۔”اخلاقی طاقت“ بہ مقابلہ” بندوق کی طاقت“۔

کیا اس ملک کے سیاست دان اپنی اس طاقت کو جانتے ہیں؟ اور اس اخلاقی قوت کے لیے اپنے عمل سے کوئی مثال بھی قائم کرتے ہیں؟

وزیراعظم عمران خان نے اپنے تازہ ترین ٹی وی انٹرویو میں بڑی پتے کی بات کی ہے کہ سیاست دانوں کی طاقت اُن کی اخلاقی قوت ہے، جب کہ بندوقیں تو فوج کے پاس ہوتی ہیں۔ انہوں نے یہ بات پہلے سے طے شدہ کسی ایجنڈے کے تحت نہیں کی بلکہ انٹرویو کے دوران محض رواروی میں کہہ دی ہے۔ شاید خود انہیں بھی اس جملے کی حیثیت اور اس سے وابستہ تلخ ترین واقعات اور ان کے اثرات کا پورا ادراک نہ ہو۔ یہ بات انہوں نے اس طے شدہ انٹرویو میں کہی جو اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی، اس میں اپوزیشن اتحاد کی تشکیل اور اس اے پی سی اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے نوازشریف کے خطاب کے بعد دیا گیا تھا۔ غالباً ان کے قریبی حلقوں نے اس نئی سیاسی ڈویلپمنٹ اور نوازشریف کی تقریر کے اثرات کو ضائع کرنے کے لیے یہ ضروری سمجھا، جس کے بعد ان کے میڈیا منیجرز نے سما ٹی وی کے ندیم ملک کے ساتھ اس انٹرویو کا اہتمام کیا۔ اس انٹرویو میں عمران خان ایک سیاست دان کے طور پر اچھا کھیلے اور وہ سب کچھ کہہ دیا جو وہ کہنا چاہتے تھے، چاہے اس کا انٹرویو نگار کے سوال سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۔ انہوں نے نوازشریف کے بارے میں انتہائی سخت الفاظ اور لب و لہجہ اختیار کیا اور اس معاملے میں رسمی وضع داری اور ادب آداب کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری نہیں سمجھا، بلکہ ان پر غداری جیسے سنگین الزامات بھی لگا دیے، ان کی مبینہ کرپشن کے بارے میں پہلے جیسا ہی سخت رویہ اپنایا، اور پہلی بار اپنی طاقت کا اسی انداز میں برملا اظہار کیا جس کا اظہار وہ اپنی کپتانی کے دنوں میں کرتے تھے۔ انہوں نے یہ تو کہا کہ اگر جنرل ظہیرالاسلام نے نوازشریف سے استعفیٰ مانگا تھا تو نوازشریف ان کو برطرف کردیتے۔ لیکن اسی نوازشریف نے جنرل پرویزمشرف کو ہٹانے کی کوشش کی تو ان کے اس اقدام کا عمران خان نے اسی انٹرویو میں تمسخر اڑایا۔
عمران خان کی یہ بات بہت اہم ہے کہ سیاست دانوں کی اصل طاقت اُن کی اخلاقی قوت ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ اسی اخلاقی قوت کے بل پر وہ عوامی طاقت و مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ادارے ان کا احترام بھی کرتے ہیں اور ان کے سیاسی و نفسیاتی دبائو میں بھی رہتے ہیں۔ لیکن کیا اس ملک کے سیاست دان اپنی اس طاقت کو جانتے ہیں؟ اور اس اخلاقی قوت کے لیے اپنے عمل سے کوئی مثال بھی قائم کرتے ہیں؟ اگر اس امر کا جائزہ لیا جائے تو اس میدان میں ہم خاصے تہی دست ہیں۔ اگر آج کے دو بڑے سیاسی حریفوں عمران خان اور نوازشریف ہی کا جائزہ لیں تو ہمیں سخت مایوسی ہوگی۔ ماضی میں اپنی اپنی ذاتی زندگیوں میں دونوں سنگین الزامات کی زد میں رہے ہیں، لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران بھی ان کے ہاں اخلاقیات کی حیثیت ثانوی بلکہ اس سے بھی نیچے رہی ہے۔ عمران خان کو پوری اپوزیشن تواتر کے ساتھ سلیکٹڈ وزیراعظم کہہ رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جائز طریقے سے منتخب نہیں ہوئے بلکہ مقتدر حلقوں نے انہیں زبردستی جتوایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام زیادہ شدومد سے لگانے والے نوازشریف خود بھی بار بار سلیکٹڈ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم رہے ہیں۔ دونوں لیڈرانِ کرام کے ذاتی اور شخصی رویّے بھی کسی اخلاقی بالاتری کا اظہار نہیں کرتے۔ دونوں کمزوروں کے ساتھ توہین آمیز انداز میں اور طاقتوروں کے ساتھ جھک کر ملنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ نوازشریف کے اردگرد ان کے مخالفین کے مطابق جتنے کرپٹ اور نیب زدہ لوگ موجود ہیں، خود عمران خان بھی اس معاملے میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور علیم خان جیسے لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگر نوازشریف کے حواریوں نے جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کیا تھا تو عمران خان کی حکومت نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد حسن صدیقی کو برطرف کیا ور جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے وہ سب سامان پیدا کیا جو عدلیہ کی آزادی کے لیے کوئی خوشگوار نقش نہیں ہے۔ دونوں رہنمائوں نے عام انتخابات میں الیکٹ ایبلز پر مکمل انحصار کرکے اپنی سیاسی اور اخلاقی حیثیت واضح کردی۔ ان میں سے بہت سے الیکٹ ایبلز صرف مقتدر حلقوں اور افراد کے زور پر آئے تھے۔ اگر عمران خان نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی نہ صرف طویل عرصے تک بلدیاتی انتخابات کو ٹالا، بلکہ جب باامر مجبوری انتخابات کرائے تو ان اداروں کو عملاً بے بس کرکے رکھا۔ اگر شہبازشریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز پر مالی الزامات ہیں تو وزیراعظم کی بہن علیمہ خان بھی اس ’’اعزاز‘‘ سے محروم نہیں۔ دونوں رہنمائوں کا اندازِ حکمرانی بھی جمہوریت کے نام پر شخصی بالادستی کا ہے۔ اگر نوازشریف اور شہبازشریف نے اپنی پسند کے لوگوں کو سرکاری کارپوریشنوں، خود مختار و نیم خودمختار اداروں کی سربراہی کسی میرٹ کے بغیر دی تو یہ کام موجودہ حکومت بھی مسلسل کررہی ہے۔ اگرنوازشریف دور میں سانحہ ماڈل ٹائون کے قاتل نہیں پکڑے جاتے تو عمران خان کے دور میں بھی سانحہ ساہیوال کے ملزمان آزادانہ گھومتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ سرکاری وسائل اوراختیارات کا جتنا غلط استعمال نواز دور میں ہوتا رہا ہے، عمرانی دور میں بھی وہ اسی طرح جاری ہے۔ عافیہ صدیقی اگر نواز حکومت کے دعووں کے باوجود رہا نہیں ہوسکیں تو عمران خان کی اعلانیہ بڑھکوں کے باوجود بھی جیل میں ہی ہیں۔ اگر نوازشریف پر مودی سے یاری کا الزام ہے تو خود عمران خان بھی انہیں بار بار فون کرتے ہیں جو خود ان کے بقول وہ سنتے ہی نہیں ہیں۔ اپنے اعلانیہ منشور پر اگر نواز شریف نے دس پندرہ فیصد سے زیادہ عمل نہیں کیا تو اس معاملے میں عمران خان کا بھی ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے۔ ا صل بات یہ ہے کہ عمران خان، نوازشریف یا دوسرے سیاسی لیڈروں کو محض اخلاقی قوت کا جھانسہ نہیں دینا چاہیے بلکہ اپنے کردار اور عمل سے اپنی اور اپنی جماعت کی اخلاقی حیثیت بہتر کرنی چاہیے کہ اسی میں ان کی کامیابی ہے۔ لیکن اب تک کا ریکارڈ تو مایوس کن ہی ہے،اوراس ریکارڈ کے ساتھ تو بالادستی بندوق ہی کی ہوگی۔