ایک باپ اور اس کی بیٹی پارک میں کھیل رہے تھے۔ بیٹی نے ایک سیب والے کو دیکھا۔ اس نے باپ سے کہا کہ وہ اسے سیب خرید کر دے۔ باپ کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے، لیکن اتنے تھے کہ وہ اس سے دو سیب خرید سکتا۔ سو اس نے دو سیب خرید کر بیٹی کو دے دیئے۔
بیٹی نے دونوں سیب ایک ایک ہاتھ میں پکڑ لیے۔ اس کے باپ نے اس سے کہا کہ وہ ایک سیب اسے دے دے۔ یہ سنتے ہی بیٹی نے ایک سیب کو جلدی سے دانتوں سے کاٹ لیا۔ اس سے پہلے کہ باپ بولتا، اس نے دوسرے سیب کو بھی دانتوں سے کاٹ لیا۔
اس کے باپ کو حیرت ہوئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اس سے اپنی بیٹی کو پروان چڑھانے میں کیا غلطی ہوئی کہ وہ اتنی خودغرض ہوگئی ہے! وہ خیالات میں گم ہوگیا اور سوچنے لگا کہ وہ بات کو کچھ زیادہ ہی لے رہا ہے۔ اس کی بیٹی ابھی چھوٹی ہے، وہ دوسروں کے ساتھ چیزیں شیئر کرنے اور دینے کو نہیں سمجھتی۔ اچانک اس کی بیٹی نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ایک سیب کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’پاپا، آپ یہ لے لیں، یہ زیادہ میٹھا ہے اور اس میں جوس بھی زیادہ ہے‘‘۔
اس کا باپ گنگ ہوکر رہ گیا۔ اسے اپنے بارے میں برا لگا کہ اس نے اپنی بیٹی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلد بازی سے کام لیا۔ اس کی مسکراہٹ واپس آگئی۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کی بیٹی نے دونوں سیبوں کو دانتوں سے کیوں کاٹا تھا۔
۔(ماہنامہ چشم بیدار۔نومبر2018ء)۔
یا موسیٰ!۔
مامون رشید ایک مرتبہ اپنے ایک مصاحب عبداللہ بن طاہر سے ناراض ہوگیا اور ایک خفیہ مجلس میں کچھ لوگوں سے اسے قتل کرانے کا منصوبہ بنایا۔ اتفاق سے اس مجلس میں عبداللہ بن طاہر کا ایک خیر خواہ دوست موجود تھا۔ اس نے فوراً عبداللہ کے نام ایک رقعہ لکھا جس پر صرف یہ عبارت تحریر تھی:۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، یاموسیٰ
یہ رقعہ جب عبداللہ بن طاہر کے پاس پہنچا تو وہ سخت حیران ہوا، دیر تک اس خط کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا، مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ کنیز برابر میں کھڑی تھی، جب کافی دیر گزر گئی تو وہ بولی:۔
’’اس کا مطلب میری سمجھ میں آگیا‘‘۔
عبداللہ نے پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘
کنیز نے کہا: ’’لکھنے والے نے قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ:۔
يَمُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ
”اے موسیٰ! سردار تمہیں قتل کرنے کا مشورہ کررہے ہیں، اس لیے یہاں سے نکل جائو، میں تمہارے خیر خواہوں میں سے ہوں۔“
عبداللہ اُس وقت مامون کے دربار میں جانے کا ارادہ کررہا تھا، مگر اب اس نے ارادہ منسوخ کردیا، اور اس طرح اس کی جان بچ گئی۔
۔(مفتی محمد تقی عثمانی۔ تراشے)۔
اقوال
نصیحت
٭میری نصیحت قبول کرنے والا دل موت سے زیادہ کسی کو محبوب نہ رکھے۔ (حضرت ابوبکر صدیقؓ)۔
٭تُو جتنی چاہے مجھے نصیحت کر، حبشی کی سیاہی کبھی دھونے سے دور نہیں ہوتی۔ (شیخ سعدیؒ)۔
٭کسی کو نصیحت نہ کرو، کیونکہ بے وقوف سنتا نہیں اور عقل مند کو اس کی ضرورت نہیں۔(برنارڈشا)۔
٭مبارک ہیں وہ لوگ جن کے پاس نصیحت کرنے کے الفاظ نہیں، اعمال ہوتے ہیں۔ (شبان ثوری)۔
٭نصیحت کرنا آسان ہے، حل بتانا مشکل ہے ۔(ٹیگور)۔
مہمان
٭چالیس سال سے میں نے روٹی وغیرہ کچھ نہیں پکائی، البتہ مہمانوں کے واسطے، اور اس میں طفیلی رہاہوں (حضرت ابوالحسن خرقانیؒ)۔
٭مہمان کے ساتھ تکلف نہ کرو ورنہ مہمان رکھنے کو دشمن رکھو گے۔(امام غزالیؒ)۔
٭بن بلائے مہمانوں کا خیر مقدم اُس وقت ہوتا ہے جب وہ جاچکے ہوتے ہیں۔ (امام غزالیؒ)۔