عالم باعمل، محقق، مورخ اور سیرت نگار پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی نے بھی مختصر علالت کے بعد 15ستمبر2020ء کو داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اس جہانِ آب وگِل کو الوداع کہہ کر اپنے ”رفیق ِ اعلیٰ“ سے جاملے۔
عصرِ حاضر میں سیرت نگاری کے میدان میں کیفیت اور کمیت ہر دو لحاظ سے آپ نے اتنا وقیع اور شان دار کام کیا ہے،جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ قرآنیات، تاریخِ اسلام، سیرت النبیﷺ،اسلامی تہذیب و تمدن اور شاہ ولی اللہ اور ان کے افکار آپ کے خاص موضوعاتِ تحقیق تھے۔ لیکن ان سب میں سیرت نگاری کو تمام موضوعات پر فوقیت حاصل تھی۔ اردو سیرت نگاری میں علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، قاضی سلیمان منصور پوری جیسے عظیم سیرت نگاروں کے ساتھ آپ کوشمار کیا جاتا ہے۔ آپ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ نے سیرت النبی ﷺ کے بہت سے ایسے گوشوں پر لکھا جن پر اس سے پہلے نہیں لکھا گیا تھا یا بہت کم توجہ دی گئی تھی۔
پروفیسر ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری کے ایک قصبے ”گولا“ میں 26 دسمبر 1944ء کو پیدا ہوئے۔ ہجری تقویم کے حساب سے تاریخ ولادت 1363ھ بنتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ نام ان کے والد مولوی انعام علی نے تاریخی مناسبت سے رکھا تھا، اور یہ نذر مانی تھی کہ اگر میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اسے عالم دین بناؤں گا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے میں حاصل کی، جس کے بعد آپ 1953ء میں لکھنؤ چلے گئے۔ وہاں ندوۃ العلماء سے 1959ء میں ”عالم“ اور 1960ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ”فاضل ادب“ کیا۔ 1960ءسے 1962ء تک جامعہ ملیہ میں ہائیر سیکنڈری کیا، پھر بی۔ اے۔ اور بی۔ایڈ۔ کیا۔ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے 1968ء میں ایم۔اے۔ تاریخ، 1969ء میں ایم-فل۔ اور 1975ء میں تاریخ ہی کے مضمون میں پی ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی۔ ان تینوں اداروں کی نسبت سے آپ ندوی، جامعی اور علیگ بھی تھے۔
جن اساتذہ کرام سے آپ نے فیض پایا ان میں ابوالحسن علی ندوی، خلیق احمد نظامی، اسحاق سندیلوی، عبدالحفیظ بلیاوی، سعید احمد خیرآبادی، عبدالوحید قریشی، غلام محمد قاسمی، مولانا داؤد غزنوی، مجاہد حسین زیدی اور مولانا محمد رابع حسنی ندوی جیسی نامور علمی شخصیات شامل ہیں۔
آپ کے تدریسی سفر کا آغاز 1970ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے ہوا۔ 1983ء میں آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے”ادارۂ علوم اسلامیہ“ سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں 1997ء سے 2000ء تک بطور ڈائریکٹر ادارہ علوم اسلامیہ فرائض سرانجام دیے۔ 2001ء میں علوم اسلامیہ کے ذیلی ادارے”شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل“ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔آپ 31 دسمبر 2006ء کو ادارہ علوم اسلامیہ سے سبکدوش ہوگئے، تاہم شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل کے ڈائریکٹر کے طور پر تقریباً دس سال کام کیا۔ اس دوران میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مختلف پہلوؤں پر 2000ء سے 2010ء تک قومی و بین الاقوامی سیمینار منعقد کروائے۔آپ کی اس عرصے میں ڈیڑھ درجن کے قریب چھوٹی بڑی کتب منصۂ شہود پر آئیں۔
ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی عربی، اردو اور انگریزی تینوں زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ مختلف موضوعات پر آپ کے 500 سے زائد مقالات اور متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ آپ کی چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں: عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، خلافتِ اموی خلافت ِراشدہ کے پس منظر میں، بنو ہاشم اور بنو امیہ کے معاشرتی تعلقات، مصادر سیرتِ نبوی، رسول اکرمﷺ کی رضاعی مائیں، سیرتِ نبوی کا عہد ِمکی، عہد ِنبوی کا تمدن، نبی اکرمﷺ اور خواتین… ایک سماجی مطالعہ، شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی، شاہ ولی اللہ دہلوی کی قرآنی خدمات، شاہ ولی اللہ کا رسالہ ٔسیرت، سر سید اور علو م اسلامیہ وغیرہ۔گویا
تلک الآثارنا تدل علینا
فانظروا بعدنا الی الآثار
ڈاکٹر صاحب سے میرا پہلا تعارف 2009ء میں ہوا۔ آپ کا تقرر میرے پی ایچ۔ڈی کے مقالے کے بیرونی ممتحن کے طور پر کیا گیاتھا۔ میرے سپروائزر ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج صاحب نے فون پر ڈاکٹر صاحب سے مقالہ ارسال کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے بلا کسی تکلف، بخوشی اجازت دے دی اور جلد ہی بغیر کسی یاددہانی کے، مقالے کی ایک شانداراور وقیع رپورٹ بھی بھجوادی۔بعد ازاں جب مقالے کی کتابی شکل میں اشاعت کا موقع آیا تو آپ نے میری درخواست پر اس پر پیش لفظ بھی تحریر فرمایا جس نے مقالے کی علمی حیثیت کو اعتبار بخشا۔
ڈاکٹر صاحب سے باقاعدہ ملاقات مارچ 2011 ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کے زیر اہتمام ایک انٹرنیشنل سیرت کانفرنس بعنوان’’دورِ جدید میں سیرت نگاری کے رجحانات ‘‘ میں ہوئی۔ اس کانفرنس میں انڈیا سےڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ڈاکٹر ظفر اصلاحی، ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی اور دیگر اہم علمی شخصیات بھی تشریف لائی ہوئی تھیں جن سے متعارف ہونے کا موقع ملا۔
جب کہ آخری ملاقات اسی سال 13مارچ 2020ء کو دارالعلم والتحقیق کے زیر اہتمام زوّار حسین شاہ یادگاری خطبے کے موقعے پر ہوئی۔ میں برادرم ڈاکٹر داؤد عثمانی کے ہمراہ وہاں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب حافظ عارف گھانچی صاحب کے ہمراہ نماز مغرب کی ادائی اور اس کے بعد خطبہ دینے کے لیے تشریف لارہے تھے۔ عارف گھانچی صاحب نے کہا: ڈاکٹر صاحب آپ کو بہت یاد کررہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا تو آپ نے گلے لگالیا اور فرمانے لگے کہ بھئی آپ تو مصر کی سیاحت میں مصروف تھے۔ میں نے عرض کی: مصر کی سیاحت تو ہوگئی۔ آپ کی زیارت بھی ضروری تھی۔ آپ نے نماز مغرب کے بعد تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ ”شاہ ولی اللہ اور علم سیرت و تاریخ“ کے موضوع پر حسب معمول شاندار علمی گفتگو کی اور حاضرین کے سوالات کے جواب دیے۔ بعدازاں آپ کے ساتھ ماحضر میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس موقعے پر چند ہی افراد موجود تھے۔ لہٰذا بہت اطمینان کے ساتھ مزید دو گھنٹے آپ کی صحبت میں رہنے اور استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ان کی خدمت میں اپنی کتاب ”جامعہ نظامیہ بغداد کا علمی و فکری کردار“ پیش کی تو آپ نے بڑی مسرت کا اظہارفرمایا۔
پاکستان میں ہونے والی بین الاقوامی سیرت کانفرنسوں کا آپ ایک لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ آپ ان کانفرنسوں کی رونق ِ محفل ہوتے تھے اور آپ ہی کی گفتگو حاصلِ کلام ہوا کرتی تھی۔ آپ جب پاکستان تشریف لاتے تو آپ کا اسلام آباد، لاہور، ملتان، فیصل آباد، بہاولپور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور کراچی کا ایک طویل دورہ ہوتا۔ مختلف جامعات نہ صرف یہ کہ آپ کی آمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیرت کانفرنسوں کا انعقاد کرتیں، بلکہ اس دوران میں ایم۔اے، ایم۔ فل اور پی ایچ۔ ڈی کے طلبہ کے لیے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ خصوصی علمی نشستوں کا اہتمام بھی کیا جاتا کہ سیرت پر کام کرنے والے طلبہ آپ سے رہنمائی حاصل کریں اور سیرت پر کام کرنے کے لیے نئے نئے موضوعات حاصل کرسکیں۔
اہلِ پاکستان سے آپ کی محبت اور عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بقول برادرم حافظ عارف گھانچی، آپ کم و بیش بائیس مرتبہ پاکستان تشریف لائے اور آپ نے ان اسفار کو قلم بند بھی کیا ہے، جس کی اشاعت جلد عمل میں آئے گی۔
2011ء سے 2020ء کے دوران میں جب جب آپ پاکستان تشریف لائے اور دیگر شہروں کے علاوہ کراچی کو بھی آپ نے اپنی میزبانی کا شرف بخشا، تو راقم کو بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور استفادہ کرنے کا موقع ملتا رہا۔ آپ ہماری درخواست پر ایک دن شعبہ ٔاسلامی تاریخ، جامعہ کراچی ضرور تشریف لاتے اور ہمیں بھی سیرت کے کسی موضوع پر ایک روزہ سیمینار یا توسیعی خطبے کے انعقاد کا موقع ملتا، جس میں نہ صرف شعبۂ اسلامی تاریخ بلکہ شعبہ ٔعلوم اسلامیہ اور دیگر شعبوں کے طلبہ اور اساتذہ بھی شریک ہوتے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ کو بے پناہ علم سے نوازا تھا وہاں آپ کو اخلاقِ عالیہ سے بھی متصف فرمایا تھا۔ خوش اخلاقی، چھوٹوں پر شفقت، عاجزی و انکسار اور بے جا تکلفات سے اجتناب آپ کی شخصیت کا خاصہ تھے۔ گفتگو فرماتے تو یوں محسوس ہوتا کہ علم کا ایک دریا موجزن ہے۔ تحریر بھی ایسی عمدہ، جامع اور مدلل کہ غور و فکر کے نئے دَر وا ہوجاتے۔
ڈاکٹر صاحب جتنے بڑے عالم تھے اتنے ہی زیادہ منکسر المزاج بھی تھے۔ ایک سیمینار کے موقعے پر راقم کو ڈاکٹر صاحب کا تعارف کرانے کی سعادت حاصل ہوئی، تو کوشش کی کہ تعارف ڈاکٹر صاحب کے شایانِ شان ہو۔ لہٰذا عربی کا ایک شعر آپ کے لیے پڑھا، شاید فارسی کی کوئی ترکیب بھی استعمال کی تھی۔ تعارف کے بعد جب آپ گفتگو کے لیے ڈائس پر تشریف لائے تو فرمانے لگے: ”حضرات! ابھی جو آپ اردو، عربی اور فارسی میں اس ناچیز کا تعارف سماعت فرما رہے تھے، اسے مبالغہ آرائی کہتے ہیں۔ اس طالبِ علم کا تعارف بس یہی ہے کہ یہ یکے از خادمانِ سیرت ہے۔“
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اُنھیں صدیقین و صلحاء کا مقامِ جلیل عطا ہو اورحق تعالیٰ اُن کو اپنے جوارِ رحمت میں بیش ازبیش انعام واکرام سے سرفراز فرمائے۔ آمین ثم آمین۔