نئی بحث
رکن قومی اسمبلی عائشہ رجب علی کے گھر کے سامنے مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چودھری پر تشدد کے واقعے نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، اس کی گرد بھی اڑائی جارہی ہے۔ پاکستان میں لبرل طبقہ سیاست میں ہو یا سماج میں، ہر جگہ ایک ایسا ماحول بنا رہا ہے کہ جہاں برائی کو چھپانے کے بجائے اسے پھیلایا جائے، طلال چودھری کا واقعہ حکومت اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم کو بندر کے ہاتھ میں ماچس جیسی مثال کے مصداق مل گیا ہے، یہ لبرل طبقہ چاہتا ہی نہیں کہ کسی ایسے شخص کو سزا ملے جو برائی کا مرتکب ہو، اسی لیے اس معاملے میںغلط معلومات پھیلائی جارہی ہیں تاکہ کسی کو اصل حقائق کا علم ہی نہ ہوسکے۔ اس کیس میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے، اسی لیے یہ واقعہ شہر کا اہم ترین موضوع بنا ہوا ہے۔ اس واقعے پر طلال چودھری اور عائشہ رجب علی کا مؤقف بھی سامنے آگیا ہے، مگر جھگڑے کے حوالے سے علاقہ مکینوں کا مؤقف بھی سامنے آیا جن کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چودھری کا گزشتہ ایک سال سے اس گھر میں آنا جانا تھا، وہ پہلے ہمیشہ رات کو بارہ بجے سے پہلے آتے تھے، تاہم واقعے کے روز رات دو بج کر چالیس منٹ پر آئے، جبکہ ان کی گیٹ پر موجود سیکورٹی گارڈ سے بھی تلخ کلامی ہوئی، کیونکہ گارڈ نے کہا تھا کہ پہلے اہلِ خانہ سے اس کی بات کروائی جائے پھر وہ انہیں جانے دے گا، لیکن طلال چودھری نے گارڈ کی بات نہ مانی اور زبردستی اندر آگئے، تاہم جیسے ہی وہ گھر میں گئے تو ان کا جھگڑا ہوا جس کے نتیجے میں وہ فوری باہر آئے اور اپنے پرائیویٹ گارڈ کو پکارا۔سچ کیا ہے ،کسی کو معلوم نہیں، لیکن سوشل میڈیا ’’حقائق‘‘ سے بھرا پڑا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چودھری پر تشدد اور نون لیگی خاتون رکن قومی اسمبلی کے معاملے کی تحقیقات کے لیے پولیس کی 4 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، ڈی ایس پی پیپلزکالونی عبدالخالق کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ کمیٹی میں ایس ایچ او تھانہ مدینہ ٹاؤن اور ایس ایچ او وومن پولیس کو شامل کیا گیا ہے۔ پولیس فریقین کا بیان لینے کی کوشش کررہی ہے۔ عائشہ اس واقعے کے بعد اسلام آباد چلی گئی ہیں، طلال چودھری بھی اسپتال سے فارغ کردیے گئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی کمیٹی بنائی ہے جو طلال چودھری اور ایم این اے عائشہ رجب کے بیان لے گی اور حقائق معلوم کرے گی۔ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں چھپایا جائے گا، عوام کو سب کچھ بتایا جائے گا۔ اس واقعے پر عائشہ رجب علی کا بھی مؤقف سامنے آیا ہے کہ میں بھی ایک ماں ہوں، بہن ہوں اور کسی کی بیٹی ہوں، اور ایک عزت دار گھرانے سے ہوں، میرا کسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں، سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے میری عزت پر سوال نہ اٹھایا جائے۔ عوامی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر میری ذات سے متعلق جو جو باتیں ہوئی ہیں تو یہ صرف میری نہیں بلکہ عورت ذات کی تذلیل کی گئی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے کیس کو دبائے جانے کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور طلال چودھری کو عائشہ رجب سے تنازعے کے بعد پارٹی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ فیصل آباد ڈویژن میں پارٹی کا بڑا دھڑا طلال چودھری کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے، رانا ثنا اللہ کے دھڑے کی جانب سے بھی طلال چودھری کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، خواتین ارکان کی جانب سے بھی طلال چودھری کے خلاف کارروائی کے لیے رابطے کیے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز اس معاملے کا جائزہ لے رہی ہیں۔ یہ معاملہ کسی حد تک نجی بھی ہے اور سیاسی بھی، لہٰذا موٹر وے کیس میں پھنسی ہوئی حکومت کے لیے اس واقعے نے اسے ’’سانس‘‘ لینے کا موقع فراہم کردیا ہے۔
فیصل آباد میں اس سے بڑا واقعہ ہونے جارہا ہے مگر اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ ریلوے روڈ کے دونوں طرف کی دکانیں جو کئی عشروں سے یہاں قائم تھیں، اب انہیں تجاوزات قرار دے کر گرایا جارہا ہے، یہ چار سو سے زائد دکانیں ہیں اور یہاں بلاشبہ اربوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ ان دکانوں کا معاملہ دراصل1980ء کی دہائی سے چلا آرہا ہے، تب ریلوے روڈ کا نقشہ میونسپل کارپوریشن نے جاری کیا تھاکہ سڑک کشادہ کرنے کے لیے دکانیں گرائی جائیں گی۔ دراصل یہ دکانیں ایک چھوٹے سے راجباہ پر قائم کی گئی تھیں، لیکن اب راجباہ تو ختم ہوگیا ہے اور یہ سڑک بھی تنگ پڑ گئی ہے، یہ فیصلہ آج نہیں تو کل ضرور ہوکر رہے گا۔
فیصل آباد میں ایک بڑی پیش رفت جعلی ادویہ فروشوں کے خلاف ہوئی ہے، ڈپٹی کمشنر محمد علی نے سختی سے ہدایت کی ہے کہ ضلع میں جعلی وغیر معیاری ادویہ کی فروخت کے گھناؤنے دھندے کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے، اس ضمن میں تمام تر محکمانہ کارروائی شفاف ہونی چاہیے،کسی قسم کی بددیانتی یا بے قاعدگیکو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ کوالٹی کنٹرول بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈرگ انسپکٹرز کی طرف سے میڈیکل اسٹورز/کلینکس کے خلاف کارروائی کی رپورٹوں کا جائزہ لیا۔ اجلاس میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر عدنان محمود، سیکرٹری کوالٹی کنٹرول بورڈ سحرش مرتضیٰ، اراکین کمیٹی کیپٹن ڈاکٹر محمد صدیق، غلام صابر، ڈرگ انسپکٹرز اور پنجاب پولیس کے نمائندہ آفیسر بھی موجود تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ علاج کے نام پر انسانی صحت سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، لہٰذا جعلی ڈاکٹروں ونیم حکیموں کے خلاف آپریشن کو نتیجہ خیز بنایا جائے تاکہ معاشرے سے اس منفی فعل کا خاتمہ ہوسکے۔ ڈرگ سیل لائسنس کے بغیر ادویہ فروخت کرنے والوں کے اسٹور فوری سیل کرنے کے علاوہ مقدمات درج کرائے جائیں، جبکہ زائد المیعاد، جعلی وغیر معیاری ادویہ فروخت، ادویہ کی حفاظت کے لیے ضروری انتظامات نہ کرنے اور خرید و فروخت کا ریکارڈ نہ رکھنے سمیت قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب میڈیکل اسٹوروں اور کلینکس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے بھی فیصل آباد کے لیے ایک اہم اعلان کیا کہ یہاں میڈیکل آلات بنانے کے لیے دو سو ایکڑ پر مشتمل انڈسٹریل زون قائم کیا جائے گا۔ میڈیکل انڈسٹریل زون کے قیام سے 1.4 ارب ڈالر کے میڈیکل آلات کی درآمدات میں کمی آئے گی۔