لذت ِعشق گئی
بیاد سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
بزم سے یارِ طرح دار گیا اپنے قابو سے دلِ زار گیا
پیکرِ حسن ہوا وہ رخصت دوستو! حسن کا معیار گیا
ہوش آیا ہے جنوں کیشوں کو لذتِ عشق گئی، پیار گیا
عالمی برہمی بزم نہ پوچھو جو گیا، خوار گیا زار گیا
جو بھی گیا وہ تڑپتا آیا جو گیا، جان سے بے زار گیا
جانے کیوں روٹھ گیا ہے ساقی جو بھی میخوار گیا، خوار گیا
غمزدو! چیخو کہ غم خوار اٹھا تڑپو دل والو! کہ دلدار گیا
دل سے ٹکرانے لگی درد کی لہر ایک پل صبر بھی جی ہار گیا
کتنی آنکھوں میں اندھیرا چھایا جب سے وہ نور پُر انوار گیا
کیسی بے باک سی تھی اس کی ادا جب وہ منبر سے سوئے دار گیا
وہ کہ تلواروں کی دھاروں پہ چلا چلتے چلتے وہ افق پار گیا
اس کی میراث ہے افکارِ بلند چھوڑ کر دولتِ کردار گیا
کفر کی چالوں کا وہ رمز شناس دین کا واقفِ اسرار گیا
وہ شرافت کے شعاروں کا امین وہ مروت کا نگہ دار گیا
وہ جو تھا صبر کی اک ڈھال ، ہے گم وہ جو تھا صدق کی تلوار، گیا
کیا ہو خوابیدہ ضمیروں کو شعور صاحبِ دیدۂ بیدار گیا
زندہ تر مر کے ہوا آپ، مگر جو رہے زندہ انہیں مار گیا
غمِ انسان، غمِ ملت، غمِ ملک غم کے وہ چھوڑ کے انبار گیا
حرکت دے گیا تاریخ کو پھر چھیڑ کر عشق کی پیکار گیا
جس کی تکفیر سے تھی زہد کی شان پُر تقدیس وہ گنہگار گیا
آج کے عالمِ انسانی سے فنِ تخلیق کا شہکار گیا
لذت آگاہ سکوت پیہم نکتہ دان فنِ اظہار گیا
جانے والا تو چلا اے دلِ زار سب تڑپنا ترا بے کار گیا
ابوالاعلیٰ تیرا جانا یوں ہے ابر آیا تھا گہر بار گیا