مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نظربندی سے رہائی کے بعد کچھ عرصے تک زبان بندی کے معاہدے پر قائم رہنے کے بعد اب خاموشی توڑ کر اپنی بات کرنے لگے ہیں۔ فاروق عبداللہ ایک مہینے میں دوسری بار چین کا حوالہ دے کر بھارت اور نریندر مودی پر برس پڑے ہیں۔ کشمیر کے موجودہ منظرنامے میں فاروق عبداللہ کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ وہ مودی زدہ اور بی جے پی زدہ سیاسی عمل کی بحالی سے الگ رہ کر، یا اس کی مخالفت کا راستہ اپناکر ایک مضبوط اسپیڈ بریکر کھڑا کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ گپکار ڈیکلیریشن کے ذریعے ہوا بھی ہے، جس میں سیاسی عمل میں حصہ لینے کو پانچ اگست کے اقدام کی واپسی سے مشروط کیا گیا ہے۔
فاروق عبداللہ نے ایک ماہ قبل بھارتی اینکر کرن تھاپر کو ایک طویل انٹرویو میں کہا کہ کشمیری خود کو انڈین نہیں سمجھتے، وہ آج بھارت کے مقابلے میں چین کی عمل داری قبول کرنے کو ترجیح دیں گے۔ یہ ایک چونکا دینے والی بات تھی۔ اُن کا یہ انٹرویو سوشل میڈیا پر پوری دنیا میں بہت توجہ اور دلچسپی سے سنا گیا۔ اس انٹرویو کے بعد ایک اور گفتگو میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دوبارہ یہی مؤقف مختلف انداز میں بیان کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ چین کی مدد سے کشمیر کی خصوصی شناخت بحال ہوگی۔ چین جو کچھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC)پر کررہا ہے وہ سب آرٹیکل 370کی وجہ سے ہے، کیونکہ چین نے مودی کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا۔ فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ جو کشمیری پاکستان میں شامل ہونے کے مخالف تھے، وہ بھی اب چین کی جانب نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ کشمیریوں کو یہ خدشہ ہے کہ نئے ڈومیسائل قوانین اس علاقے میں ہندو اکثریت کو بڑھانے کا باعث بنیں گے۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’’کیا ہوا جو مجھے پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیا، مگر کرن تھارپر کو دئیے گئے انٹرویو کی صورت میری آواز پوری دنیا تک پہنچ گئی ہے‘‘۔ یوں وہ اُس انٹرویو کا حوالہ دے رہے تھے جس میں انہوں نے کشمیریوں کی چینی عمل داری کو قبول کرنے کی بات کی تھی۔
فاروق عبداللہ مسئلہ کشمیر کے آغاز کے ساتھ جڑی دوسری نسل کے نمائندے ہیں۔ اس نسل کے نمائندے اب ریاست کے تمام حصوں میں چراغِ سحر ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں مہاراجا کشمیر ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ بھی اسی نسل سے ہیں۔ ڈاکٹر کرن سنگھ بھارتی راجیہ سبھا، جبکہ فاروق عبداللہ لوک سبھا کے رکن ہیں۔ کشمیر پر بھارت کے قبضے کی راہ ہموار کرنے میں ان دونوں گھرانوں کا کردار ہے۔ دونوں گھرانے کشمیر کو ایک آزاد ریاست کے طور پر زندہ رکھنا چاہتے ہیں، مگر دونوں کو حالات نے بھارت کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے پر مجبور کیا۔ کرن سنگھ نے برہان وانی کے واقعے کے بعد بھارتی لوک سبھا میں بھارت کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کشمیریوں کے دکھوں کی بات دردناک انداز میں کی تھی، اور یوں نظر آرہا تھا کہ یہ گھرانہ تاریخ میں اپنے کردار کا ازسرِنو تعین کرنے جارہا ہے۔ مگر پانچ اگست کے بعد کرن سنگھ ایک تھکے اور درماندہ حال شخص کے طور اُبھرے، انہوں نے پانچ اگست کے کچھ ہی دن بعد ایک انٹرویو میں خود کو حالات کے دھارے کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بہت سی خاندانی سلطنتیں وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئیں، انہی میں ہماری خاندانی ریاست بھی شامل ہے۔ یوں یہ موہوم امید دم توڑ گئی کہ مہاراجا گھرانہ تقسیمِ ہند کے بعد تنازعے کے حل میں ایک مثبت اور فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔
فاروق عبداللہ شیرِ کشمیر کہلانے والے شیخ محمد عبداللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ گھرانہ بھی تنازعے کے ساتھ روزِ اوّل سے جڑا ہے۔ فاروق عبداللہ ماضی کے برعکس اس اہم مرحلے پر تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہونے کے متمنی نظر آتے ہیں۔ وہ کرن سنگھ کی طرح خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے کے بجائے کشمیری عوام کے جذبات کی لہر پر سوار ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔ فاروق عبداللہ چین کو ایک فعال فریق اور متحرک کھلاڑی قرار دے رہے ہیں۔ یہ بے سبب نہیں، کیونکہ چین کے متحرک ہوتے ہی تنازعے کی حرکیات میں جو تبدیلی آئی ہے اس نے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے روایتی سیاست دانوں کے کردار کو اہم بنادیا ہے۔ یہ روایتی سیاست دان کشمیر میں مودی ساختہ اور بی جے پی زدہ سیاسی عمل کی بحالی کے راستے میں مضبوط اسپیڈ بریکر کھڑا کرسکتے ہیں۔
کشمیر کے سب سے پرانے اور مضبوط سیاسی پس منظر کے حامل شیخ خاندان اور چین کے درمیان تعلقات کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ ان تعلقات میں شیخ عبداللہ کی وفات کے بعد سرد مہری آئی، کیونکہ فاروق عبداللہ کو دہلی میں اپنی جگہ بنانے کے لیے بھارت کی بے جا تعریفوں اور پاکستان اور حریت پسند سیاست پر تنقید وتنقیص کا سہارا لینا پڑا۔ اس سے انہیں کشمیر کے پاور گیم میں شراکت تو ملی مگر وقت نے ثابت کیا کہ دہلی میں قبولیت اور اپنی مستقل جگہ بنانے میں ان کا نام اور مذہب رکاوٹ ہے۔ حالانکہ ان کا گھر ایک لبرل اور کثیرالمذہب و ثقافت گھرانے کا عملی نمونہ ہے۔ ان کی برطانیہ نژاد اہلیہ مسز مولی عیسائی ہیں، ان کی بیٹی بھارت کے سابق ہندو وزیر راجیش پائلٹ کی بہو اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ کی بیگم سکھ مذہب سے تعلق رکھتی تھیں، جنہیں اب طلاق ہوچکی ہے۔ خود فاروق عبداللہ اتنی مہارت سے بھجن گاتے، نارنجی پگڑی پہن کرمندروں میں ماتھا ٹیکتے اور بھگوان کی تعریف کرتے ہیں کہ پیدائشی ہندو بھی اس انداز پر حیران رہتے ہیں۔ جدید بھارت میں اس قدر لبرل اور سیکولر شخص کے لیے اپنی جگہ بنانا اور مقام کا تعین کرنا حد درجہ مشکل ہوگیا ہے۔ ان کا احساسِ زیاں بار بار ان کے تلخ لہجے اور کھردرے جملوں سے چھلک پڑتا ہے۔
فاروق عبداللہ کی انہی کوششوں میں شیخ گھرانے کا چین سے تعلق کمزور پڑ گیا۔ پانچ اگست کے بعد اُبھرنے والی صورتِ حال میں یوں لگ رہا ہے کہ فاروق عبداللہ بار بار چین کی بات کرکے نئے انداز سے تجدیدِ تعلقات چاہتے ہیں۔ شیخ گھرانے اور چین کے تعلقات کی کہانی کو شیخ محمد عبداللہ نے اپنی خودنوشت ’آتش چنار‘ میں یوں بیان کیا ہے:۔
۔’’30مارچ 1965ء کو الجزائر میں میری چواین لائی سے علیک سلیک ہوئی۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور شام کو مجھے الگ ملنے کے لیے وقت دیا۔ چنانچہ میں اور بیگ صاحب ( ان کے دستِ راست مرزا افضل بیگ) وقتِ مقررہ پر ان کی قیام گاہ پہنچے تو وہ ہمار انتظار کررہے تھے۔ ہم نے ان سے معاہدے کے متعلق دریافت کیا جو اُن ہی دنوں چین اور پاکستان کے مابین گلگت کے سرحدی معاملات کے متعلق ہوا تھا۔ چو این لائی نے ٹھیر ٹھیر کر لیکن مستحکم لہجے میں جواب دیا کہ چین اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے، اس لیے وہ تمام جھگڑوں کو جن میں سرحدوں کے جھگڑے بھی شامل ہیں، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہنسی خوشی نپٹانا چاہتا ہے۔ کشمیر کے شمال کی طرف گلگت پاکستان کی تحویل میں ہے، اس کی سرحد چونکہ چین کے ساتھ ملتی ہے اس لیے اس کا تعین چین کے نکتہ نگاہ سے ضروری تھا ‘‘۔
شیخ عبداللہ ’آتش چنار‘ میں اس ملاقات کے حوالے سے مزید یوں رقم طراز ہیں:۔
’’چو این لائی نے ہم سے دریافت کیا کہ کیا آپ کبھی چین گئے ہیں ؟جب ہم نے نفی میں جواب دیا تو انہوںنے بڑا تعجب ظاہر کیا اور کہا کہ چین تو آپ کا اس قدر قریبی ہمسایہ ہے کہ آپ اپنے مکان کی چھت سے اس کے پہاڑوں کی چوٹیاں گن سکتے ہیں،اور پھر چین اور کشمیر کے ماضی کے روابط رہے ہیں۔ انہوںنے ہمیں چین آنے کی دعوت دی اور کہا کہ آپ انڈونیشیا آئیں،وہاں سے چین پہنچنے میں آسانی رہے گی۔ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ چین جانے کا شوق کسے نہیں!مناسب وقت پر ہم ضرور چین دیکھنے کے لیے وقت نکالیں گے۔ چینی وزیراعظم نے مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں رخصت کیا‘‘۔
اس ملاقات سے دو ہفتے قبل شیخ محمد عبداللہ نے لندن سے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے نام ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت نے کشمیر میں اندھیر نگری مچار رکھی ہے۔ اسی خط میں شیخ عبداللہ نے چین کی طرف سے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔بھارت کے اخبار دی ہندو نے اس ملاقات کی اندرونی کہانی اپنی 7اپریل1965ء کی اشاعت میں یوں بیان کی تھی:
’’ شیخ عبداللہ نے چو این لائی سے خودمختار کشمیر کی حمایت کی درخواست کی۔ چین نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت جا ری رکھنے کا وعدہ کیا۔ہندوستانی حکومت کو شیخ عبداللہ کے چین نواز اور پاکستان نواز طرزِعمل سے پریشانی لاحق ہوئی اور انہیں بھارت کے لیے ایک تشویش ناک خطرہ قرار دیا جانے لگا۔چنانچہ جب وہ ہندوستان واپس آگئے تو انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ‘‘۔
یوں بیجنگ اورشیخ فیملی کے حوالے سے تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔