طلبہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان۔۔۔
موجودہ حکومت پچھلے سوا دوسال کے دوران کوئی ایک بھی ایسی مثال پیش نہیںکرسکتی جس سے اس کی سمت، وژن اور کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اس پر مستزاد یہ کہ شبانہ روز محنت اور ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں پچھلے ستّر سال کے دوران جو ادارے بنائے گئے ہیں اُن کا اصلاحات کی آڑ میں جو تیاپانچہ کیا جارہا ہے اُس کا تازہ نشانہ 1964ء سے پاکستان میں میڈیکل ایجوکیشن کو ریگولیٹ کرنے والے وفاقی ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو بنایاگیا ہے۔ یاد رہے کہ اس ادارے کو موجودہ حکومت نے ایک دفعہ ڈیڑھ سال قبل ختم کرکے اس کی جگہ ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی)کے نام سے ادارہ قائم کیا تھا، لیکن بعد ازاں قومی اسمبلی سے اس ایکٹ کی منظوری کے باوجود سینیٹ نے اس بل کو مسترد کردیا تھا، جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے احکامات پر پی ایم ڈی سی کودوبارہ بحال کردیاگیا تھا۔ گزشتہ سال پی ایم ڈی سی ہی نے ملک کے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں سیشن 2019-20ء کے داخلوں کی نگرانی کا فریضہ سرانجام دیا تھا، جس کے نتیجے میں داخلوں کا یہ سارا عمل قدرے تاخیرکے باوجود بخیر و خوبی بغیر کسی تعطل اور کسی بڑی رکاوٹ کے پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تھا۔ اِس سال تعلیمی سیشن کو اگر ایک جانب ناقابل تلافی نقصان کورونا کی وبا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی سات ماہ تک طویل بندش کی صورت میں برداشت کرنا پڑا ہے تو دوسری جانب ڈاکٹر بننے کا سہانا خواب آنکھوں میں سجائے ملک کے لاکھوں طلبہ پر آسمانی بجلی بن کرگرنے والا حکومت کا میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کے عین آغاز پر اس فیصلے کا سامنے آنا ہے جس میں حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے ایک بار پھر پی ایم ڈی سی کو ختم کرتے ہوئے سینیٹ سے ایف اے ٹی ایف بلوں کی منظوری کی آڑ میں پی ایم سی کا ایکٹ بھی منظور کرا لیا ہے۔
یہاں یہ امر پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کی متعارف کردہ مرکزی داخلہ پالیسی پر جس کا چند دن قبل اعلان کیاگیا ہے، نہ صرف سندھ حکومت کی جانب سے واضح تحفظات سامنے آئے ہیں، بلکہ اس نئی داخلہ پالیسی پر خیبر پختون خوا میں بھی والدین اور طلبہ کی طرف سے شدید ناراضی اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نئی پالیسی کے نتیجے میں خیبر پختون خوا کے طلبہ کا نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے سے محروم رہنے کا شدید خدشہ ہے۔ اس بات میں کوئی دوآراء نہیں ہیں کہ خیبرپختون خوا کے نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں نئی منظور شدہ پالیسی کے نتیجے میں صوبے کے طلبہ کے بجائے پنجاب کے طلبہ کو داخلہ ملنے کا امکان کئی گنا بڑھ گیا ہے، کیونکہ پنجاب جہاں آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے وہیں وسائل کی فراوانی کی وجہ سے بھی وہاں کے طلبہ کو اوپن میرٹ سسٹم کے تحت خیبرپختون خوا اور سندھ کے نجی میڈیکل کالجوں کی زیادہ سے زیادہ نشستوں پر قابض ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا، جس کا نتیجہ ان دو چھوٹے صوبوں میں پہلے سے موجود احساسِ محرومی میں اضافے کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت کی مجموعی کارکردگی پر بھی نئے ڈاکٹروں کی نایابی کی شکل میں سامنے آنے کے خدشات یقینی ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کُل 167 میڈیکل و ڈینٹل کالج ہیں، جن میں 102 میڈیکل اور 65 ڈینٹل کالج ہیں، جن میں سے بیشتر پنجاب میں ہیں۔ خیبر پختون خوا میں مجموعی طور پر 17 نجی کالج ہیں جن میں 11 میڈیکل اور 6 ڈینٹل ہیں، جن میں سابقہ پی ایم ڈی سی کی منظور شدہ 1425 نشستوں پر اب تک صوبے کے ان طلبہ کو داخلہ دیا جاتا تھا جو پبلک سیکٹر کالجوں میں میرٹ یا کوٹے کی نشستوں پر داخلے سے محروم رہ جاتے تھے۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ پچھلے سال تک چاروں صوبوں بشمول اسلام آباد کے میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے لیے متعلقہ صوبوں کے تحت الگ الگ داخلہ ٹیسٹ ہوا کرتے تھے، جب کہ اِس سال بھی پی ایم ڈی سی کی منظوری سے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے کالجوں میں داخلوں کے لیے انٹری ٹیسٹوں کی تاریخوں اور شیڈول کا اعلان ہوگیا تھا جس کے تحت خیبرپختون خوا کا ٹیسٹ ایٹا کی زیرنگرانی اور خیبرمیڈیکل یونیورسٹی کے زیرانتظام 18 اکتوبر کو صوبے کے پندرہ شہروں کے ستّر سے زائد ہالوں میں منعقد ہونا تھا، جس کے لیے چالیس ہزار سے زائد طلبہ نے تین ہزار فی طالب علم کے حساب سے رجسٹریشن کرا رکھی تھی، لیکن اسی دوران پی ایم ڈی سی کے خاتمے اور پی ایم سی کا ادارہ وجود میں آنے کے بعد جہاں پہلے سے شیڈول شدہ انٹری ٹیسٹ اور ان کے لیے لاکھوں کی تعداد میں کی جانے والی رجسٹریشن کا مستقبل سوالیہ نشان بن گیا ہے وہیں وہ لاکھوں والدین اور طلبہ بھی تذبذب اور شدید ذہنی پریشانی سے دوچار ہوگئے تھے ۔ واضح رہے کہ پی ایم ڈی سی نے پچھلے دو سال سے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے لیے ان صوبوں اور مرکز کی ایک ایک پبلک سیکٹر طبی جامعہ کو ایڈمٹنگ یونیورسٹی ڈیکلیئرکیا تھا جن کی نگرانی میں داخلہ ٹیسٹ سمیت داخلوں کے تمام مراحل طے کیے جاتے تھے، لیکن اب اچانک پی ایم ڈی سی کے خاتمے اور پی ایم سی کے وجود میں آنے کے بعد پی ایم سی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سارے ملک میں ایک ہی دن بیک وقت سینٹرلائزڈ انٹری ٹیسٹ منعقد کرے گا، جس کے لیے اگر ایک طرف طلبہ کو دوبارہ رجسٹریشن کے لیے کہا جائے گا تودوسری جانب سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خو اور پنجاب کے طلبہ کو ایک ہی معیار اور نصاب کے یکساں نظام کے تحت جانچا جائے گا، جس پر چاروں صوبوں بالخصوص چھوٹے صوبوں کی جانب سے شدید اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں، لیکن تادم تحریر اب تک ان وزنی سوالات اور اعتراضات کا کسی بھی حکومتی ادارے کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب سامنے آیا ہے اور نہ ہی لاکھوں طلبہ اور ان کے والدین کی کسی بھی فورم پرکوئی شنوائی ہورہی ہے۔ پی ایم سی کی نئی پالیسی کابعض دیگر کمزور پہلوئوں کے ساتھ ساتھ اب تک جو بڑا نقصان دہ پہلو سامنے آیا ہے وہ نجی میڈیکل اورڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لیے ڈومیسائل کی شرط کاخاتمہ ہے جس کا لامحالہ نقصان سندھ اور خیبرپختون خوا کے طلبہ کے حصے میں آئے گا۔ ماہرین ِتعلیم کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو اپنے صوبے کے طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ معاملہ پی ایم سی کے ساتھ اٹھاناچاہیے، بصورتِ دیگر زیادہ تر نشستیں دوسرے صوبوں کوملنے کے خدشات کورد نہیں کیاجاسکتا۔
دریں اثناء پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما اوروزیر صحت سندھ ڈاکٹرعذرا پیچوہو نے وفاقی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے پاکستان میڈیکل کمیشن بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بل سے چھوٹے صوبوں میں طبی شعبہ متاثر ہوگا، اور مرکزی حکومت کا یہ عمل آئین سے ٹکراؤ کے مترادف ہے۔
پی ایم سی کے حوالے سے ایک اور حیران کن امر یہ ہے کہ یہ بل جہاں اپوزیشن کی پارلیمنٹ سے غیرموجودگی کے دوران مشترکہ قانون سازی کا سہارا لیتے ہوئے منظور کیاگیا ہے وہیں آئینی ماہرین اس بل کی منظوری کو 18ویں آئینی ترمیم کی واضح خلاف ورزی بھی قرار دے رہے ہیں جس کے تحت صحت کا شعبہ صوبائی معاملہ ہے۔ ماہرین کا استدلال ہے کہ یہ بل چھوٹے صوبوں کے صحت کے نظام کے لیے تباہی کا باعث ہوگا، کیوں کہ اس کے تحت نجی سطح پرچلنے والے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں متعلقہ صوبے کے علاوہ دیگر طلبہ کو داخلہ دینے کی اجازت مل جائے گی جو کسی بھی صوبے کے حق پر ڈاکا ڈالنے کے برابر ہے۔ جو اِن صوبوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد واپس اپنے صوبے میں جاکر طبی خدمات سرانجام دیں گے جس کی وجہ سے تینوں چھوٹے صوبوں کو مستقبل قریب میں ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پی ایم سی قانون سازی کا ایک اور ناقابلِ فہم بلکہ قابلِ اعتراض پہلو یہ ہے کہ نئی پالیسی کے تحت داخلہ ٹیسٹ وفاقی حکومت تیار کرے گی جو وفاقی نصاب کی بنیاد پر بنایا جائے گا، جبکہ عملاً ہر صوبے کا اپنا تعلیمی بورڈ ہے اور ہر صوبے کا اپنا نصاب ہے، اس لیے طلبہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تعلیمی ماہرین کاکہنا ہے کہ اس نئے بل سے چھوٹے صوبوں کے لوگوں کے حقوق کی واضح طور پر خلاف ورزی ہوگی اور نجی شعبے کے کالج اور یونیورسٹیاں اپنی فیس کا ڈھانچہ طے کرنے کے لیے خودمختار اور آزاد ہوں گی جس سے اشرافیہ کو پیسہ کمانے کا موقع مل جائے گا، جبکہ پیشہ ورانہ تعلیم کے بجائے نجی ادارے کاروبار کی طرح اس شعبے کو چلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی سی کافی بہتر ضابطہ کار ادارہ تھا جس کو تحلیل کرنے کی ضرورت نہیں تھی، یہ نیا کمیشن صرف صوبوں کے عوام کے حقوق کو پامال کرے گا، اور اس کے وجود اور فیصلوں سے چھوٹے صوبوں میں انسانی وسائل کی دستیابی بھی متاثر ہوگی۔