گلگت بلتستان کے انتظامی مستقبل کے حوالے سے سوال ہی سوال موجود ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں
آزاد کشمیر میں گلگت بلتستان کے سیاسی اور انتظامی مستقبل کے حوالے سے خدشات اور بے چینی کا ایک طوفان اُمڈ رہا ہے تو دوسری طرف مدتِ دراز سے جاری بے یقینی کے خاتمے کے امکانات پیدا ہونے پر گلگت بلتستان میں اظہارِ مسرت ہورہا ہے اور انہیں سرزمینِ بے آئین رہنے کے طویل اور تکلیف دہ عمل سے نجات کی صبح طلوع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں آزادکشمیر کے سیاسی حلقے اس حوالے سے مختلف انداز کی تجاویز پیش کررہے ہیں، جن میں گلگت بلتستان کو آزادکشمیر طرز کا اسٹیٹس دینے، اور اسے آزادکشمیر کے متوازی یونٹ کی حیثیت دے کر دونوں کو ایک وفاق کی شکل میں متحد کرنے کی تجاویز نمایاں ہیں۔
حکومتِ پاکستان اس خطے کے مستقبل کے حوالے سے عجلت میں کچھ فیصلے کرنا چاہ رہی ہے۔ ان فیصلوں کی بنیادیں بہت پہلے پڑچکی تھیں، مگر گزشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی شناخت پر بھارتی حملے کے بعد اس طرف پیش قدمی میں تیزی آگئی ہے۔ اب تو وفاق کے نمائندے کھل کر تسلیم کررہے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبائی اسٹیٹس دیا جارہا ہے۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ ایسا چین کے مشورے پر اور سی پیک کے تناظر میں کیا جارہا ہے۔ چین سی پیک پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے، وہ اپنے سرمائے کو کسی خطرے میں نہیں چھوڑ سکتا، اس لیے چین بھارتی اعتراضات دور کرنے کے لیے خطے کے اسٹیٹس کی تبدیلی چاہتا ہے۔ اس دوران پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے یہ انکشاف کیا ہے کہ گلگت بلتستان کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کے لیے امریکی دبائو ہے کیونکہ امریکہ کشمیر پر’’اسٹیٹس کو‘‘ چاہتا ہے۔ یہ ایک نئی بحث کا دروازہ کھولنے کی کوشش ہے۔ امریکہ بھارت کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے کا حامی تو ہے، مگر وہ ایسا پاک بھارت سمجھوتے کے نتیجے میں چاہتا ہے تاکہ کسی فریق کو اعتراض کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
پاکستان کشمیر کی متنازع حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے جس انداز سے گلگت بلتستان کا اسٹیٹس تبدیل کرنا چاہتا ہے بھارت کے ساتھ ساتھ یہ بات امریکہ کو بھی گوارا نہیں ہوگی، کیونکہ اس سے مسئلے کا پرنالہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ چین اور پاکستان دونوں اپنے کاغذوں اور باہمی معاہدوں میں اسٹیٹس کی تبدیلی کو مسئلہ کشمیر کے حتمی حل سے مشروط کررہے ہیں۔ امریکہ کیا چاہتا اور چین کیا چاہتا ہے اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کیا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام غیر یقینی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ آزادکشمیر کے عوام کشمیر کی متنازع حیثیت کو ہر قیمت پر زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ 1846ء کے معاہدۂ امرتسر کے تحت مہاراجا گلاب سنگھ کی تشکیل کردہ ریاست کی بحالی کے تصور کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس تصور کے ساتھ جڑے رہنے میں ہی کشمیریوں کا مستقبل اور بقا ہے۔ مہاراجا خاندان کے موجودہ وارث اور بھارتی لوک سبھا کے رکن کرن سنگھ اپنے آبا کی وراثت کا یہ بوجھ اُٹھانے سے انکاری ہیں اور پانچ اگست کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ دنیا کی بہت سی خاندانی سلطنتیں آخرکار انجام کو پہنچیں، انہی میں ہماری خاندانی سلطنت ریاست جموں وکشمیر بھی شامل ہے۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ سی پیک کی وجہ سے گلگت بلتستان کا علاقہ گریٹ گیم کا اہم میدان بن گیا ہے۔ ہمالیہ کی چوٹیوں پر بھارتی فوجی تنہا نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے فوجیوں کے ساتھ مشقیں کرتے نظر آتے ہیں، اور پاکستان کی فوج اور پیپلزلبریشن آرمی بھی من وتُو کی تمیز ختم کر کے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ بھارت پاکستان، چین اور روس کی فوجی مشقوں سے بھاگ کر امریکہ،آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے کی تیاری کررہا ہے، اور یہی عالمی تقسیم کے نئے خدوخال اُبھرنے کا مقام ہے۔ اس گریٹ گیم میں کمی کے بجائے روز بروز شدت کے آثار ہیں۔ اس سے علاقے کی حساسیت مزید بڑھ گئی ہے۔
گلگت بلتستان میں انتخابات بھی سر پر ہیں۔ 15 نومبر کو گلگت کے عوام اپنی نئی حکومت کے قیام کے لیے حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ گلگت کے انتخابات پرانے نظام اور طرز کے تحت ہی ہورہے ہیں، اس لیے فوری طور پر اسٹیٹس میں تبدیلی کا معاملہ ایک سوالیہ نشان کی زد میں ہے۔ اگر موجودہ نظام کا ڈھانچہ ختم ہونا ہے تو پھر اس قدر اخراجات کرکے اس کی تشکیلِ نو یعنی انتخابات کیوں ہورہے ہیں؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے ووٹنگ ہو۔ عین ممکن ہے گلگت اسمبلی کو ہی صوبائی اسمبلی قرار دے کر قومی اسمبلی کے لیے نئی حلقہ بندیاں تشکیل دی جائیں۔ اس طرح گلگت بلتستان کے انتظامی مستقبل کے حوالے سے سوال ہی سوال موجود ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ اصولی بات یہ ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو اس خطے کا زیادہ سے زیادہ متنازع اسٹیٹس واضح اور گہرا کرنا چاہیے۔ بھارت کے خیال میں تو کشمیر نام کا کوئی مسئلہ ہی دنیا میں موجود نہیں، اس نام کا کوئی علاقہ اگر ہے تو وہ اُس کا اٹوٹ انگ اور یونین ٹیریٹری ہے۔ اس کے برعکس پاکستان قدم قدم پر اس خطے کو متنازع قرار دیتا ہے۔ اب بھارت تو اپنے مؤقف پر آگے بڑھ رہا ہے، مگر پاکستان اپنے مؤقف کو چھوڑ کر ’’کوّا چلا ہنس کی چال‘‘ اپنا رہا ہے۔ اس میں یہ خطرہ موجود ہے کہ کہیں اپنی اصل چال ہی نہ بھول بیٹھے۔ کشمیر کی متنازع حیثیت کو زندہ رکھنے میں کسی تھرڈ آپشن کا عکس کچھ لوگوں کو خوف زدہ کرتا ہے، مگر جب آپ ایک اصول پر کھڑے ہیں تو اس اصول کی خاطر آپ کو ہر قسم کے نتائج اور حالات کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ یہی خلوص اور محبت کا تقاضا بھی ہے۔ یہ رویّے مشروط ہوتے ہیں، نہ کسی مول تول اور لین دین کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ دل کے معاملات ہوتے ہیں۔ محبت کے بازار میں سود و زیاں کے باٹ رائج نہیں ہوتے۔