مولانا مودودی کی رحلت کے بعد ان کے ایک رفیق کی تاثراتی تحریر
انجیل میں آتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو جب معلوم ہوا کہ دشمن ان کو گرفتار کرنے کے لیے ان کی تاک میں لگا ہوا ہے۔ تو آپؑ اپنے حواریوں سمیت یروشلم سے باہر گستنبی کے باغ میں تشریف لے گئے۔ رات کا وقت تھا۔ آپ کے حواریوں پر نیند کا غلبہ ہو رہا تھا ان کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ داعی حق کو ختم کرنے کے کیا منصوبے ہو رہے ہیں۔ حضرت مسیحؑ ان کو بار بار جگاتے اور فرماتے۔ ’’اٹھو وقتِ دعا ہے‘‘۔ لیکن حواری آنکھیں کھول کر پھر سو جاتے۔ پھر آپ نے خدا کے روبرو ہاتھ پھیلا کر دعا کی ’’خداوند! اگر ہو سکے تو یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے۔ اس پیالے کو مجھ سے ہٹا لے۔ پھر بھی جو میں نہیں ’’جو تو چاہتا ہے، وہی ہو‘‘۔
یہ دعا صحیح معنوں میں انسانی درخواست تھی۔ کوئی انسان نہیں جو مشکل گھڑی کی تمنا کرتا یا تلخ جرعے کو پسند کرتا ہو۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ لیکن اہل تسلیم و رضا کا مسلک یہ ہے کہ وہ ابتلا سے بچنے کی ہر کوشش کے بعد جب تقدیر مبرم سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ مشیت ایزدی کے سامنے اپنا سر جھکا لیتے ہیں؎۔
میل، سوئے وصال و میل او سوئے فراق
ترک کار خود گر فتم تا برآید کار دوست
خود سپردگی کی انتہا یہ ہے کہ آدمی اپنی مرضی اپنے محبوب کی مرضی کے تابع کر دے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی دعا میں انسانی فطرت کی صحیح نمائندگی فرمائی۔ آپ نے زندگی کے تلخ و ناخوشگوار جرعے سے بچنے کی تمنا کی لیکن اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ اے خدا! اگر تو یہی چاہتا ہے تو میری مرضی کے باوجود جو تو چاہتا ہے وہی ہو۔
۔22 ستمبر کی رات کو جو خبر سنی گئی، تحریک اسلامی سے تعلق محبت رکھنے والا کوئی دل اس کا تصور کرنا پسند نہ کر سکتا تھا۔ زندگی اٹل ہے موت بھی اٹل ہے۔ پھر بھی کون ہے جو خوشدلی سے فراق چاہتا ہو۔ نہاں خانہ دل میں خدشات محسوس ہوتے تھے لیکن شعور ان کی طرف توجہ کرنا گوارا نہیں کرتا تھا۔ مولانا کی صحت ایک مدت سے گر رہی تھی اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ دین کے لیے گھلنے والی شمع آخر کب تک جل سکے گی۔ فخر خلق (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ رہے تو اور کون باقی رہ سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی دل و دماغ اس حقیقت کے خیال سے کانپ جاتے تھے۔
سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخر علالت کے زمانے میں ایک روز نماز کے بعد ارشاد فرمایا کہ:۔
۔’’اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو دنیا کی نعمتیں قبول کرے۔ چاہے اللہ کے ہاں جو کچھ ہے وہ قبول کرے۔ لیکن اس نے اللہ ہی کے ہاں کی چیزیں قبول کیں‘‘۔
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ رو پڑے۔ لوگوں نے ان کی طرف تعجب سے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی شخص کا واقعہ بیان فرما رہے ہیں۔ لیکن رمز شناس نبوت سمجھ چکا تھا کہ اس تمثیل میں بندے سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حیات دنیا اور حیات اخروی کے درمیان جو انتخاب امام اہل تسلیم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کی پیروی کی آرزو رکھنے والوں کے لیے یہی قابل اتباع اسوہ ہے۔ حیات دنیا لاکھ برس کی بھی ہو۔ وہ ختم ہونے والی ہے۔ اللہ بس باقی ہوس۔
حدیث میں ایک بڑا ہی پردرد منظر آتا ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں:۔
ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابو یوسف لوہار کے گھر گئے جو حضرت ابراہیم (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند) کی دودھ پلائی کے شوہر تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم کو گود میں لیا اور خوب پیار کیا۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر دوسری مرتبہ ان کے گھر گئے تو دیکھا کہ حضرت ابراہیم دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس پر حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ تعجب سے بولے یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم: آپ بھی روتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن عوف! یہ رونا اللہ کی رحمت ہے۔
یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو پھر نکل آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آنکھیں روتی ہیں، دل بھی غمگین ہے لیکن زبان سے وہی کچھ نکلے گا جو رب کو راضی کرنے والا ہو گا۔
اہل تسلیم و رضا کا یہی مسلک ہے۔ ہمارا دل اس صدمے سے زخمی ہے لیکن ہم اللہ کی رضا کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ ہم کو بھی اسی راہ سے گزرنا ہے۔ اصل معاملہ طولانی حیات نہیں نوع حیات ہے۔ کسی نے کیسی زندگی بسر کی ہے؟ یہ زندگی رب کی منشاء کے مطابق بسر ہوئی یا اس کے خلاف، اگر اس پہلو سے مولانا کی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ سراسر ظفر مندی اور فوزوفلاح ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص کے اسلام کا کمال یہ ہے کہ اس کی زندگی ہر بے معنی اور خلاف مقصد بات سے پاک ہو جائے وہ تاج محل کی طرح اپنے مقصد کےساتھ ایسی ہم آہنگ اور متناسب ہو کہ اس میں کوئی حرکت و سکون بھی زائد و غیر متعلق نہ ہو۔ اس کی زندگی ایک خوبصورت غزل ہو جس میں ایک حرف بھی زائد نہیں ہے۔ مولانا نے ایسی ہی خوبصورت اور حنیف زندگی کا نقشہ پیش کیا تھا۔ آپ کی پوری زندگی اپنے مقصد کے حسین سانچے میں ڈھلی دکھائی دیتی ہے اور کوئی ایسا مقام بھی نہیں ملتا جہاں آپ نے اپنے مقصد کے خلاف قدم اٹھایا ہو۔ جو لوگ مولانا کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی تقسیم ہند کے بعد اپنے جادہ اصلی سے ہٹ گئی تھی تو وہ اس حقیقت سے شناسا نہیں ہیں کہ زندگی کی نشوونما ریاضی کے خط کی طرح نہیں بلکہ ایک درخت کی طرح ہوتی ہے۔ جس کی شاخیں کونپلیں اپنی جڑ سے وابستہ رہتے ہوئے ادھر ادھر پھیل جاتی ہیں۔ زندگی مکہ کے سادہ دعوتی حالات سے ابھرتی ہے اور مدنی زندگی کی معاشرتی پیچیدگیوں میں پھیل جاتی ہے، وہ اپنے اصل سے منحرف نہیں ہوتی یہ اس کا پھیلائو ہے جو انحراف کا تاثر دیتا ہے۔
مولانا علم و عرفان کے کوہ ہمالیہ تھے، ایک چیونٹی پہاڑ کا جائزہ کیونکر پیش کر سکتی ہے۔ پھر بھی تمثیلاً کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح نیوٹن نے کشش ثقل زمین کا اصول دریافت کر کے انسانی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا، اسی طرح مولانا نے بھی عصر حاضر میں اسلام کے جامع نظام کی قابل فہم تشریح پیش کر کے اسلامی دنیا میں ذہنی انقلاب بپا کر دیا ہے مولانا نے نہ صرف اہل مدرسہ کے محدود تصور دین کو وسعت آشنا کیا بلکہ مسجد سے باہر دین سے غافل دنیاکو بھی فہم دین کی روشنی دکھائی ان کے اندر مسلمان ہونے کا فخریہ احساس پیدا کیا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر مولانا مودودیؒ کا یہ تاریخی اور انقلابی کارنامہ ہے کہ انہوں نے قرآن کے مقصد کو انقلابی تحریک بنا دیا۔ آج کا مسلمان مغرب کی لادینی اصطلاحوں مثلاً جمہوریت، سوشلزم، استحصال، سرمایہ داری وغیرہ سے بخوبی واقف ہے لیکن اپنے ذمہ اقامت دین کی اصطلاح سے واقف نہیں ہے۔ مولانا نے دین سے دور مسلمان معاشرے کے اندر قرآنی مقصد کو زندگی کا تجربہ بنا دیا اور یہی وہ انقلابی کارنامہ ہے جس نے جدید دور میں دین اور دنیا کی گروہ بندی Polarization کو اسی طرح تیز تر کر دیا جس طرح سنت ابراہیمیؑ کے داعی اول نے اپنے اعلان سے کیا تھا۔ ’’ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک اللہ واحد پر ایمان نہ لائو‘‘۔ (سورہ ممتحنہ)۔
یہی وہ مسلک ہے جس سے ملت ابراہیمی ممتاز ہے اور اسی طرزعمل کی اتباع کی قرآن تلقین کرتا ہے۔
’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا۔ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں‘‘۔ (ممتحنہ)۔
کافرانہ طرز زندگی سے یہی اعلان برات ہے جس نے اس وقت بھی کفر و اسلام کی جنگ چھیڑ دی تھی اور آج بھی چھیڑ دی ہے۔ مولانا مودودیؒ، اقبالؒ کے اس تصور کا زندہ نمونہ تھے کہ حیات اندر ستیزاست، مولانا نے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر بتایا کہ تمہارا دین تمہارے لیے ایک بالکل مختلف زندگی کا تصور رکھتا ہے اور اگر تمہیں اپنی حیات ملی مطلوب ہے تو اپنی زندگی کو ان یلغاروں سے بچائو جو تمہاری اسلامی زندگی کی سرحدوں کو توڑنے کے لیے مسلسل جاری ہیں۔ مولانا نے نئی نسل کو شعور دیا کہ اسلام اور کفر کے درمیان ایسی کوئی ہم آہنگی نہیں ہو سکتی جیسی کہ اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان ہے۔ مسلم ملت صرف اس صورت میں اپنا تشخص قائم رکھ سکتی ہے جب اسے اسلامی زندگی اور غیر اسلامی زندگی کے درمیان ثقافتی کشمکش کا شعور ہو جائے۔ جس شہری کو یہ بھی خبر نہ ہو کہ اس کے وطن کے سرحدیں کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی ہیں اس کے اندر ان کے دفاع کا جذبہ کیسے پیدا ہو گا مولانا نے اسلامی زندگی کی سرحدوں کی نشاندہی کر کے بتا دیا ہے کہ یہ وہ لکیر ہے جو ملت مسلمہ کو دوسری ملت سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ قائم نہ رہی تو ملت بھی باقی نہ رہے گی۔
مولانا مودودیؒ کی اس دعوت نے برصغیر ہی میں نہیں پورے عالم اسلام میں بیداری کی ایک لہر دوڑا دی ہے دنیا کے ہر گوشے کے مسلمانوں نے مولانا کی عظیم تحریک و تحریر کا ارتعاش محسوس کیا اور پاکستان میں آج جواسلامی شعور قومی نشان بن گیا ہے وہ مولانا مودودیؒ ہی کی انتھک مساعی کا ثمرہ ہے۔ مولانا مودودیؒ نے پاکستان کو جو کچھ بنایا ہے اس کا اندازہ اس تصور سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر مولانا مودودیؒ اور ان کی بنا کردہ جماعت پاکستان میں نہ ہوتے تو پاکستان کیا ہوتا؟
جس طرح ہر خاندان کے لیے اس کے سربراہ کے رخصت ہو جانے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ اس ضخیم خلا کو پر کرنے کا ہوتا ہے اسی طرح جماعت اسلامی کے لیے بھی اس کے بانی کے چلے جانے کے بعد ایک ہولناک خلا کو پر کرنے کا مسئلہ ہے مولانا مودودیؒ کوئی عام فطین آدمی نہ تھے کہ جن کا خلا کوئی دوچار ذہین آدمیوں سے پر کیا جا سکتا ہو۔ وہ نابغہ روزگار اور ایک ایسے عبقری تھے جس کی مثال آسانی سے میسر نہیں آسکتی ہے۔ اگر غالب اور اقبال کی جگہ چند شاعر مل کر پر کر سکتے تو مولانا مودودیؒ کا چھوڑا ہوا خلا بھی پر ہو سکتا ہے۔ وہ نہ صرف صاحب قلم تھے بلکہ صاحب سیف بھی تھے، صرف مفکر نہ تھے مجاہد بھی تھے، صرف اصولوں کی نشاندہی کرنے والے نہ تھے بلکہ ان کو عمل کے سانچے میں ڈھال کر دکھانے والے بھی تھے۔ کارل مارکس ایک مفکر تھا اس کو تمنا رہی کہ وہ فلسفی کے ساتھ عملی رہنما بھی تسلیم کیا جائے۔ لیکن اس کی یہ خواہش کبھی بھی پوری نہ ہو سکی اور اس کے سوانح نگار بتاتے ہیں کہ اس وجہ سے اس پر آخری عمر میں بڑی ہی مایوسی طاری رہتی تھی۔ لیکن مولانا مودودیؒ تاریخ کی ان چند عظیم ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے فکر کے ساتھ عمل کی تحریک بھی کی۔
(انتخاب: حافظ غلام سرور)