امام رازیؒ نے رب العٰلمین کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ذوالنون مصریؒ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ ایک دن کپڑے دھونے کے لیے دریائے نیل کے کنارے تشریف لے گئے، یکایک انہیں ایک موٹا تازہ بچھو دکھائی دیا، جو ساحل کی طرف جارہا تھا۔ جب وہ کنارے پر پہنچا تو پانی میں سے ایک کچھوا نکلا اور سطح پر تیرنے لگا۔ بچھو نے جب اسے دیکھا تو وہ کود کر اس کی پشت پر سوار ہوگیا۔ کچھوا اسے لے کر دوسرے کنارے کی طرف چلا۔ حضرت ذوالنونؒ فرماتے ہیں کہ میں تہبند باندھ کر دریا میں اترگیا اور ان دونوں کو دیکھتا رہا، یہاں تک کہ وہ دریا کے اُس پار پہنچ گئے، یہاں پہنچ کر بچھو کچھوے کی پیٹھ پر سے اترا اور خشکی پر چڑھ گیا۔ میں بھی دریا سے نکل کر اس کے پیچھے ہولیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ایک گھنے درخت کی چھائوں میں ایک نوخیز لڑکا گہری نیند سو رہا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ بچھو دوسری طرف سے اس نوجوان کو کاٹنے آیا ہے، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک زہریلا سانپ دکھائی دیا، جو پھن اٹھا کر لڑکے کی طرف بڑھ رہا تھا، لیکن ابھی وہ لڑکے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ بچھو آگے بڑھا اور سانپ کے سر سے چمٹ کر بیٹھ گیا، یہاں تک کہ تھوڑی دیر میں سانپ مر گیا اور بچھو واپس کنارے کی طرف لوٹا، وہاں کچھوا اس کا منتظر تھا، اس کی پیٹھ پر سوار ہوکر وہ دوبارہ اس پار جا پہنچا۔ میں یہ عجیب ماجرا دیکھ کر یہ شعر پڑھنے لگا
یار اقدا اولجلیل یحفظہ
من کل سوء یکون فی الظلم
کیف تنام العین عن ملک
تاتیہ منک فوائد النعم
میری آواز سن کر نوجوان جاگ اٹھا، میں نے اسے تمام قصہ سنایا۔ اُس پر اس واقعے کا اتنا اثر ہوا کہ اُس نے اپنی لہو و لعب کی زندگی سے توبہ کی اور تمام عمر سیاحت میں بسر کردی۔ (تفسیر کبیر وتاریخ الیافعیؒ)۔
حضرت ذوالنون مصریؒ کے مذکورہ دو شعروں کے مفہوم کو کسی فارسی شاعر نے کتنے اچھے طریقے سے کہا ہے:۔
کارسازما بساز کا رما
فکر مادر کارما آزارما
(” تراشے“….مفتی محمد تقی عثمانی)
اقوال
٭بھائی وہی ہے کہ نصیحت کرتا رہے اور شفقت و محبت میں اس کا پابند نہ بنے۔ (امام حسینؓ)۔
٭وعظ گوئی سے پرہیز کرو جب تک تم خود پورے عامل نہ بن جائو۔( امام غزالیؒ)۔
٭جو نصیحت غرض سے خالی ہو، کڑوی دوا کی طرح مرض کی دافع ہے۔ (شیخ سعدیؒ)۔
٭بادشاہوں کو وہی شخص نصیحت کرسکتا ہے جس کو نہ سرکا خوف ہو، نہ زر کی تمنا۔ (شیخ سعدیؒ)۔
٭مغرور کو کوئی نصیحت نہیں کرسکتا، اس لیے کہ ناصح ہونے میں برتری کی ضرورت ہے جس سے اسے نفرت ہے۔ (ہربرٹ ۔اسپنسر)۔
حسد سے کون بچ پاتا ہے؟
ایک بادشاہ نے دورانِ سیر و شکار میں ایک نہایت غریب الحال مگر صحت مند نوجوان کو دیکھا جو عالمِ شباب کی مستی میں قہقہے لگاتا، گاتا اور ناچتا جارہا تھا۔ بادشاہ نے اسے بلاکر پوچھا:’’تم کون ہو، اور اس مفلوک الحالی میں بھی اس قدر خوش کیسے ہو؟“
اس نے جواب دیا:’’نہ کسی کا حاسد ہوں اور نہ محسود۔ اپنے افلاس کے باوجود امیروں سے حسد نہیں کرتا اور نہ کوئی میری غریبی کی وجہ سے میرے ساتھ حسد رکھتا ہے‘‘۔
بادشاہ نے کہا: ’’تُو غلط کہتا ہے، میں تیرا سب سے بڑا حاسد ہوں، کیونکہ مجھے اپنی ساری عمر میں ایسی مسرت و شادمانی اور ایسی صحت مند جوانی کبھی میسر نہیں آئی جو اس وقت تجھے حاصل ہے‘‘۔
(ماہنامہ چشم ِ بیدار۔ ستمبر 2020ء)