حکمران طبقہ چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہواس نظام کی تشکیل اور خودمختاری کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے
کیا واقعی پاکستان کی حکمرانی کے نظام میں مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی ترجیحات کی بنیاد پر ایک مضبوط اور مربوط نظام کے تحت قائم کیا جاسکے گا؟ کیونکہ عملی طور پر پاکستان کا جمہوری حکمرانی کا نظام مقامی حکومتوں کے نظام سے نہ صرف محروم ہے بلکہ اس نظام کو سیاسی بنیادوں پر ایک بڑے سیاسی استحصال کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت، بالخصوص صوبائی حکومتوں کا کردار سب سے زیادہ تنقید کی زد میں آتا ہے جو بنیادی جمہوریت کے اس نظام کے ہی خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت وفاق اور صوبائی سطح پر حکمرانی کے شدید ترین بحران میں سبھی سیاسی، انتظامی اور قانونی فریق مقامی حکومتوں کے نظام کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، لیکن حکمران طبقہ چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، اس نظام کی تشکیل اور خودمختاری کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجازالحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے واضح طور پر ریمارکس دیے کہ ’’مقامی حکومتوں کا نظام‘‘ حکمران طبقات کی خواہش سے نہیں جڑا، بلکہ یہ عمل آئین کی پاسداری سے جڑا ہوا ہے، اور حکمران طبقات کا فرض ہے کہ وہ آئین کی شق140-Aپر مکمل عمل درآمد کرتے ہوئے اس نظام کو خودمختار، فعال اورشفاف بنائیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بقول ان مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دینا صوبائی حکومتوں کی سیاسی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ آئینی ذمہ داری بھی ہے۔ اسی طرح عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اختیارات کی بات کرنی ہے تو ذمہ داری اور احتساب کی بھی بات کرنا ہوگی۔ اگرچہ چیف جسٹس کے ریمارکس سندھ اور اسلام آباد کی مقامی حکومتوں کے نظام کے تناظر میں تھے، لیکن پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی صورتِ حال بھی کسی المیے سے کم نہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک بنیادی نکتہ اٹھایا کہ سارا کھیل طاقت کو اپنے پاس رکھنے کا ہے، جب سیاست دان حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو اختیارات کی منتقلی پر بہت زور دیتے ہیں، لیکن جب اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتے ہیں تو اختیارات کی تقسیم کے مخالف بن جاتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومتیں اختیارات کی تقسیم کی مخالف ہیں۔ ملک کی اعلیٰ عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں نے مقامی حکومتوں کے نظام پر جو ریمارکس دیے ہیں وہ ہماری سیاست، جمہوریت اور اہلِ اقتدار سمیت دیگر فریقین کے لیے ایک بڑی چارج شیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2015ء میں بھی مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت جو مقامی انتخابات ہوئے تھے وہ حکمران طبقات کی خواہش یا فیصلے کے بجائے سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے تھے۔ اگر اُس وقت سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی اور اپنا فیصلہ نہ سناتی تو اُس وقت کے حکمران طبقات انتخابات کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔
مسئلہ حکمران طبقات کی سیاسی،آئینی یا قانونی ذمہ داری کے تحت محض مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد یا اس نظام کی تشکیل تک ہی محدود نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر نکتہ یا مسئلہ اس نظام کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کا ہے۔ ہمارے حکمرانی کے نظام کی عملی ضرورت مصنوعی یا کسی دبائو کی بنیاد پر محض ان مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت انتخابات یا نظام کی تشکیل ہی نہیں، بلکہ عملی طور پر ان اداروں کی آئینی ضرورت کے تحت خودمختاری اور شفافیت کی ہے۔ بڑے شہروں کے نظام کو جس فرسودہ نظام یا طور طریقوں، مرکزیت یعنی اختیارات کو اپنی حد تک سمیٹ کر چلایا جارہا ہے اس سے حکمرانی کا بحران مزید شدید ہوگیا ہے۔ ہماری صوبائی حکومتیں وفاق کی جانب سے 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات کی تقسیم کے باوجود مقامی حکومتوں کو مقامی سطح پر اختیارات دینے کے لیے کسی بھی طور پر تیار نظر نہیں آتیں، اور ان کا یہ رویہ یا طرزعمل 18ویں ترمیم اور صوبائی خودمختاری کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ صوبائی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں ضلعی یا تحصیل یا مقامی گائوں و محلے کی سطح پر خودمختار اور فیصلہ ساز اداروں کو بنیاد بنانا ہوگا، اور ان کو قائم کیے بغیر صوبائی خودمختاری ممکن نہیں ہوگی۔
اگرچہ مقامی حکومتوں کا نظام صوبائی معاملہ ہے اور حتمی فیصلہ بھی صوبائی حکومتوں کو ہی کرنا ہے۔ وفاق کا کوئی براہِ راست کردار اس نظام میں نہیں ہے۔ لیکن ان اداروں کو محض صوبائی حکومتوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا اور ان صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل میں تواتر سے تاخیر، کمزور یا مفلوج نظام، یا چاروں صوبوں کا ایک دوسرے سے مختلف نظام، بڑے شہروں کے نظام کو کوئی واضح شکل نہ دینا، حتیٰ کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے بنیادی اصولوں سے بھی انحراف صوبائی حکمران طبقات کا آمرانہ طرزعمل ہے، جو خود وفاقی سطح پر حکومت کے لیے بھی بڑا چیلنج ہے اور اسے غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ ان ساری خرابیوں کی بھاری قیمت پاکستان کے مظلوم، کمزور، غریب عوام اور بڑے بڑے شہر ایک بدترین حکمرانی کے نظام کی صورت میں ادا کررہے ہیں۔ ہم یہ سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ شفاف حکمرانی کے نظام کا براہِ راست تعلق ایک مضبوط اور خودمختار مقامی حکومتوں کے نظام سے ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد اور اعلیٰ عدلیہ کی یہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام کے بارے میں محض ریمارکس تک خود کو محدود نہ رکھیں، بلکہ وہ اس آئین شکنی پر صوبائی حکومتوں کے خلاف سوموٹو لیں۔ اس تناظر میں عدلیہ کو ان پانچ بنیادی باتوں پر توجہ دینی ہوگی:۔
(1) وہ اس وقت ملک کے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد اور کنٹونمنٹ بورڈ کے موجودہ مقامی حکومت سے جڑے نظام کا جائزہ لے کہ وہ کس حد تک 1973ء کے دستور کی شق 140-Aکے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
(2) ملک میں موجود تمام نظاموں میں تضاد اور ٹکرائو ہے، اور یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان میں چند بنیادی اصولوں پر ہم آہنگی پیدا کی جائے جس میں ہر سطح پر آئین کے تحت اختیارات کی سیاسی، انتظامی اور مالی تقسیم، آئین کی شق 32کے تحت کمزور اور محروم طبقات یعنی عورتوں، کسانوں، مزدوروں اور اقلیتوں سمیت نوجوانوں کی نمائندگی کو یقینی بنانا شامل ہے۔
(3) فوری طور پر صوبائی حکومتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں مقامی انتخابات کے عمل کو یقینی بنائیں۔
(4) مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے اس میں موجود آئینی رکاوٹوں کو ہر صورت ختم کیا جائے۔
(5) بڑے شہروں کے نظام کے لیے ایک مربوط اور جامع منصوبہ بنایا جائے، اور ارکانِ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز کا خاتمہ کرکے اسے مقامی نظام کے ماتحت کیا جائے۔
یہ کام اعلیٰ عدلیہ ہی کرسکتی ہے۔کیونکہ ہماری صوبائی حکومتیں نہ تو فوری مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے تیار نظر آتی ہیں، اور نہ ہی یہ سیاسی و جمہوری حکومتیں ان مقامی حکومتوں کو مکمل خودمختاری دینا چاہتی ہیں۔ اس لیے یہ اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران طبقات کی آئین شکنی کا نوٹس لے اور ایک مضبوط مقامی نظام بنانے میں عوام کی مدد کرے۔کیونکہ اس وقت پاکستان کا حکمرانی کا بحران مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے، اور لوگوں کی نظریں حکمران طبقات سے زیادہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر ہیں کہ کیا وہ اس نظام کو جو حکومتی ترجیحات میں بہت پیچھے ہے، کوئی بڑا سیاسی ریلیف دے سکے گی؟