فراست مودودیؒ

چودھری غلام جیلانی مرحوم،ادبی دنیا میں جیلانی بی اے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’ بہار کے پہلے پھول‘‘ شخصی خاکہ نگاری کی دنیا میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے ملک نصر اللہ خان عزیزؒ کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کی فراست کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:۔
۔’’مولانا مودودیؒ کے تفقہ، تدبر اور فراست کا میں اور بھی قائل ہوجاتا تھا، جب ملک صاحب جیسے تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص کی زبان سے ان کی تعریف سنتا، ملک صاحب مولانا کے بعض فیصلوں اور تحریروں پر اس طرح جھوم اٹھتے، جیسے وہ حسین اشعار ہوں۔ ایک دفعہ کہنے لگے میں ایک اعتراف تحریراً کرنا چاہتا ہوں۔
میں نے ہنس کر کہا ملک صاحب کیا یہ عہد شباب کا اعتراف ہے۔
ملک صاحب نے کہا: نہیں مولانا مودودیؒ کی فراست کا۔
۔1965ء کے آغاز کی بات ہے لاہور کے ایک رکن جماعت کا مولانا کے نام ایک لمبا چوڑا استعفیٰ آگیا۔ جس میں بڑے فلسفیانہ انداز میں جماعت کی خامیاں اور اپنی مایوسی بیان کی گئی تھی۔ آخر میں تان توڑی گئی تھی کہ جماعت میں اللہ ہی کے لیے آیا اور اب اللہ ہی کے لیے جارہا ہوں۔
ملک صاحب لاہور کے امیر تھے ملک صاحب کی رائے تھی کہ اس خط کا جواب نہ دیا جائے اگر دیا جائے تو انتہائی نرم الفاظ میں لیکن مولانا کافیصلہ تھاکہ جواب ضرور دیا جائے مولانا کا جواب انتہائی مختصر لیکن بڑا ہی جامع تھا اس میں ایک جملہ تھا کہ’’ چند دن بعد معلوم ہوجائے گا کہ آپ کا استعفیٰ للہ فی اللہ ہے یا اس کا کچھ اور مقصد ہے‘‘۔ ملک صاحب کی رائے تھی کہ اس جملے سے استعفیٰ دینے والے کی نیت پر شبہ کا اظہار ہو تا ہے۔ اس لیے اسے حذف کردینا چاہیے لیکن مولانا نے فرمایا: ملک صاحب ان کے استعفیٰ کا جواب تو اسی فقرے میں ہے، میں نے جو لکھا ہے، خوب سوچ سمجھ کر ٹھنڈے دل و دماغ سے لکھا ہے۔
ملک صاحب نے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا۔ میں نے پھر اصرار کیا کہ یہ جملہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور بہت سے دلائل بھی دیے۔ لیکن مولانا اپنے فیصلے پر جمے رہے۔ جب میں مولانا سے مل کر واپس آیا تو مجھے بار بار محسوس ہو رہا تھا کہ مولانا کا جواب قدرے سخت ہے۔
ملک صاحب یہ کہہ کر ذرا رکے، پھر کہنے لگے، جب کچھ مدت گذری اور اس شخص کی حقیقت کھلی تو مجھ پر مولانا کے جملے کا راز واضح ہوا، میں معترف ہوگیا کہ مولانا حق بجانب اور میںغلطی پر تھا۔ میں نے صاف محسوس کرلیا کہ مولانا کی بصیرت جوبات ایک نگاہ میں بھانپ لیتی ہے، وہ ہم برسوں میں بھی نہیں دیکھ پاتے‘‘۔ صفحہ نمبر290۔
اب استعفیٰ دینے والے صاحب کی حقیقت بھی سن لیں۔ حاجی حبیب الرحمن مرحوم سندھ کےI.G رہے ہیں اور انٹیلی جنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بھی۔ انھوں نے انٹرویو’’ کیا کیا نہ دیکھا‘‘۔ میں ان صاحب کا نام لے کر بتایا کہ یہ صاحب خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرتے اور باقاعدہ اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول کرتے تھے۔ ان صاحب کو دنیا’’ کوثر نیازی ’’ کے نام سے جانتی ہے۔

سید مودودی کی انکساری

جیلانی صاحب نے حکیم عبداللہ جہانیاں والےؒ کے حوالہ سے ایک واقعہ لکھا ہے،جماعت کے اجتماع اول کی بات ہے کہ ’’ جب پہلی نشست کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور کھانے کے لیے دستر خوان بچھ گیا تو انتظام طعام میں مولانا مودودیؒ خود پیش پیش تھے لیکن اس سے بڑھ کر جو بات میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ جب سب کھانا کھا کر رخصت ہوگئے تو مولانا مودودی ؒ دستر خوان سے اپنے ہاتھ سے ہڈیاں چن رہے تھے‘ حکیم صاحب یہ واقعہ سناکر رک گئے‘ پھر خود ہی بولے‘ مولانا کے دشمن نہ جانے مولانا کے بارے میں کیا تصورات اپنے ذہن میں پالتے رہتے ہیں ایسا متواضع شخص میں نے کم ہی دیکھا ہے‘‘۔صفحہ نمبر 231۔