمام سب سے بڑے آڈیٹوریم میںکیا گیا، جس میں پندرہ سو افراد کی گنجائش تھی۔ بلاشبہ حسین نصر کی علمی اہلیت اور خطیبانہ مہارت متاثر کن تھی۔ حاضرین وسامعین کی موضوع ’’اسلامی تہذیب کی میراث اور اُس کے سائنس اور فلسفے پر اثرات‘‘ میں گہری دلچسپی کا مظہر بھی تھی۔
اس لیکچر کے دوران میرے برابر میں ممتاز مؤرخ نقولا زیادی (مملوک دور دمشق کے مؤرخ) نے میری جانب دیکھا، اور کہا کہ ’’صلیبا تم ریاضی کے طالب علم ہو، عربی زبان جانتے ہو، عربی اور اسلامی سائنس کی تاریخ کو اپنی تحقیق کا موضوع کیوں نہیں بنالیتے؟ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے کہ لوگ اس موضوع میں کس قدر دلچسپی لے رہے ہیں!‘‘ مجھے اعتراف ہے کہ اس موضوع پر تحقیق اور جستجوکا بیج مجھ میں یہیں سے پڑا تھا۔ یہ1960ء کی دہائی کی بات ہے۔ اُس دن کے بعد سے میں نے خود کو اس موضوع کے لیے وقف کردیا تھا۔
یقیناً جیسا کہ آج ہرکوئی جانتا ہے، ازمنہ وسطیٰ کے یورپ اور اسلامی دنیا میں روابط تھے۔ میں سمجھتا ہوں، روابط کا یہ دور دسویں صدی سے تیرہویں، چودہویں صدی تک پھیلا ہے۔ گوکہ اب تک جامع طور پر اس کی تحقیق اور مطالعہ نہیں ہوا ہے، مگر اتنا یقینی طورپر واضح ہوچکا ہے کہ اس دور سے قبل لاطینی یورپ کا سائنسی علم بہت محدود تھا۔
میں سمجھتا ہوں اس ضمن میںIsidor of Seville (ایزیدور اشبیلی) کی انسائیکلوپیڈیا معتبر متن ہے۔ اگر تم اس کا اُس عربی متن سے موازنہ کرو، جو ازمنہ وسطیٰ کے دوران یورپ منتقل ہوا، لوک روایات کی شکل میں وہ یورپی دنیا ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ جس کا یونانی کلاسیکی ماحول سے موازنہ قطعی طور پر نہیں کیا جاسکتا۔
اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یورپ دسویں صدی میں علمی ابتری کا شکار تھا، اور کلاسیکی یونان سے اب تک کوئی تعلق قائم نہ کرسکا تھا۔ یہ محض ہمارے ذہنِ جدید میں مرتسم ہے کہ یونانی و رومی ادوار کا ایک تسلسل ہے، جو یورپ کی نشاۃ ثانیہ تک یوں ہی چلا آتا ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ آپ اگر نویں، دسویں، اور گیارہویں صدی کی تحقیق میں جائیں، تومعلوم ہوگا کہ رومی عہد یونانی کلاسیکی علوم سے قطعی نابلد تھا۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ دسویں صدی میں جب یورپ اسلامی تہذیب سے براہِ راست رابطے میں آیا، نہ صرف مسلمان یورپ میں موجود تھے بلکہ وہ خالص علمی، سائنسی، اور فلسفیانہ سرگرمیاں فروغ دے رہے تھے، جوکہ یورپ کے لیے نئی تھیں۔ مسلم اندلس کی علمی سرگرمیاں دلچسپیوں کا مرکز بنتی جارہی تھیں۔ تاہم اس میں صلیبی جنگوں کی مداخلت نے ہم آہنگی کے امکانات بہت زیادہ متاثر کیے تھے۔
چودہویں صدی تک، آپ کہہ سکتے ہیں کہ لاطینی سائنس میں ’’دورِ تراجم‘‘ کے فیض سے کسی حد تک مثبت پیش رفت شروع ہوچکی تھی۔ بڑے نام جیسا کہ ابن سینا، ابن رشد، اور دیگر، لاطینی دنیا میں معروف ہوچکے تھے، اور لاطینی مصنفین ان کے کاموں پر کام کررہے تھے۔ تاہم یہ شاندار سائنس نہ تھی، جیسا کہ بعد میں نشاۃ ثانیہ کے دور میں سامنے آیا۔ یہ وہ دور تھا جو سولہویں صدی تک جاتا ہے۔ چودہویں سے سولہویں صدی کے دور میں آپ دیکھیں گے، ابھی تک لاطینی میں ابتدائی کلیہ سازی ہورہی تھی۔ اس دور میں آپ کو راجر بیکن جیسے دانشور نظر آئیں گے، جو قاموسی طرز پر علوم تشکیل دینے کی کوشش کررہے تھے۔ یقیناً یہ ابن سینا جیسے مسلم علماء سے استفادہ بھی کررہے تھے۔
کوپرینکس ایک پولش پادری تھا، 1478ء میں پیدا ہوا اور 1543ء میں دنیا سے رخصت ہوا۔ اُس نے اپنا زیادہ تر مرکزی کام پولینڈ کے شہر کراکو میں انجام دیا، تاہم اُس کی تعلیم کا سب سے زرخیز دور شمالی اٹلی میں گزرا۔ اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے کہ کوپرینکس کے معاملے میں شمالی اٹلی کے ’’زمانہ قیام‘‘ کا ذکرِ خاص کیا جائے۔ کیونکہ سولہویں سے اٹھارہویں صدی تک، یورپی نشاۃ ثانیہ کے فکری اور سائنسی ارتقاء کا زمانہ ہے، کہ جس میں اٹلی کا شمال وینس سے پیڈووا تک براستہ فیرارا، بولوگنا اور فلورینس ترسیل علوم کی راہداری ثابت ہوا تھا۔ یہی وہ راہداری تھی کہ جہاں علوم کی اہم ترین سرگرمیاں انجام پارہی تھیں۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب کوپرینکس نے یہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی، اور بولوگنا میں علم فلکیات پر تحقیقی سرگرمیوں میں حصہ لیا، اور دس سے پندرہ سال اس علاقے میں بسر کیے۔ وہ (کوپرینکس) دو اسباب سے بہت اہم ہے۔ پہلا سبب نئی سائنسی بنیادوں پرکلاسیکی علم فلکیات کی ازسرنو تشکیل ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ جان چکا تھا کہ اب قدیم یونانی علم کونیات، جو لاطینی اور عربی ذرائع سے حاصل ہوئی تھی ناقص تھی، اور عربی ذرائع بڑی وضاحت سے یہ غلطیاں آشکار کررہے تھے، قدیم یونانی متون کی خامیاں نمایاں کررہے تھے۔ چنانچہ اُس نے فیصلہ کیا کہ اس کام کومناسب طور پر کسی فیصلہ کن موڑ پر پہنچادیا جائے، اس کے لیے ریاضی کو مزید معیاری سطح پربروئے کار لانے کی ضرورت تھی۔ یہ مطلوبہ معیاری ریاضی پہلے ہی اسلامی دنیا میں عام تھی، اور وہ اس حقیقت سے واقف تھا۔ لہٰذا، اُس نے اس کا انتخاب کیا، اور اسے اُس طرح استعمال کیا، کہ جس طرح وہ اسلامی دنیا میںمسلم ماہرین فلکیات نے استعمال کی تھی۔ یوں وہ (کوپرینکس) قدیم یونانی نقائص سے علم فلکیات کو حتمی طورپر علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اگلا قدم جو سب سے اہم تھا، اور جسے ہرطالب علم کو سمجھنا چاہیے، یہ قدم مسلم ماہرین فلکیات نہیں اٹھاسکے تھے۔ اُس نے کہا تھا کہ اب ہم، کہ جب علم فلکیات کے متون سے یونانی غلطیاں خارج کردی گئی ہیں، کائنات کے مرکز کو زمین سے سورج کی جانب منتقل کرنے کی جرات کرسکتے ہیں۔ یعنی ایک سورج مرکز کائنات کا نظریہ وجود میں آیا۔ لوگ عموماً نہیں سمجھتے کہ یہ ایک بہت اچھی پیش رفت تھی۔ تاہم ابھی اُس نیوٹن کی پیدائش میں دو صدیاں باقی تھیں، جس نے ’’قانون کشش‘‘ کی وضاحت کرنی تھی، کہ جوسورج کے گرد تشکیل کائنات کی توضیح کرتی ہے۔ کوپرینکس کے وقتوں میں فلکیاتی طورپر اس طرح سوچنا ہی ممکن نہ تھا (کہ کائنات کو سورج مرکز بیان کیا جاسکے)، مگر وہ کچھ ناقابلِ بیان وضاحتوں کے ساتھ یہ نظریہ پیش کرتا ہے، لوگ نہیں جانتے کہ وہ یہ کیسے کرپایا؟ سب سے عام وضاحت یہ ہے کہ سورج کو کائنات کے مرکز میں لاکر فلکیات کی تعلیم آسان ہوجاتی ہے۔ تاہم اکثر لوگ نہیں سمجھ پائے کہ کوپرینکس نے یہ کیسے کیا؟ کیوں کیا؟ یقیناً سو سال بعد یہ بات اہم ثابت ہوئی، کہ ’سورج مرکز‘ کائنات کا نظریہ درست تھا۔ لوگوں نے یہ کارنامہ اُس سے منسوب کیا، گوکہ اُس وقت کوپرینکس کو خود بھی اس کی درستی کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔
میری تحقیق مجھے ابتدائی مسلم ماہرینِ فلکیات کی جانب لے گئی۔
اسلامی دنیا کی چند اہم شخصیات میں محی الدین العرضی ایک اہم نام ہے، جس کی وفات 1266ء میں ہوئی۔ عرضی نے نصیر الدین طوسی کے ساتھ مل کر اسلامی دنیا کی سب سے مقبول مراغہ کی رصدگاہ میں تحقیقی کام کیا، یہ رصدگاہ 1259ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ وہ علمی ماحول تھا کہ جہاں قطب الدین شیرازی اور یحییٰ المغربی جیسے تین چار شاگرد موجود تھے، جو اپنی جگہ خود بہت بڑے ماہرینِ فلکیات تھے۔ ان حضرات نے کیا کارنامہ انجام دیا؟ انھوں نے ایک ایسی ریاضی خلق کی، جس نے یونانی علمِ فلکیات کی غلطیاں دور کیں۔ یونانی علمِ فلکیات کی تصحیح کا یہ سلسلہ عرضی سے شروع ہوا اور ابن شاطر دمشق تک چلا گیا۔ انھوں نے یونانی فلکیات میں درپیش ہر مسئلہ حل کیا، اور متبادل ریاضیاتی نظریات پیش کیے۔ کوپرینکس نے یہ کیا کہ وہ ریاضیاتی قضیے (theorems)استعمال کیے، یہاں تک کہ وہ عربی متون میں ان قضیوں کی مکمل تفہیم سے بھی نابلد تھا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب ابن شاطر نے سیارہ عطارد کی حرکیات کی وضاحت پیچیدہ ریاضیاتی قضیے کے ذریعے کی، اُس نے یہ کام بڑی کامیابی سے انجام دیا۔ لیکن جب کوپرینکس نے یہ نمونہ ابن شاطر سے لیا، اور اس کی وضاحت بیان کی، تو کئی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اسی قسم کے شواہد تھے کہ جن پر میں نے اپنی کتاب ‘Islamic Science and the Making of European Renaissance’کا مقدمہ استوار کیا۔ یہ شواہد اس بات کا ٹھوس ثبوت تھے کہ کوپرینکس وہ نمونہ اپنے لیے استعمال کررہا تھا کہ جواُس کی اپنی تخلیق نہ تھی، اور ہم جانتے ہیں کہ اس کا خالق کون تھا،کیونکہ یہ اب تک ابن شاطر کے عربی متن میں موجود ہے، اور بعد میں کوپرینکس اسے مکمل تفہیم کے بغیر استعمال کررہا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ کس طرح ان ریاضیاتی قضیوں تک پہنچا تھا؟ اور اب تک ہمارے پاس کوپرینکس کا کوئی ایسا اعترافی بیان موجود نہیں کہ جس میں اُس نے تسلیم کیا ہوکہ یہ علم اُسے مسلمانوں سے حاصل ہوا(1)۔
بات صرف کوپرینکس اور علم فلکیات تک محدود نہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلامی دنیا سے ہر شعبہ علم کا بہاؤ یورپ کی جانب تھا۔ میری تحقیق اُس عظیم سیاق وسباق کا معمولی حصہ ہے، کہ جس سیاق وسباق میں اسلامی علوم فروغ پارہے تھے۔ Andreas Alpagoکی بات کریں، کہ جوکوپرینکس کا ہم عصر ہی تھا، ان کی پیدائش اور وفات ایک ہی دور میں ہوئی۔ الپاگو نے ابن سینا کے کام پر ناقص ترجمے مسترد کردیے تھے، وہ از سرِ نوان پر کام کررہا تھا۔وہ عربی سیکھنے کے لیے وینس سے دمشق گیا، اورابن سینا کے کاموں کا از سرِنو ترجمہ کیا۔ اس دور کے یورپی علما کا یہ طریقہ تھا کہ عربی زبان کی تعلیم حاصل کرتے، اور اصل سائنسی عربی متون سے اکتساب کرتے، اوراُسے لاطینی قالب میں ڈھالتے تھے۔ اس مقصد کے لیے الپاگونے پندرہ سال دمشق میں قیام کیا۔ جب الپاگو پیڈووا اٹلی میں پڑھارہا تھا، کوپرینکس قریب ہی فیرارا یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اسی طرح فرانسیسی مستشرق Guillaume Postelبھی کوپرینکس کا ہم عصر تھا۔ وہ قسطنطنیہ گیا، وہاں سے عربی نسخے خرید لایا، جو آج بھی پیرس کے Bibliothèque Nationaleمیں موجود ہیں۔ واپسی پروہCollège de France میں مشرقی زبانوں اور ریاضی کی تعلیم دے رہا تھا۔ اسی طرح ریمنڈی کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ یہ سارے کردار عربی علوم کی لاطینی میں منتقلی کا کام بڑے پیمانے پر کررہے تھے۔ تاہم وہ ساتھ ساتھ مسلم علوم کی اہم اصطلاحات اور نظریات کوlatinizedبھی کررہے تھے، کہ جس سے یہ علوم بعد کی دنیا پر Latin productionکے طورپر ظاہر ہوئے۔
(جاری ہے)
حواشی
1) پروفیسرجارج صلیبا نے بڑے علمی عجز سے کام لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف کوپرینکس نہیں بلکہ یورپ میں مسلمانوں کے علمی کام کا سب سے بڑا سرقہ ہوا۔ نہ صرف یورپ میں بلکہ قسطنطنیہ کے رستے بغداد، دمشق، قاہرہ،دیاربکر اوردیگر مشرقی مسلم دنیا سے علوم اور علماء لاطینی میں ڈھالے گئے، اور اُن کے کام اپنے ناموں سے آگے بڑھائے گئے۔ یہ بہت اہم مگر محدودتحقیق ہے کہ جس میں مذکورہ حقائق سامنے آئے ہیں۔ ہزاروں عربی وفارسی نسخے آج بھی محققین کے منتظرہیں۔ صد افسوس کہ دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں نے اس ضمن میں اُتنی بھی سعی نہیں کی، کہ جتنی انفراد ی سطح پرجارج صلیبا جیسے محققین نے انجام دی ہے۔