ڈاکٹر احسان الحق مرحوم و مغفور کے سانحۂ ارتحال نے نہ صرف ان کے اہلِ خاندان، اعزہ و اقربا اور رفقائے کار کو غم زدہ کردیا بلکہ بُعدِ مکانی کے باوجود مجھے بھی شدید افسردہ کردیا اور معمول کی زندگی کو شدید دھچکا لگایا۔
ڈاکٹر احسان الحق مرحوم ایک ایسے ’’رجلِ رشید‘‘ تھے جن کی ذات سے تعلیم و تعلم، رشد و ہدایت کے سوتے پھوٹتے، طالبانِ علم و تحقیق ان کے وجود اور تبحرِ علمی سے فیض پاتے، اور ان کی دلآویز شخصیت اور پاکیزہ کردار و سیرت کی کرنیں اپنے وجود میں منعکس ہوتی محسوس کرتے۔
دھیمے مزاج، باوقار چال اور دلآویز کلام کے خوگر، اور خوب صورت، شائستہ، شستہ لب و لہجے کے مالک، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو کے مصداق، نگہ بلند اور سخن دلنواز کی مجسم تصویر… ڈاکٹر احسان الحق مرحوم بظاہر الگ تھلگ رہنے والے، اپنے ساتھ جڑنے، کلام کرنے اور وقت گزارنے والے مخاطب کو اپنا اسیر بنالیتے، اور اپنے علم و فضل کے سحر میں گرفتار کرلیتے۔
ڈاکٹر احسان الحق مرحوم سے میرا تعارف اوائل عمر یعنی 1968ء میں ہوا، جب میں تعلیمی سفر کے اگلے مرحلے میں قدم رکھ رہا تھا اور مجھے ضرورت تھی کسی مرشد و مربی کی، جس کی انگلی تھام کر میں اس مرحلے کو طے کرسکوں، اور شعور کی اوّلین منزل پر قدم رکھ سکوں۔
منصورہ سندھ جسے ڈیپر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، میں ملک کے معروف اور منفرد تعلیمی ادارے شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج میں داخلے کے لیے اپنے والدِ مرحوم اور اپنے محسن، روحانی چچا خواجہ منظورالحسن، ٹنڈو آدم والے کے ہمراہ باروچو باغ ریلوے اسٹیشن سے اتر کر کچی پگڈنڈیوں اور کھیتوں کے درمیان سے ادارے تک دو ڈھائی میل کے سفر کے دوران حافظ احسان الحق کے بھائی انعام الحق کی ہمراہی میسر آئی، جو اُس وقت سالانہ تعطیلات گزار کر واپس درس گاہ آرہے تھے۔
حافظ احسان الحق نے خود پر لازم کرلیا کہ وہ میری تربیت میں مشفقانہ اور ناصحانہ کردار ادا کریں گے۔ اُن دنوں حافظ صاحب ادارے کی سینئر کلاسز کے طالب علم تھے اور غالباً طلبہ کی کسی انتظامی بزم کے سربراہ تھے۔ انہوں نے مجھے پہلے بولنا سکھایا۔ ایک تقریر لکھ کر دی، جو میں نے ان ہی کی زیر نگرانی بزمِ ادب کے ہفتہ وار اجلاس میں ادارے کے ڈائننگ ہال میں لالٹین کی روشنی میں سنائی، اور حوصلہ افزائی کا انعام بھی غالباً کوئی کتاب یا قلم پایا۔ یہ میری زندگی کی پہلی تقریر تھی ’’گرمی، سردی سے بہتر ہے‘‘، الحمدللہ اس کے بعد زبان کو بولنے کی چاٹ لگ گئی، اور کبھی تقریر کرنا زیادہ مشکل نہ ہوا۔
اس کے بعد وقتاً فوقتاً اُن کی سرپرستی و رہنمائی سے فیض یاب ہوتا رہا، اگرچہ اُن کی سینیارٹی اور عہدے کا رعب ایک مضبوط حدِّ فاصل کے طور پر موجود رہا، اور میں اُس زمانے میں اُن کی بڑائی، دلکشی اور تربیت و شفقت کے سحر سے نہ نکل سکا۔ اس میں اضافہ اُن کے خوب صورت لحنِ دائودی نے کیا۔ وہ ادارے کی واحد مسجد میں اکثر نمازوں کی امامت بھی کرتے، بالخصوص رمضان المبارک میں نماز تراویح پڑھاتے اور ادارے کے بڑے بڑے اکابرین، اساتذہ اور طلبہ اُن کے مقتدی ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار جرأت کرکے میں نے اُن سے سورۂ نوح کی تلاوت کی فرمائش کی، غالباً انہوں نے اسے پورا بھی کیا۔
حافظ صاحب بی اے اور فاضل عربی کے بعد ادارے سے رخصت ہوگئے۔ میں بھی 1973ء کے سندھی پنجابی لسانی فسادات اور ممتاز بھٹو کے دور میں ادارے کے قومیائے ہوجانے کے کچھ عرصے بعد 1974ء میں انٹرمیڈیٹ اور فاضل عربی کے امتحانات سے فارغ ہوکر پنجاب آگیا۔
۔1997ء تک کوئی قابلِ ذکر رابطہ مجھے یاد نہیں۔ 1997ء میں گورنمنٹ کالج میں قومی سیرت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ڈاکٹر احسان الحق مرحوم کو بھی مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ غالباً وہ اُن دنوں صدر شعبہ عربی، کراچی یونیورسٹی تھے یا ڈائریکٹر شیخ زاید اسلامک سینٹر۔ وہ تشریف لائے، تحقیقی مقالہ عطا فرمایا، محبت و شفقت کا بھرپور اظہار کیا، میرے اہلِ خانہ سے ملاقات کی، دعائوں سے نوازا، مختلف امور پر رہنمائی عطا کی۔
کراچی واپس تشریف لے جاکر مجھے اپنی تحقیقی تصنیف ’’عربی اور اردو کے لسانی روابط‘‘ کا غیر مطبوعہ، بعدازاں مطبوعہ نسخہ ارسال فرمایا، اور تجدیدِ تعلقات پر مہر ثبت فرمائی۔ یہ عطائے مکرر اُن کی مجھ سے محبت کی آئینہ دار ہے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کے علمی و تحقیقی کام سے میں یکسر نابلد ہوں، اس پر اُن کے رفقائے کار اور تلامذہ یقیناً بہتر اور مفصل روشنی ڈال سکیں گے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ اُن جیسی علمی شخصیت کا یہ سیرتی پہلو بھی تابناک اور لائقِ تحسین و تقلید ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب سے میرا مسلسل اور مضبوط رابطہ اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہوا، جب انہیں کچھ فراغت میسر آئی اور انہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا۔ مختلف پیغامات ملتے رہے، میں بھی جواب دیتا رہا۔ وفات سے کچھ مہینے پہلے انہوں نے منصورہ سندھ کی یادوں پر مشتمل ایک دستاویزی فلم ارسال کی، وہ دیکھ کر بہت لطف آیا اور ماضی سے تعلق مضبوط ہوا۔
میری آخری ملاقات چند سال قبل جامعہ کراچی کے سلیکشن بورڈ میں شرکت کے موقع پر ہوئی۔ غالباً وہ صدرِ شعبہ کی حیثیت سے اس میں شریک تھے، مگر کچھ رسمی علیک سلیک کے سوا کوئی خاص بات نہ ہوسکی، نہ وہ گیسٹ ہائوس تشریف لائے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ شاید یہ اُس احتیاط کا تقاضا تھا کہ ممتحن پر اثرانداز ہونے کے احتمال سے بچا جائے۔ اسی احتیاط کے پیش نظر میں بھی اُن سے رابطہ نہ کرسکا۔ البتہ مشفقِ محترم ڈاکٹر محمد عبدالشہید نعمانی دامت برکاتہم العالیہ اور برادرِگرامی ڈاکٹر عارف سلیم صاحبان نے میری خوب پذیرائی، مہمان نوازی اور دل داری کی۔ اللہ انہیں جزائے خیر سے نوازے، آمین!
گزشتہ سال میری ریٹائرمنٹ کا ایک سال اور عمر کے 61 سال مکمل ہونے پر کالج کے احباب اور بچوں نے مختصر اور علامتی تقریبات منعقد کیں، کسی خاص اہتمام کے بغیر اور برائے نام۔ غضب یہ ہوا کہ اس کی چند تصاویر فیس بک پر لگ گئیں۔ اس تقریب کو خصوصیت کے ساتھ دوستوں اور بچوں نے اس لیے منعقد کیا کہ کہیں میں ریٹائرمنٹ کے بعد دل شکستگی سے دوچار نہ ہوجائوں اور مجھے یہ احساس نہ ہو کہ دورانِ ملازمت جب میرے ساتھی اپنے پرنسپل کی خوب تکریم کرتے تھے، میں یہ نہ سمجھوں کہ منصب سے علیحدہ ہوکر وہ مجھے بھول گئے۔ اگرچہ اس احساس کا شائبہ تک نہ تھا، یہ تو سارا کاروبارِ حیات اور اس کے مختلف مراحل ہیں، انسان کو ایسے حالات اور رویوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ان تصاویر کے فیس بک پر لگتے ہی ’’مجاہدینِ ملت‘‘ اور ’’علمائے حق‘‘ نے ایک غیر ضروری بحث شروع کردی اور سالگرہ کے جواز اور عدم جواز، نقصانات، فوائد اور دیگر پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا، اور قریب تھاکہ مجھے دائرۂ اسلام سے خارج کردیا جاتا، ایسے میں ڈاکٹر احسان الحق مرحوم کا مختصر پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہوا ’’والسلام علیک یوم ولدت‘‘۔ مجھے اطمینان ہوا کہ مجھ سے کوئی بڑی خطا سرزد نہیں ہوئی۔
پھر کچھ عرصے بعد میرے پوتے کے دوسرے جنم دن کے موقع پر آپ کا تبصرہ آیا: نعم الجد و نعم الحفید
اس علمی تبصرے نے خوب لطف دیا۔
۔18 دسمبر 2019ء کو جب ہم یہاں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں عربی کے عالمی دن کے موقع پر آگاہی واک میں شریک تھے، ٹھیک اسی روز عربی زبان و ادب کے ایک بڑے محقق، عالم، استاد، مصنف اور بے شمار طلبہ و طالبات کے مرشد و رہنما کی رحلت کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل ہوئی۔ اس خبر نے شدید جھٹکا دیا اور تڑپا کر رکھ دیا۔ بعدازاں برادرِ محترم ڈاکٹر عاطف سلیم کے فون نے مزید دکھی کردیا۔ تدفین کی تفصیلات سے حسرت ہوئی کہ ایسی خوب صورت موت کاش میرے نصیب میں بھی ہو۔ دیارِ نبیؐ میں، تہجد کے وقت، وضو کرتے ہوئے، رب کا بلاوا۔ مسجد نبویؐ میں روضۂ رسولؐ کے بالکل قریب، لاکھوں اہلِ ایمان کی دعائوں، التجائوں کے ساتھ نمازِ جنازہ، اور ہر مومن کی حسرت و تمنا کے مرکز جنت البقیع میں ان گنت صحابہ، علما، صلحا، اتقیا، شہدا، آلِ بیتِ اطہار، اور بالخصوص سیدنا عثمانؓ بن عفان کے قدموں میں ابدی آرام گاہ۔ وحسن او لئک رفیقاً۔ زہے مقدر۔ بڑے کرم کا فیصلہ، بڑے نصیب کی بات۔ ہر متمنی و مدعی کے واسطے یہ قدر و منزلت کہاں!! یہ سب مرحوم کی مرتبت اور قربتِ نبوی کے نجانے کن کن درجوں کی نشاندہی کررہی ہے۔
خادمِ قرآن، خادمِ اللغتہ العربیتہ الشریفتہ، عاملِ سنتِ مطہرہ و دینِ متین، محبِ رسولؐ کو یہ اعزاز ملنا کسی بڑے انعام اور عطائے الٰہی سے کم نہیں۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
اس قابلِ رشک موت پر خودبخود لکھا گیا:
’’نعم الحیاۃ و نعم المماۃ‘‘
اللہ تعالیٰ مرحوم ڈاکٹر احسان الحق کی قابل رشک زندگی، خدمتِ قرآن، خدمتِ دین، خدمتِ علم، خدمتِ عربی کو قبول فرمائے۔ ان کی سیّات سے درگزر کرے۔ ان کی حسنات کو زادِ آخرت بنانے، اور اپنے جوارِ رحمت میں ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
امید ہے کہ کوئی محقق طالب علم ان کی علمی، تحقیقی و تدریسی اور قرآنی خدمات کے حوالے سے تحقیق و تدوین کا کام کرے گا اور انہیں منظرعام پر لاتے ہوئے طالبانِ علم کے لیے رہنمائی کا مرکز بناتے ہوئے ان کے لیے صدقاتِ جاریہ کا باعث بنے گا۔ یہ اقدام ان سے محبت، عقیدت کا علمی مظہر اور خراجِ تحسین پیش کرنے کا مؤثر باعث ہوگا۔
میں مرحوم ڈاکٹر احسان الحق کے جملہ اہلِ خانہ، احباب، اعزہ و اقربا، رفقائے کار اور تلامذہ سے اظہارِ تعزیت کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہمیں بھی مرحوم کی حسنات کے اجر میں شامل کرے۔ ان کی مغفرت فرمائے اور اپنی جناب میں اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین۔