عرب اور اسرائیل

المیۂ فلسطین ماضی، حال اور مستقل کے آئینے میں

(آٹھواں حصہ)

مجرم بھی محتسب بھی

اسرائیل کے ڈھونڈورچی ایک رونا ہمیشہ روتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل یو۔این۔ او نے بنایا تھا اور اس لیے جو عرب ملک اسے نہیں مانتے وہ یو۔این۔ او کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندوستان اسرائیل سے سفارتی رشتے قائم نہ کرکے یو۔این۔ او کی بے عزتی کررہا ہے۔
سچائی یہ ہے کہ یہ دونوں دلیلیں بالکل لغو بھی ہیں اور بے بنیاد بھی۔ یاد رکھنے کی پہلی بات تو یہ ہے کہ جس اسرائیل کو اقوام متحدہ نے بنانے کی اجازت دی تھی اُس میں اور موجودہ اسرائیل میں بے حد فرق ہے۔ یو۔این۔او کے 29 نومبر 1947ء کے ریزولیوشن کے مطابق (ہندوستان اور سب ہی آزاد ایشیائی ملکوں نے اس کی مخالفت کی تھی) اسرائیل کو فلسطین کے تقریباً 55 فی صدی حصے ہی پر اپنی حکومت قائم کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ یہ بھی طے ہوا تھا کہ یروشلم کا مقدس شہر عالمی نگرانی میں دیا جائے گا اور فلسطین کا تقریباً 45 فی صدی حصہ عربوں کے پاس رہے گا۔
اسرائیل نے اس ریزولیوشن پر ’’عمل‘‘ یوں کیا کہ 15مئی 1948ء کو وجود میں آنے سے پہلے ہی فلسطین کے 77 فی صدی حصے پر قبضہ کرلیا، اس میں یروشلم کے شہر کا ایک بڑا حصہ بھی شامل تھا۔ اس کے بعد 7 دسمبر 1949ء کو اسرائیل نے اپنی پارلیمنٹ کو نئے یروشلم میں منتقل کردیا۔ اس پر اقوام متحد کی عام اسمبلی نے 9 دسمبر 1949ء کو اس بنا پر اسرائیل کی مذمت کا ایک ریزولیوشن منظور کیا۔ یو۔این۔او کی ٹرسٹی شپ کونسل نے 20 دسمبر 1949ء کو سخت ترین الفاظ میں اس اقدام کی مذمت کی، لیکن یو، این، او کی ناپاک تخلیق اسرائیل کے وزیراعظم بن گورین نے ان ریزولیوشنز کو ’’مُردہ اور فرسودہ‘‘ کہہ کر ٹھکرا دیا۔
(یروشلم پوسٹ 22 دسمبر 1949ء)
11مئی 1949ء کو یو، این، او کا ممبر بناتے وقت یہ بات ریزولیوشن میں درج تھی کہ اسرائیل فلسطین کے بارے میں یو، این، او کے سب ہی ریزولیوشنز مانے گا اور اسی شرط پر اسے ممبر بنایا گیا تھا۔ اُس وقت تک یہ ریزولیوشن صرف دو تھے، ایک تویہ کہ اسرائیل اُن تمام عربوں کو واپس اپنے گھروں میں آنے کی اجازت دے جنہیں اس نے مار پیٹ کر نکال دیا تھا، دوسرا یہ کہ اسرائیل وہ تمام علاقہ خالی کردے جسے یو، این، او کے فیصلے کے مطابق اس کی تحویل میں نہیں دیا گیا تھا۔ اسرائیل سرکار نے باقاعدہ وعدہ کیا تھا کہ عالمی برادری کا رکن بننے کے بعد وہ ان پر عمل کرے گا، مگر اس نے ’’عمل‘‘ یوں کیا کہ دو لاکھ مزید عربوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا اور مزید عرب علاقے پر قبضہ کرلیا۔ حالیہ جنگ چھڑنے تک اسرائیل پرانے ملک فلسطین کے تقریباً 78 فی صدی حصے پر قبضہ کرچکا تھا، حالانکہ یو، این، او نے اسے صرف 55 فی صدی کا حق دار بنایا تھا۔
اسرائیلی دھاندلی کی سب سے تازہ مثال یہ ہے کہ یو، این، او کی عام اسمبلی اسی سال جولائی 1967ء میں دو بار بہت ہی صاف اکثریت کے ساتھ ریزولیوشن پاس کرچکی ہے کہ یروشلم کو اسرائیل اپنی قلمرو میں نہ ملائے، مگر ہر اسرائیلی لیڈر خم ٹھونک کر یہ کہہ رہا ہے کہ یو، این، او جائے بھاڑ میں، وہ یروشلم کے اس پرانے شہر کو کبھی نہیں چھوڑے گا جس پر اسرائیلیوں نے حال ہی میں قبضہ کیا تھا۔
جس بے دردی کے ساتھ اسرائیل نے یو، این، او کے ہندوستانی دستے کے فوجیوں کو قتل کیا اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی نظروں میں یو، این، او یا اس کے سپاہیوں کی رتی بھر بھی نہ عزت ہے اور نہ وقعت۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ ہی کے ثالث شہزادہ برناڈوٹ کو 1948ء میں ایسی ہی بے رحمی سے قتل کردیا گیا تھا۔ اس پر اسرائیل کی مذمت کا سلامتی کونسل کا ریزولیوشن (18 ستمبر 1948ء) بھی موجود ہے۔ اس ریزولیوشن میں اظہارِ افسوس کیا گیا تھا کہ بار بار توجہ دلانے اور مسلسل وعدے کرنے کے باوجود اسرائیل سرکار نے برناڈوٹ کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا‘‘۔
اسرائیل ہی اب تک عرب رفیوجیوں کے بارے میں یو،این، او کے 12 ریزولیوشنز کو ٹھکرا چکا ہے۔ اسرائیل ہی کے خلاف یو، این، او کی سیکورٹی کونسل نے 7 بار اور عام اسمبلی نے 27 بار پچھلے 20 برسوں میں ریزولیوشن منظور کیے ہیں، مگر ایک بار بھی اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

سب سے بڑا مجرم

جو لوگ عربوں کو یہود دشمنی کا الزام دیتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں سیکورٹی کونسل نے 7 بار اور یو،این، او کے دوسرے اداروں نے 17مرتبہ اسرائیل کے حملوں اور جارحانہ کارروائیوں کی مذمت کے ریزولیوشن پاس کیے ہیں وہاں عربوں کے خلاف ایک بھی ریزولیوشن موجود نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے دو اہم حمایتیوں امریکہ اور برطانیہ کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ ریزولیوشن اُسی وقت منظور کیے گئے جبکہ اسرائیل کی امن دشمن کارروائیاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ امریکہ اور برطانیہ کو بھی اپنے پٹھو کی مذمت پر مجبور ہونا پڑا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جس کی مذمت یو،این، او نے اتنی بار اور اتنی زیادہ کی ہو۔ حیرت ہے کہ وہی اسرائیل یو،این،او کے نام کو اپنے مخالفوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، اسے کہتے ہیں ایک تو چوری اور اوپر سے سینہ زوری۔ اسی اسرائیل کے حامی یہ کہنے سے نہیں ہچکچاتے کہ اسرائیل کی ’’حق تلفی‘‘ کرکے عرب اقوام متحدہ کو جھٹلا رہے ہیں۔
عربوں کی سیدھی سادی دلیل یہ ہے کہ ان سے اسرائیل کے ’’حق‘‘ منوانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اسرائیل کو یو،این، او کے فیصلوں اور عالمی رائے عامہ کا پابند بنایا جائے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حالیہ حملے کے دوران جن چار لاکھ سے زیادہ عربوں کو اسرائیل نے بے گھر بنایا ہے اُن میں سے بھی چند ہزار سے زیادہ کو اس نے واپس آنے کی اجازت نہیں دی۔ اسرائیل کا یہ اقدام بھی یو،این، او کے احکام کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ مگر اسرائیل نے صرف یہی رٹ لگا رکھی ہے کہ اس کے ہاں اتنی جگہ ہی نہیں ہے کہ وہ ان پندرہ لاکھ نئے اور پرانے عرب شرنارتھیوں کو اپنے گھروں میں واپس آنے کی اجازت دے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کروڑوں روپے خرچ کرکے دنیا بھر کے ملکوں میں پروپیگنڈا کرکے وہاں آباد یہودیوں کو اکسا رہا ہے کہ وہ اسرائیل میں آباد ہوجائیں۔ اسرائیلی وزیراعظم ایشکول نے پچھلے ہی دنوں کہا تھا کہ اسرائیل دنیا بھر کے چار کروڑ یہودیوں میں سے ہر ایک کو اپنی حدود کے اندر آباد کرسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر یہ چار کروڑ یہودی یو،این، او کے احکام کی مکمل خلاف ورزی کرکے آباد کیے جاسکتے ہیں تو 15 لاکھ عرب شرنارتھیوں کو اُن کے گھروں میں جانے کی اجازت دے کر یو،این، او کے ایک درجن سے زیادہ احکام کی تعمیل کیوں نہیں کی جاسکتی؟ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی بلڈنگ کی پیشانی پر یہ لکھا ہے کہ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے لے کر فرات تک ہیں‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اسرائیل مصر، لبنان، شام، اردن، عراق اور سعودی عرب کو فتح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا یہ ارادہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، لیکن اس سے یہ تو ظاہر ہوتا ہی ہے کہ اسرائیل سے متعلق عربوں کا خوف بالکل بے جا نہیں ہے۔ عربوں کا کہنا ہے کہ وہ یہودی مذہب کے ہرگز خلاف نہیں ہیں، آج بھی ہزاروں یہودی عرب ملکوں میں آباد ہیں۔ عرب یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر لبنان جیسے عرب ملک میں عیسائی اکثریت کو بہت خوشی کے ساتھ قبول کیا جاسکتا ہے تو فلسطین میں یہودی بڑے اطمینان سے رہ سکتے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ اسرائیلی حکمراں گورے سامراجیوں کے ایجنٹ بن کر عربوں کو فتح کرنے کے منصوبے ختم کردیں اور یو،این، او کے سب ہی ریزولیوشنز پر عمل کرتے ہوئے عرب سرزمین پر امن اور شرافت کے ساتھ رہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اوتھانٹ نے 19 ستمبر 1967ء کو عام اسمبلی کے بائیسویں اجلاس میں اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ’’آج دنیا کے سامنے سب سے ضروری اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل کی فوج عرب ملکوں کے وہ علاقے خالی کرے جن پر اس نے جارحانہ قبضہ کررکھا ہے۔ یہ مسئلہ دنیا کے لیے اور اتحادی سبھا کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اگر اتحادی سبھا کو صحیح معنوں میں امن و انصاف کی حمایت کرنی ہے، اور اگر وہ جنگل کے قانون کو مہذب دنیا کا طریق کار بنانا نہیں چاہتی ہے تو لازمی ہے کہ اس چیلنج کو قبول کیا جائے، کسی بھی ملک کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ فوجی طاقت سے دوسرے دیش کو شکست دے کر اس کے علاقے پر قابض ہوجائے اور اسے اپنے ملک کا حصہ بنالے‘‘۔
عام اسمبلی کے حالیہ اجلاس اور سلامتی کونسل کی بحثوں سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ اسرائیل ’’جنگل کے قانون‘‘ کے سوا کسی طریق کار میں یقین نہیں رکھتا۔ اسرائیلی رعونت کی حد ملاحظہ ہوکہ اُس نے ہندوستان اور تین افریشیائی ملکوں کی طرف سے پیش کردہ وہ ریزولیوشن بھی ٹھکرا دیا ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر اسرائیل حالیہ حملے سے ہتھیایا ہوا علاقہ خالی کردے تو اسرائیل کی سرحدوں اور اس کے وجود کی گارنٹی دی جاسکتی ہے۔ کسی بھی مجرم کے حق میں اس سے زیادہ نرم رویہ نہیں اپنایا جاسکتا۔ اسے بھی ماننے سے اسرائیل کا انکار ظاہر کرتا ہے کہ اس کی ہوسِ ملک گیری کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔

فرقہ پرستی بنام سیکولر ازم

اسرائیل کے ہندوستانی حمایتی کئی بار ایسی باتیں کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور ان کی عقل پر ماتم کرنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ’’اسرائیل پلٹ‘‘ جرنلسٹ صاحب بار بار یہ رٹ لگائے رہتے ہیں کہ عربوں نے یہودیوں کو بھی کبھی چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیا، یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کی بھولی بھالی جنتا کے فرقہ وارانہ جذبات بھڑک اٹھیں اور وہ اپنے دیش کے اصولوں اور قوم کے اقتصادی اور سیاسی فائدے کو بھلا کر اسرائیل کی حمایت میں جٹ جائیں، مگر ایسا لکھتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں تو شاید ذاتی طور پر اسرائیل بہت کچھ دے سکتا ہے، مگر ہندوستانی جنتا کو ناامیدی اور ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔
جو لوگ عربوں کی یہود دشمنی کا ذکر کرتے ہیں وہ صرف اپنی جہالت اور لاعلمی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، انہیں شاید علم نہیں ہے کہ عرب ملکوں میں خاص طور پر مراکش، الجیریا، تیونس اور عدن میں بہت بڑی تعداد میں یہودی اب بھی آباد ہیں۔ کبھی کسی نے اُن کے خلاف کچھ نہیں کہا، آج تک کسی عرب ملک میں پچھلے ہزاروں برسوں میں یہودیوں کے خلاف کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔ یہودیوں کے خلاف جو کچھ بھی ہوا وہ جرمنی اور ایسے ہی مغربی ملکوں میں ہوا جو اب اپنی سامراجی اغراض کے لیے یہودیوں کے سب سے بڑے حامی بنے بیٹھے ہیں۔ عجب تماشا یہ ہے کہ یہودیوں پر ظلم توڑے جرمنوں اور یورپینوں نے، لیکن اس کی کسر نکالی جارہی ہے اُن غریب عربوں سے، جنہوں نے یہودیوں کو ہمیشہ عزت اور احترام کی جگہ دی ہے۔ مذہبی طور پر بھی مسلمان یہودیوں کو ایک اہلِ کتاب مذہب کا درجہ دیتے ہیں، یہودیوں کے پیغمبروں حضرت موسیٰؑ، حضرت ابراہیمؑ اور دوسرے بزرگوں کو اپنے پیغمبر بھی مانتے ہیں۔
یہودی مذہب کے متعلق عربوں کی فراخدلی کی ایک مثال بمبئی سے اسرائیلی قونصل خانے کی طرف سے شائع ہونے والے رسالے ’’نیوز فروم اسرائیل‘‘ ہی کے ماہِ جولائی کے شمارے میں دی گئی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے مندر کی وہ دیوار جسے یہودی دنیا کا سب سے مقدس مقام مانتے ہیں اُس وقت تک گندگی اور ملبے میں پڑی رہی جب تک یروشلم پر رومیوں اور عیسائیوں کا قبضہ رہا، مگر جب اس شہر کو مسلمانوں نے فتح کیا تو ایک دن وہاں کے نئے حاکم سلطان سلیم نے دیکھا کہ کچھ یہودی عورتیں تو گندگی کے ایک ٹیلے کی طرف دیکھ کر روتی تھیں، لیکن عیسائی آبادی وہاں پر کوڑا کرکٹ پھینکنے آیا کرتی تھی، سلطان نے ایک عیسائی عورت سے پوچھا کہ وہ گندگی یہاں کیوں پھینکتی ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ پادریوں نے اسے ایسا کرنے کو کہا تھا۔ اس کے بعد سلطان سلیم نے یہودی ربیوں سے پوچھا کہ اس جگہ کی اہمیت کیا ہے؟ تو انہوں نے اصلیت بتائی۔ اس پر سلطان نے فوراً سرکاری حکم سے وہ جگہ صاف کرائی اور اس کی نگرانی یہودیوں کے حوالے کردی۔ وہ تو وہاں پر حضرت سلیمانؑ کا مندر بھی بنوا دینا چاہتے تھے، لیکن کسی مذہبی بنا پر یہودی مذہبی رہنمائوں نے ان کا بے حد شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا۔
یہ حقیقت بھی شاید کم لوگ جانتے ہوں کہ فلسطین میں انیسویں صدی کے آخر میں چند ہزار یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت سلطان ترکی نے اس بنا پر دی تھی کہ وہ لوگ یورپینوں کے ستائے ہوئے تھے۔
اسرائیل کے ہندوستانی حمایتی شاید یہ بتانا بھی بھول جاتے ہیں کہ اسرائیل دنیا کے اُن دوچار ملکوں میں سے ہے جو کھلے بندوں اپنے ملک کی سیاست کی بنیاد ایک خاص مذہب پر رکھتا ہے، اسرائیل کے نئے اور پرانے رہنما بار بار یہ کہتے رہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی یہودی بھلے وہ کہیں بھی آباد ہو، اُسے صرف اسرائیل ہی کا وفادار ہونا چاہیے، یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کل چین کہنے لگے کہ دنیا بھر کے بودھوں کو اس کا وفادار ہونا چاہیے کیونکہ سب سے زیادہ بودھ چین میں ہیں، یا امریکہ دنیا بھر کے عیسائیوں کو اپنا وفادار بنانے پر تل جائے، یا پاکستان مسلمانوں سے وفاداری کا مطالبہ کرنے لگے۔
(جاری ہے)