امریکہ و پاکستان سمیت دنیا کے 204 ممالک کے اداروں اور ماہرین کی جانب سے کی جانے والی مشترکہ طبی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پاکستان میں امراضِ قلب، فالج، ذیابیطس، سانس و گردوں کی بیماریاں موت کی بڑی وجوہات ہیں۔ امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ اوولیوشن (آئی ایچ ایم ای) کی سربراہی میں دنیا کے 204 ممالک اور خطوں میں کی جانے والی طویل اور جامع تحقیق کے نتائج حال ہی میں جاری کیے گئے۔ مذکورہ ادارہ بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کا ذیلی ادارہ ہے اور اس نے پاکستان کی آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) اور پاکستان ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے تعاون سے مذکورہ تحقیق کی۔
مذکورہ تحقیق کے نتائج معروف طبی جریدے دی لینسٹ کے گلوبل برڈن آف ڈیزیز میں شائع ہوئے، جن میں پاکستان اور امریکہ سمیت دنیا کے 204 ممالک میں بیماریوں سے ہونے والی اموات، بیماریوں اور حادثات کا ڈیٹا شامل ہے۔ مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت فالج، ذیابیطس، امراضِ قلب، سانس و گردوں کی بیماریاں موت کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ رپورٹ میں مذکورہ پانچوں بیماریوں کو پاکستان میں امراض سے ہونے والی اموات کا سب سے بڑا سبب قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ جلد ہی پاکستان میں مٹاپا بھی سنگین صورت اختیار کر جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت اوسط عمر خطے کے تمام ممالک سے کم ہے اور یہاں پیدائشی طور پر ہونے والی بیماریوں میں اضافے سمیت طرزِ زندگی میں تبدیلی کے باعث ہونے والے امراض موت کا بڑا سبب بن رہے ہیں۔ طبی تحقیق کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں گزشتہ کچھ سال سے جو اوسط عمر بڑھ رہی تھی اب وہ مٹاپے کی وجہ سے آنے والے سال میں کم ہونا شروع ہوگی اور مستقبل قریب میں پاکستان میں بھی مٹاپے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔(بشکریہ ڈان)۔
موسمیاتی شدت اور قدرتی آفات سے ہلاکتوں میں پاکستان کا پانچواں نمبر
اقوامِ متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20 برس میں 7348 ایسی قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں جو موسمیاتی شدتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان میں 12 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور ہلاکتوں میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی سے گزشتہ 20 برس میں 7348قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں اور اس میں 12 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔ قدرتی آفات کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ موسمیاتی شدت اور آفات اکیسویں صدی میں جہنم کا منظرنامہ پیش کررہی ہیں۔ دوسری جانب سیاسی اور تجارتی رہنما موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا نہیں کررہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سیارہ زمین کروڑوں افراد کے لیے ناقابلِ رہائش ’جہنم‘ بن جائے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2000ء سے 2019ء تک پوری دنیا میں ماحول اور موسم سے متعلق 7348 بڑے سانحات اور آفات رونما ہوئیں جن میں 12 لاکھ 30 ہزار افراد لقمہ اجل بنے لیکن چار ارب 20 کروڑ افراد براہ راست متاثر ہوئے اور دنیا کو 2.97 ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔دوسری جانب 1980ء سے 1999ء کے دوران آفات کا ریکارڈ تقریباً نصف رہا یعنی پوری دنیا میں 4,212 قدرتی آفات رونما ہوئیں اور 10 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بنے اور سواتین ارب افراد براہِ راست متاثر ہوئے تھے، جب کہ ان سانحات سے 1.63 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ موسمیاتی شدت سے وابستہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ 1980ء سے 1999ء کے مقابلے میں 2000ء سے 2019ء کے عرصے میں ماحولیاتی اور موسمیاتی سانحات میں دوگنا اضافہ ہوا ہے جو ایک خوفناک امر ہے۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار پبلک ٹرانسپورٹ کےلیے بجلی سے چلنے والی بائیک متعارف
ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان نے وینٹی لیٹرز اور ڈرونز بنانے کے بعد تاریخ میں پہلی بار بجلی سے چلنے والی پبلک الیکٹرک بائیک متعارف کروا کر ایک اور اہم سنگِ میل طے کرلیا ہے۔
وفاقی وزیر آئی ٹی سید امین الحق نے ایزبائیک کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے بڑھتے مسائل میں ایز بائیک ایک خوشگوار اضافہ ہوگا۔ ایز بائیک کا پائلٹ پراجیکٹ ابتدا میں اسلام آباد میں شروع کیا جائے گا اور بائیکس راولپنڈی اور اسلام آباد میں میٹرو اسٹیشنز کے اطراف میں موجود ہوں گی۔ لوگ اس بائیک کے ذریعے جہاں جائیں وہیں اسے چھوڑ سکتے ہیں، جبکہ ایزی بائیک کے چارجز 5 روپے فی منٹ ہوں گے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں الیکٹرک بائیک کے پائلٹ پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد ایک سال کے دوران لاہور اور کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں ایزی بائیک سروس فراہم کردی جائے گی۔