تفہیمِ کراچی

۔1729ء اور 1783ء کے درمیان کراچی کے حکمراں بار بار بدلتے رہے۔ اس مقام کی جنگی اہمیت کے پیش نظر خان قلات اور سندھ کے حکمرانوں نے متعدد بار اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ آخرکار 1783ء میں اس پر ٹالپر میروں نے قبضہ کرلیا۔ ٹالپروں نے منوڑا میں جو اس بندرگاہ میں داخلے کا مقام تھا، ایک قلعہ تعمیر کیا اور اس پر توپیں چڑھائیں۔ اس طرح انہوں نے کراچی کو ناقابلِ تسخیر بنادیا۔ تقریباً اسی زمانے میں وسطی ایشیا میں روس کی سلطنت کی توسیع کی وجہ سے انگریزوں نے بھی کراچی میں دلچسپی لینی شروع کی۔ چنانچہ انہوں نے اٹھارہویں صدی کے آخر میں کراچی میں ایک کارخانہ قائم کیا، لیکن تجارتی محصولات پر سندھ کے میروں سے ان کے اختلافات کی وجہ سے یہ کارخانہ بہت جلد بند ہوگیا۔
عشرہ 1830ء کے اواخر میں انگریزوں کے ذہنوں پر بحیرۂ عرب تک زارِ روس کی توسیع پسندی کا خطرہ اتنا چھا گیا تھا کہ 1839ء میں انہوں نے کراچی پر قبضہ کرلیا تاکہ پہلی افغان جنگ میں ان کی فوجوں کے اُترنے کے لیے یہ ایک بندرگاہ کا کام دے سکے۔ 1843ء میں انہوں نے پورے سندھ پر قبضہ کرلیا اور اس کا دارالحکومت حیدرآباد سے کراچی منتقل کردیا۔ بعدازاں انگریزوں نے سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی کا ایک ضلع بنادیا اور کراچی کو اس ضلع کا صدر مقام۔ چوں کہ کراچی میں انگریزی فوجیں مقیم تھیں لہٰذا ان کی اشیائے ضرورت کی فراہمی کے لیے اس شہر میں ایک علاقہ اُبھر کر سامنے آیا جسے اب صدر اور کنٹونمنٹ یا چھائونی کا علاقہ کہتے ہیں۔ ایک ضلعی انتظامیہ بھی منظم کی گئی جس کے دفاتر سول لائنز کے علاقے میں قائم کیے گئے۔ اس طرح یہ شہر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک انگریزوں سے پہلے کا پرانا دیسی شہر اور اس کے مضافات، اور دوسرا جدید یورپی شہر جو کنٹونمنٹ، سول لائنز اور صدر بازار کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ کراچی کی بندرگاہ کو بھی ترقی دی گئی اور سندھ کی زرعی پیداوار کو انگلستان کی منڈی میں بھیجنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ اس مقصد سے دریائی نقل و حمل کے لیے انڈس اسٹیم فلوٹیلا اور اِن لینڈ اسٹیم نیوی گیشن نامی کمپنیاں قائم کی گئیں تاکہ وہ کپاس اور گندم دریائے سندھ کے راستے اور کراچی کی کھاڑی کے پار بندرگاہ تک پہنچا سکیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں متعدد برطانوی کمپنیوں نے کراچی میں اپنے دفاتر اور گودام قائم کرلیے اور اس شہر کی آبادی جو 1838ء میں 14 ہزار تھی، 1856ء میں بڑھ کر 57 ہزار ہوگئی۔ اس عرصے میں یہاں ہونے والی تجارت کی مالیت بھی ایک لاکھ بائیس ہزار ایک سو ساٹھ پونڈ سے بڑھ کر آٹھ لاکھ پچپن ہزار ایک سو تین پونڈ تک پہنچ گئی۔
اس عرصے میں کراچی کے لیے ایک میونسپل کمیٹی بھی قائم کی گئی جو برطانوی ہندوستان میں اپنی نوعیت کا پہلا بلدیاتی ادارہ تھا۔ علاوہ ازیں دو لائبریریاں… جنرل لائبریری اور نیٹو (دیسی) جنرل لائبریری… بھی قائم کی گئیں۔ جنرل لائبریری 1865ء میں فریئر ہال لائبریری کا ایک حصہ بن گئی اور نیٹو جنرل لائبریری 1906ء میں خالق دینا ہال لائبریری میں ضم ہوگئی۔ انگریزوں کی معاشرتی اور ثقافتی زندگی کے لیے ضروری عمارتیں بھی تعمیر کی گئیں۔ پہلا گرجا گھر 1843ء میں تعمیر ہوا جو اب بھی سینٹ جوزف کانونٹ اسکول کے اسمبلی ہال کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ اس دور میں تعمیر ہونے والے دوسرے اہم گرجا گھر ٹرینٹی چرچ اور لارنس روڈ پر واقع سی ایم ایس چرچ ہیں۔ اس دور سے تعلق رکھنے والی غیر فوجی عمارتوں میں، جو آج بھی باقی ہیں، کلکٹر کی کچہری اور کھارادر پولیس اسٹیشن شامل ہیں۔
اس زمانے میں کراچی میں ایک بہت اہم واقعہ پیش آیا۔ 1857ء میں یہاں کے دیسی فوجیوں نے اُس جنگِ آزادی کی حمایت میں جو پورے ہندوستان پر محیط تھی، انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی۔ اس بغاوت کو انگریزوں نے کچل دیا۔ اس میں حصہ لینے والے سپاہیوں میں سے سات کو آرٹلری میدان میں سرِعام پھانسی دی گئی اور دوسرے تین سپاہیوں کو توپ کے منہ پر باندھ کر اُڑا دیا گیا۔ اس واقعے کے ایک ہفتے کے بعد جنگِ آزادی کے چودہ دوسرے سپاہیوں کو اسی طرح پھانسی دی گئی ۔
۔1856ء سے 1872ء تک کراچی کی آبادی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا حالانکہ اس عرصے میں یہاں تجارت آٹھ لاکھ پچپن ہزار ایک سو تین پونڈ سے بڑھ کر پچاس لاکھ پونڈ سے بھی تجاوز کرگئی۔ تاہم تجارت میں اس اضافے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس دوران میں امریکہ میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی اور وہاں سے تجارتی سامان انگلستان آنا بند ہوگیا تھا۔ چنانچہ انگلستان کے کپڑے کے کارخانوں کے لیے خام مال کے طور پر امریکی کپاس کی جگہ سندھ کی کپاس نے لے لی جس کی وجہ سے سندھ میں کپاس کی تجارت میں اچانک تیزی آگئی۔ اسی تیزی کے زمانے میں کراچی چیمبر آف کامرس قائم کیا گیا جس نے شہر کی معاشی خوش حالی میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ لیکن امریکہ کی خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد کراچی کی تجارت کی مالیت 6 کروڑ 60 لاکھ روپے سے گر کر 3 کروڑ 80 لاکھ روپے تک آگئی اور چیمبر آف کامرس کے ارکان کی تعداد جو 1865ء میں پندرہ تھی، گھٹ کر 1872ء میں آٹھ رہ گئی۔
امریکی خانہ جنگی کے دوران میں کراچی کی تجارت میں جو وسعت آئی تھی اسے مستحکم کرنے میں سندھ ریلوے نے بڑی مدد دی جسے 1861ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس ریلوے نے کراچی کو سندھ کے کپاس اور گندم پیدا کرنے والے علاقوں سے جوڑ دیا۔ 1869ء میں اس ریلوے کو پنجاب تک توسیع دینے اور پھر اسے شمالی ہندوستان سے ملادینے کا فیصلہ کیا گیا۔اس فیصلے سے کراچی کے منسلکہ علاقے میں بڑا اضافہ ہوا۔اسی زمانے میں انگریزوں نے پنجاب اور سندھ میں سال بھر بہنے والی آبپاشی کی نہریں بنانے کے منصوبے پر کام شروع کردیا۔ ان منصوبوں سے بڑے بڑے ریگستانی علاقے زیر کاشت آگئے جنہوں نے کراچی کی بندرگاہ کی سرگرمیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ 1868ء تک کراچی پورے ہندوستان میں کپاس اور گندم کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن گیا۔ 1869ء میں نہر سویز کھلنے سے بھی کراچی کی قسمت جاگ گئی اور وہ انگلستان کے لیے ہندوستان کی سب سے قریبی بندرگاہ بن گیا۔
اس دوران میں کراچی میں متعدد غیر فوجی عمارتیں اور گرجا گھر تعمیر ہوئے۔ ان میں صدر میں سینٹ اینڈ ریوز چرچ، کراچی میں سینٹ پال چرچ اور منوڑا میں سینٹ پال ہی کا دوسرا چرچ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اسی عرصے میں سٹی کورٹ اور فریئر ہال اور متعدد مشنری اور انگریزی زبان کے اسکول تعمیر ہوئے جن میں کراچی گرامر اسکول، سینٹ جوزف اسکول اورسینٹ پیٹرک اسکول شامل تھے۔ پرانی برٹش فیکٹری والی جگہ پر کراچی کا چڑیا گھر تعمیر ہوا۔ ان کے علاوہ اس عہد کی بہت سی رہائشی عمارتیں بھی اب تک قائم ہیں۔
۔1872ء سے 1901ء تک کراچی کی آبادی دگنی سے بھی زیادہ ہوگئی۔ اس کا ایک بڑا سبب ریلوے کی تکمیل تھی جس نے کراچی کو پنجاب، شمالی ہندوستان اور سندھ سے جوڑ دیا تھا اور ان علاقوں کی گیہوں اور کپاس کی پیداوار کراچی کے ذریعے باہر جانے لگی تھی۔ کراچی سے ساڑھے چار سو کلو میٹر دور اور ریلوے لائن کے نزدیک سوئی کے مقام پر تیل نکالنے کا کام بھی شروع ہوا۔ یہ تیل بھی کراچی بندرگاہ کے ذریعے برآمد کیا جاتا تھا۔ اسی زمانے میں کراچی شہر کے لیے آب رسانی اور نکاس کے نظام کو بھی ترقی دی گئی۔ اس نظام میں چونکہ پرانے شہر کو شامل نہیں کیا گیا تھا لہٰذا اس علاقے کی آبادی گھٹتی چلی گئی۔ 1881ء میں کراچی کی آبادی 73 ہزار 56 افراد پر مشتمل تھی جس میں 68 ہزار3 سو 32 افراد پرانے شہر میں رہتے تھے، لیکن 1911ء تک پرانے شہر کی آبادی گھٹ کر 48 ہزار رہ گئی تھی۔ اسی عرصے میں کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) بھی قائم ہوا۔
۔1885ء میں کراچی میں ٹرام وے متعارف کرائی گئی۔ ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی اس کی مالک تھی۔ شروع میں یہ بھاپ سے چلتی تھی لیکن 1892ء میں اسے گھوڑے کھینچنے لگے کیونکہ کراچی کے باشندے بھاپ کے انجن سے اُٹھنے والے شور پر اعتراض کرتے تھے کہ اس سے ان کی گاڑیاں کھینچنے والے جانور بدک جاتے ہیں۔ 1889ء میں ایمپریس مارکیٹ، 1887ء میں ڈی جے سائنس کالج اور 1885ء میں سندھ مدرسہ قائم ہوا۔ گویا اس زمانے میں کراچی کو اپنی عظمت اور اعلیٰ تعلیم کے پہلے ادارے حاصل ہوئے۔
۔1901ء سے 1911ء کے درمیان کراچی کی آبادی میں 37 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پنجاب اور سندھ میں آبپاشی کے بہت سے منصوبے مکمل ہوچکے تھے جس کی وجہ سے قابلِ برآمد زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگیا تھا۔ صرف جنوبی سندھ میں جمڑائو کے نہری منصوبے سے قابلِ کاشت زمینوں میں دو لاکھ ساٹھ ہزار ایکڑ کا اضافہ ہوگیا تھا۔

بیادِ مجلس اقبال

سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے

اس شعر میں علامہ افراد کی طرح امتوں کو بھی اپنی خودی یعنی حقیقت پہچان کر آزادی و حریت کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غلامی میں ڈوبی قوم کا آزادی حاصل کرنے کا پہلا مرحلہ اپنے مقامِ بلند کو پہچان کر اس کے شایانِ شان طرزِعمل اپنانے سے وابستہ ہے۔ قرآن نے امت ِ مسلمہ کا مقام ’’بہترین امت‘‘ اور ’’انسانیت کے لیے رہنما امت‘‘ جیسے الفاظ میں بیان کیا ہے۔