ایک احمق اور قیاس کا ترازو

حضرت علیؓ ایک دن بالا خانہ پر تشریف فرما تھے۔ نیچے سے ایک یہودی نے آپؓ کی طرف دیکھا، تو کہنے لگا کہ آپؓ کو اس کا علم ہے کہ اللہ تعالیٰ حفاظت کا ذمہ دار ہے، اور کیا آپؓ کو حق تعالیٰ کی حفاظت پر اعتماد ہے؟
آپؓ نے فرمایا: ہاں وہ خالقِ حقیقی بچپن سے لے کر آخر تک انسان کا محافظ ہے۔
یہودی نے کہا: اگر آپؓ کو واقعی اس بات کا یقین ہے تو اپنے آپؓ کو بالاخانہ سے نیچے گرا دیں تاکہ مجھے بھی معلوم ہوجائے کہ خدا آپؓ کی کیسے حفاظت کرتا ہے۔ پھر میں بھی آپؓ کا ہم عقیدہ ہوجائوں گا۔ آپؓ کی یہ… عملی دلیل میرے حُسنِ اعتقاد کا سبب بن جائے گی۔
حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا:۔

کے رسد مر بندۂ را کو باخدا
آزمائش پیش آروز ابتلا

کب بندے کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ خدا کی آزمائش اور امتحان کی جرأت کرے…! اے احمق نالائق! بندے کی کیا ہمت کہ وہ حق تعالیٰ کا امتحان لے!۔
یہ بات تو صرف حق تعالیٰ ہی کو زیب دیتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کا امتحان لے تاکہ ہم اپنی حقیقت سے آگاہ رہیں اور اس کے عالم الغیب ہونے کے بارے میں ہمارا عقیدہ پختہ رہے۔

گر بیاید ذرہ نجد کوہ را
بر درد زاں کہ ترازوش عی فتی

اگر پہاڑ کے دامن میں ایک ذرہ پہاڑ کی بلندی کو دیکھ کر کہے کہ اچھا میں تجھے وزن کروں گا کہ تُو کس قدر طول و عرض اور وزن والا ہے، تو اس بے وقوف ذرّے کو سوچنا چاہیے کہ جب اپنی ترازو ہی پھٹ جائے گی اس وقت نہ یہ ذرّہ باقی رہے گا نہ اس کی ترازو سلامت رہے گی… تو وزن کا خیال محض احمقانہ ہوگا۔

کر قیاس خود ترازو می تند
مردِ حق را در ترازو می کند

’’ایسے احمق‘‘ اپنے قیاس کے ترازو پر ناز کرتے ہیں، اور اللہ والوں کو اپنے احمقانہ خیالی ترازو میں تولنے کی کوشش کرتے ہیں۔

چوں نگنجد او بمیزان خرد
پس ترازوے خرو را بر درد

جب اللہ والوں کا بلند مقام ان بے وقوفوں کی ترازو میں نہیں سماتا تو خدا ان کی گستاخی کی تحوست اور شامت کے سبب ان کی ترازو ہی کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے، اور پھر یہ کم ظرف لوگ حماقت در حماقت میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مولانا نصیحت فرماتے ہیں کہ اگر اس قسم کے امتحان کا وسوسہ بھی آئے تو اس کو اپنی بدبختی اور ہلاکت کی علامت سمجھو اور پھر فوراً یہ تدبیر کرنی چاہیے

سجدہ گہ را تر کن از اشک رواں
کاے خدایا وار ہانم زیں گماں

فوراً سجدے میں گر جائو اور گریہ و زاری میں مشغول ہوکر خدا سے پناہ مانگو کہ اے رب غفور الرحیم مجھے ایسے فاسد گمان و خیال سے خلاصی، رہائی اور معافی عطا فرما۔
درسِ حیات: انسانی ذات محدود ہے اور خدا لامحدود۔ اگر محدود یعنی انسان لامحدود کا امتحان لینے کی کوشش کرے تو اسے حماقت اور بے وقوفی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
٭خدا کی کنہ و حقیقت انسانی عقل سے بہت بلند ہے، اتنی بلند کہ اسے بیان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔