پیر 5 اکتوبر کی صبح قطر سے پیغام موصول ہوا کہ برادرِ عزیز، عبدالغفار عزیز اُس منزل سے گزر گئے جس سے ہر ذی روح کو گزرنا ہے۔ اگرچہ خبر غیر متوقع نہیں تھی، دل کو ایک جھٹکا سا لگا اور آنکھیں نم ہوگئیں، ماضی میں گزرے لمحات اور واقعات نظروں میں گھومنے لگے۔
عبدالغفار عزیز کی رحلت ویسے تو تمام وابستگانِ تحریک کے لیے رنج و الم کا باعث ہے، لیکن حلقۂ احباب قطر کے ارکان و کارکنان کے لیے یہ رنج و الم کا کوہِ گراں ہے جسے برسوں بھلایا نہ جاسکے گا۔ حلقۂ احباب قطر سے وابستہ افراد جہاں بھی جمع ہوں گے عبدالغفار عزیز کی کمی محسوس ہوگی۔
عبدالغفارعزیز 1980ء کی دہائی میں قطر آئے، 99 فیصد لوگوں کے برعکس یہ ریال کمانے نہیں بلکہ حصولِ علم کے لیے آئے تھے۔ قطر یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں تعلیم حاصل کی، ساتھ ہی عربی زبان کا مطالعہ جاری رہا اور عربی زبان پر اتنی دسترس ہوگئی کہ اہلِ زبان بھی رشک کرتے۔
قطر یونیورسٹی سے دورانِ تعلیم شیخ یوسف القرضاوی، شیخ عبدالمعیز عبدالستار، محمد غزالی، شیخ عبدالعزیز کراداغی جیسے بڑے علما کی صحبت نصیب ہوئی جس نے دل و دماغ کو روشن کردیا۔یونیورسٹی تعطیلات ہوتیں تو زیادہ تر وقت مرکز حلقۂ احباب میں گزرتا۔ میں وہ راتیں کبھی نہیں بھولوں گا جب ہم سونے کے لیے بستر پر دراز ہوتے تو گھنٹوں تحریکی مسائل اور عالمی اسلامی تحریکوں پر گفتگو کرتے، یا پھر دعوتی پروگراموں کی تیاری کرتے۔ اتنے قریبی تعلق کے حوالے سے میں گواہی دیتا ہوں کہ عبدالغفار عزیز نہایت نیک، بااخلاق اور شائستہ لب و لہجہ رکھنے والے انسان تھے۔ جو ان سے ایک بار مل لیتا وہ انہیں کبھی نہ بھولتا۔ دورانِ تعلیم ہی وہ حلقے کے رکن بن گئے اور رکن شوریٰ بھی منتخب ہوگئے۔ نہایت صائب الرائے تھے، اپنی دوٹوک رائے پیش کرتے، جو فیصلہ ہوجاتا اس پر پورے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے۔
1990ء عبدالغفار عزیز کا آخری تعلیمی سال تھا۔ ہمارا خیال تھا مستقبل کے حوالے سے ایک بہترین فرد میسر آئے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ اور تھی، انہیں بہت بڑے کام کے لیے منتخب کرلیا گیا تھا۔ 1990ء میں جہادِ کشمیر عروج پر تھا، قاضی حسین احمد نے مسئلہ کشمیر اقوام عالم کے سامنے پیش کرنے کے لیے ایک پارلیمانی وفد کے ہمراہ بیرونی ممالک کا دورہ کیا۔اس سلسلے میں قطر بھی تشریف لائے۔ یہاں کے دینی اور سرکاری حلقوں میں متعدد پروگرام ہوئے۔ امیر قطر سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سارے پروگراموں میں عبدالغفار عزیز حلقہ کی طرف سے رابطہ افسر تھے۔ اس موقع پر محترم قاضی حسین احمد نے اس ’’جوہرِ قابل‘‘ کو پہچانا اور ہدایت دی کہ تعلیم ختم ہوتے ہی لاہور آجائیں۔ ایک ایسے شخص کے لیے بڑا کٹھن فیصلہ تھا، جس کوقطر جیسی دولت مند ریاست میں عربی زبان پر استاذانہ دسترس رکھتے ہوئے خوشحال مستقبل سامنے نظر آرہا تھا، لیکن عبدالغفار کو یہ فیصلہ کرنے میں چند منٹ بھی نہ لگے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ تعلیم ختم ہوئی تو بوریا بسترا سنبھالا اور لاہور روانہ ہوگئے۔
جماعت اسلامی پاکستان شعبہ امورِ خارجہ کی ذمہ داری تفویض ہوئی۔ اس شعبے کو اتنا فعال بنایا کہ تحریک کی رسائی عرب میڈیا تک ہوگئی۔ خاص طور پر ’’الجزیرہ‘‘ چینل میں اسلامی تحریکوں کو نمایاں جگہ ملنے لگی۔
عبدالغفار عزیز اسلامی تحریکوں اور رہنمائوں سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔ قطر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے عرب ممالک کی نئی نسل کی سوچ اور رجحانات سے بھی واقف تھے۔ انہوں نے گزشتہ پچیس تیس سال تحریک کی گراں مایہ خدمات انجام دیں۔ بڑے اہم مناصب پر فائز رہے، لیکن ساتھیوں کے لیے وہی عبدالغفار تھے… وہی محبت، وہی سادگی، وہی بے تکلفی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ابھی بیل بجے گی اور دوسری طرف سے آواز آئے گی ’’بیگ صاحب قبلہ کیسے ہیں؟‘‘ دل چاہتا ہے سیف الرحمٰن بھائی اور حبیب الرحمٰن بھائی سے تعزیت کروں، پھر خیال آتا ہے کہ تعزیت تو پورے حلقۂ احباب سے کرنی چاہیے۔ باجوہ صاحب، زاہد اعوان صاحب، ریاض احمد چودھری، حافظ رفیع اللہ، شیر علی… کتنے ہی نام جو دکھ محسوس کرتے ہیں۔ آئیے ہم دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمارے اس بھائی کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ حسنات کو قبول فرمائے، کوتاہیوں کو درگزر فرمائے۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تُو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
عبدالغفار عزیز ایک نظریے اور جہدِ مسلسل کا نام ہے
نمازِ جنازہ کے موقع پر سراج الحق کا عبدالغفار عزیز مرحوم کو خراجِ عقیدت
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان، شعبہ امور خارجہ کے سربراہ اور انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالغفارعزیز مرحوم کی نمازِ جنازہ پانچ اکتوبر پیر کو نماز ظہر کے بعد جامع مسجد منصورہ لاہور میں ادا کی گئی۔
نمازِ جنازہ سے قبل جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے اپنے مرحوم ساتھی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ عبدالغفار عزیز مرحوم دو سال سے بیمار تھے، انہوں نے اس موذی مرض کے درد، کرب اور تکلیف کو اپنی ذات پر برداشت کیا۔ آخری چند ماہ میں بھی جب تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو بستر علالت پر بھی وہ دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں سے رابطے کرتے اور مجاہد فی سبیل اللہ کی حیثیت سے اپنا فرض نبھاتے رہے۔ آج رات جب میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو اس آخری ملاقات میں انہوں نے آخری بار آنکھیں کھولیں اور ایک مومن کی حیثیت سے مسکراہٹ کے ذریعے آخری صدقہ کیا۔ انہوں نے گردن اور بازو ہلا کر ہاتھ ملانے کی بھی کوشش کی، ان کی یہ آخری مسکراہٹ اسلامی تحریک کے تمام کارکنان کے لیے صدقہ تھی۔ اس صدقے کے پچیس تیس منٹ بعد ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ ان کی موت ایک مومن کی موت تھی جس نے تمام عمر استقامت کے ساتھ اپنے رب کی اطاعت اور دین کی خدمت کی۔ میں نے ان کے ہمراہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے سفر بھی کیے اور پاکستان میں بھی شب و روز ان کے ساتھ گزارے، میں نے انہیں ایک نفسِ مطمئنہ پایا… شدید بیماری کی حالت میں بھی ان کی چارپائی اور بسترِ علالت اسلامی تحریکوں کا مرکز بنا ہوا تھا، وہ رابطوں میں مسلسل مصروف تھے۔ وہ تحریکی نظم و ضبط کے مکمل پابند اور اطاعت کی علامت تھے۔ انہوں نے 7 اکتوبر کو ہونے والے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کا وعدہ کیا تھا، مگر اس سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا۔ عبدالغفار عزیز بھائی نے اپنے بچوں اور اہلِ خانہ سے بھی زیادہ محبت اپنی اسلامی تحریک سے کی، اور اپنی زندگی کا بڑا حصہ تحریک کی خاطر سفر اور جدوجہد میں گھر سے باہر گزارا۔ میں امیر کی حیثیت سے اپنے بھائی عبدالغفار عزیز کے سفرِ آخرت کے اس موقع پر گواہی دیتا ہوں اور اپنے رب سے التجا کرتا ہوں کہ یا اللہ! تُو ان سے راضی ہو جا کہ وہ ہمیشہ اطاعت ِنظم کے پابند رہے۔
نبیِ مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن لوگوں کو خوش خبری دی ہے جنہوں نے ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کے لیے ہی محبت کی، اللہ تعالیٰ ہی کے لیے دشمنی۔ اللہ ہی کی خاطر اپنا مال دیا اور اس کی رضا کی خاطر اسے روکا… بلاشبہ عبدالغفار عزیز سے ہم سب کی محبت اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر ہے، دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کے کارکنان اور قائدین عبدالغفار عزیز بھائی کی وفات پر غمزدہ ہیں۔ وہ پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کی تحریکوں کے ترجمان تھے۔ میں نے انہیں بڑی بڑی عالمی کانفرنسوں میں دیکھا، اکثر علماء انہیں الاستاذ اور الشیخ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ان کی وفات کی خبر کس قدر تیزی سے دنیا بھر میں پہنچی اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر کا تعزیتی فون مجھے نماز فجر سے قبل آیا۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے بھی رابطہ کرکے دکھ کا اظہار کیا۔ پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں میں ان کے انتقال سے غم کی لہر دوڑی ہوئی ہے، اور سب غم میں ڈوبے ہوئے ہیں… دراصل عبدالغفار عزیز کسی شخص یا فرد کا نام نہیں… یہ ایک نظریے، تحریک اور جہدِ مسلسل کا نام ہے۔عبدالغفار عزیز سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم سب جدوجہد مزید تیز کرنے کا عہد کریں اور یہ عزم کریں کہ اپنے خون کا آخری قطرہ دین کی سربلندی کے لیے بہا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی کی مغفرت کرے، ان کے درجات بلند فرمائے۔