خطاباتِ سید مودودی

الحمدللہ خطاباتِ سید مودودی کی جلد چہارم شائع ہوگئی ہے جس میں 1962ء۔ 1969ء تک کے خطابات جمع کردیئے گئے ہیں۔ اس جلد کا انتساب خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ و رضی اللہ عنہ کے نام نامی اسمِ گرامی کیا گیا ہے۔

کسے را میسر نہ شد ایں سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

(اقبال)

(کسی کو (سوائے علیؓ کے) یہ سعادت نہ ملی کہ ولادت تو کعبے میں ہوئی اور شہادت مسجد میں)
حافظ محمد ادریس صاحب مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں صفات سے نوازا تھا۔ وہ اردو کے بہترین انشا پرداز تھے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ان کی طویل، حوصلہ آزما اور پُرمشقت جدوجہد، انہیں قائدینِ عظیم کی صف میں ممتاز مقام دلاتی ہے۔ ان کی مدبرانہ سیاست انہیں پاکستان میں اسلامی ریاست کے قافلۂ اوّل کے عظیم رہنمائوں کی صف میںکھڑا کرتی ہے۔ علمائے دین میں انہیں عصرِ حاضر کے مفسرِ قرآن کے طور پر امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ایک ایسی دینی سیاسی جماعت کے بانی ہیں جو نظم و اتحاد کے لحاظ سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند محکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دینی خدمات کو عالم گیر پذیرائی کی نعمت عطا کی۔ ان کی تقاریر آج بھی عوام و خواص کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔
زیر نظر کتاب سید مودودی کی ان تقاریر کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مارچ 1962ء تا دسمبر 1964ء کے درمیانی عرصے میں کی ہیں۔ ان تقاریر میں قارئین پڑھیں گے کہ کس طرح سید مودودیؒ حکمرانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ یہ ملک گراں قدر قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔ انسانی تاریخ کی بہت بڑی ہجرت کے نتیجے میں لاکھوں مردوں، عورتوں نے ایک خطے سے دوسرے خطے تک کا سفر کیا۔ یہ نہایت تکلیف دہ سفر اس امید پر کیا گیا کہ یہاں نئی مملکت میں شریعتِ اسلامی نافذ ہوگی اور اللہ اور رسولؐ کے حکم کے مطابق اسلامی ریاست قائم کی جائے گی۔ قیام پاکستان سے پہلے بانیانِ پاکستان کی تقریریں محفوظ ہیں، انہوں نے اسلامی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا تھا۔ کتنے ہی مسلمان ایفائے عہد کے انتظار میں راہ ملکِ بقا ہوئے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سید مودودیؒ ان تقریروں میں عوام کو اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے بیدار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انتخابات کے معاملات اور تفصیلات کے ایک ایک جزو پر ان کی نظر تھی۔ عوام کو ان منفی ہتھکنڈوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں جو آج کی جمہوری سیاست میں رائج ہیں۔ سید کی یہ تقریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے حکمرانوں پر اسلامی قانون کے نفاذ کے سلسلے میں اتمام حجت کردی۔
یہ تقاریر متفرق رسالوں، اخباروں اور رپورٹوں میں محفوظ تھیں۔ پروفیسر نورور جان نے بڑی محنت سے انہیں تلاش و جستجو کے بعد مدون کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش اس لحاظ سے بھی لائقِ تعریف ہے کہ یہ تقاریر ہماری ملّی تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ اب پہلی مرتبہ یہ تقاریر پروفیسر نورورجان کی ہمت اور محنت سے ادارۂ معارف اسلامی کی طرف سے کتابی صورت میں منصہ شہود پر آرہی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد تحریر فرماتے ہیں:۔
’’تحریکِ اسلامی کے ساٹھ ستّر سال پرانے رسائل تک رسائی حاصل کرنا انتہائی مشکل کام تھا، لیکن رضائے الٰہی کا حصول جب سامنے ہو اور کام عشق اور لگن سے کیا جائے تو کوئی کام ناممکن نہیں رہتا۔
پروفیسر نورورجان نے اس نیک مقصد کے لیے عمرِ عزیز وقف کر رکھی ہے۔ ان کے قلم نے مولانا معین الدین خٹکؒ، ملک غلام علیؒ، نعیم صدیقیؒ کی سوانح مرتب کرڈالیں، اصولِ فقہ ترتیب دیئے، ’’سید مودودی سرحد میں‘‘ میں سید کے بارہ اسفار سامنے آئے۔
اب انہوں نے سید مودودیؒ کی تقاریر، مکتوبات ِسید مودودی، سید کے 14 بین الاقوامی اسفار، سید شعرا کی نظر میں، سید کے بیانات اور پریس کانفرنسیں، اپیلیں اور ٹیلی گرامز اور انٹرویوز کو الگ الگ مکمل حوالہ جات کے ساتھ مرتب کردیا ہے۔ یقیناً پروفیسر صاحب کا یہ علمی و دعوتی کام سخت محنت و تحقیق اور استقامت کا طالب تھا، لیکن اس کام کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سرانجام دے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے پرانے لوازمے کی فراہمی اور اسے ترتیب دینا مشکل کام تھا، دراصل یہ اداروں کا کام تھا‘‘۔
پروفیسر ظفر حجازی لکھتے ہیں:۔
’’سید مودودیؒکا اسلوبِ خطابت دیگر مقررین سے مختلف تھا۔ مولانا عقل کو اپیل کرنے والی بات کرتے۔ مجمعے کو خوش و خروش سے بھر دینا بھی حالات کے مطابق ایک ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ اسلوبِ بیان ہمیشہ کارگر نہیں ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوبِ کلام جامع، مختصر، پُرمغز، بامعنی اور مؤثر ہوتا تھا۔ اس میں معقولیت ہی معقولیت ہوتی تھی، عقل میں آنے والی باتیں ہی سامعین کے لیے راہِ عمل کشادہ کرتی ہیں۔
سید مودودیؒ کا تقریر کا انداز سب خطیبوں سے جدا تھا، مولانا کوئی لچھے دار تقریر نہ کرتے، تقریر کے موضوع سے متعلق نکات ذہن نشین کرتے اور سامعین کو اپنے مؤقف کا قائل کرتے تھے۔ ان کے خیالات واضح تھے، ذہن واضح تھا اور تقریر بھی واضح ہوتی تھی۔ ازدل خیزد بردل ریزد کے مصداق ان کی تقریر مؤثر ہوتی تھی۔ باتیں سیدھی دل میں اتر جاتی تھیں۔ بعد میں متعدد خطیبوں نے مولانا کا اسلوبِ تقریر اختیار کرلیا۔

اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری

سید مودودیؒ کی تقریریں، تحریریں، انٹرویوز اور پریس کانفرنسیں، تحریک آزادی اور پاکستان کی تاریخ کا گراں مایہ سرمایہ ہیں۔ ان تقاریر میں قاری محسوس کرتا ہے کہ مولانا حکمرانوں کو اسلامی قانون کے نفاذ کی تلقین کررہے ہیں اور انہیں یاد دلا رہے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نفاذ کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
تقاریر کے موضوعات میں تنوع موجود ہے، تاہم کہیں کہیں اگر تکرار محسوس ہو تو یہ ایک فطری امر ہے۔ سید مودودیؒ کی تقاریر کی خصوصیات میں نمایاں خصوصیت ان کی زبان و بیان کی سلاست ہے۔ دلی کی ٹکسالی زبان، وہی روزمرہ، وہی محاورہ اور وہی روانی، مربوط، بامعنی اور پُرمغز جملے سامعین کو اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔ ہر شخص گوش برآواز، پورا انہماک کہ کوئی لفظ سننے سے رہ نہ جائے۔ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان، سہلِ ممتنع کی خصوصیات کی حامل نثر، اردو انشا پردازی کے شائقین کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مولانا کی تحریر و تقریر حشو و زوائد سے پاک ہے۔ اس میں غیر متعلق تفصیلات نہیں ہیں۔ ایک اور خوبی یہ ہے کہ مولانا عربی، فارسی کے مشکل الفاظ و تراکیب اپنی تحریر اور تقریر میں 1932ء سے 1940ء کے دورانیے کے سوا استعمال نہیں کرتے۔ قیامِ جماعت اسلامی کے بعد تو خاص طور پر سلیس، عام فہم اور سادہ تقریریں پیش کی گئیں۔ ایک بڑی خوبی مولانا کا زورِ استدلال ہے۔ اپنی بات کو مدلل طریقے سے پیش کرنا اور مثالوں سے اس کی وضاحت کرنا، مولانا کے اسلوبِ تحریر و تقریر کا نمایاں وصف ہے۔ مولانا گھنٹوں تقریر کرتے تھے، تقریر میں ایک خاص ترتیب و تنظیم موجود ہوتی تھی۔ سامعین کہیں ناہمواری محسوس نہیں کرتے۔ ان کا ذہن فکر و نظر کے لحاظ سے بہت واضح تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر و تقریر میں کوئی ابہام نہیں۔ کہیں لفظی و معنوی تعقید محسوس نہیں ہوتی۔ ہر بات صاف، ہر نکتہ واضح اور تقریر کا ہر پہلو نکھرا ہوا ملتا ہے۔ سید مودودیؒ داعیِ اسلام کی حیثیت سے جہاں مسلمانوں کو اسلام کی حقیقت سے روشناس کراتے ہیں وہاں وہ مسلمانوں کو امید افزا پیغام بھی دیتے ہیں کہ حالات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں ہمیں اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
پروفیسر نورورجان (مرتب) نے یہ تقاریر بڑی محنت سے مختلف رسالوں اور اخباروں سے جمع کی ہیں۔ ان کی محنت قابلِ تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ مولانا مودودیؒ کی تمام غیر مدون نگارشات کی جمع و ترتیب کا کام پایہ تکمیل کو پہنچائیں‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر مجلّد شائع کی گئی ہے، امید ہے کہ باقی جلدیں جلد سے جلد شائع ہوجائیں گی۔

مطالعاتِ تاریخی

زیر نظر کتاب کا سلسلہِ مطبوعات میں نمبر 160 ہے۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر باکمال متحرک خاتون ہیں جو ہمہ وقت علمی و تحقیقی کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ کورونا وائرس کے شر میں سے انہوں نے ’’مطالعاتِ تاریخی‘‘ کا خیر برآمد کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:
’’تاریخ کا علم، اقوام کے لیے بمنزلہ قومی حافظے کے ہے۔ مسلمانوں کا حافظہ اس حوالے سے قوی ہے۔ انہوں نے اسلامی تاریخ کے ساتھ جتنا اعتنا کیا وہ قابلِ قدر ہے۔ خارجی اور داخلی اسباب کے ہاتھوں وہ اپنی سابقہ عظمت و برتری ایک حد تک کھو بیٹھے ہیں، لیکن وہ اپنی تاریخ کی مدد سے عظمتِ رفتہ کی بازیافت کرسکتے ہیں۔ اسلامی تہذیب کے بنیادی اصولوں نے نوعِ انسانی کی جس طرح ماضی میں راہنمائی کی، اسی طرح اب بھی وہ اصول مشعلِ راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
یہ ہماری قومی ضرورت ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور تمدنی سرگزشت کی حفاظت کریں اور اسے دنیا کے سامنے بھی اور اپنی نئی نسل کے سامنے بھی درست اور صحیح رنگ میں پیش کریں۔ تاریخی تحقیقات کے لیے ایک وسیع میدان موجود ہے، جس میں روز بروز وسعت ہوتی جاتی ہے، کیونکہ ہر ’’آج‘‘ جب ’’کل‘‘ بن جاتا ہے تو تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ اقوامِ عالم نے اپنی ہزار ہا سالوں کی تاریخ کو کسی نہ کسی طرح محفوظ رکھا ہے، کچھ اقوام اس تحفظ میں کامیاب رہیں اور کچھ ناکام… لیکن اس کا اعتراف سب نے کیا کہ قومی تاریخ کی حفاظت، قومی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
جو چیز تاریخ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے وہ عصبیت اور جانب داری ہے۔ معروضیت کو اگر ایک مثالی رویہ سمجھیں، جس تک پہنچنا ممکن نظر نہ آئے تو کم از کم اس کے قریب تر رہنے کی کوشش تو بہرحال ایک مؤرخ کرسکتا ہے۔ مسلمان مؤرخین میں ایسے افراد کی کمی نہیں جنہوں نے درباری اور سیاسی دبائو سے بالاتر رہ کر اپنی تاریخی تصانیف دنیا کے سامنے پیش کیں۔ دورِ حاضر میں اسلامی تاریخ کو سب سے زیادہ نقصان گروہی اور مسلکی تعصبات نے پہنچایا ہے۔ مستشرقین نے بھی اس جانب دار تاریخ نگاری میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں تو تاریخ نویسی کے نام پر جو کچھ لکھا گیا، جو کچھ لکھوایا گیا شرمناک اور افسوسناک ہے۔ لیکن بہرحال مسلمان مؤرخین نے اس کا بھی مقابلہ کیا اور خوب کیا۔
یہ سطور اس عالم میں تحریر کی جارہی ہیں کہ پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ سال 2020ء اس طرح شروع ہوا کہ چین کے شہر ووہان میں کورونا کی وبا پھوٹی اور دو ماہ بعد مغرب، امریکہ اور پھر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اس وبا کو روکنے کی انسانی کوششوں میں ایک لاک ڈائون بھی ہے، شہروں اور ملکوں میں لاک ڈائون کرکے شہریوں کو گھروں میں محدود کیا جارہا ہے کہ سماجی رابطوں سے پھیلنے والے اس وبائی جن کو بوتل میں بند کیا جاسکے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مقالات کے ڈھیر کو کھنگالا گیا، تیس مقالات ایسے جن میں کسی ردوبدل کی ضرورت محسوس نہ کی گئی، بیس مقالات ایسے جن پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوئی، اور تقریباً تیس مقالات ایسے جو کسی نہ کسی اعتبار سے نامکمل نکلے، بہرحال ان میں سے مقالات کا پہلا مجموعہ ’’مطالعاتِ تاریخی‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں قرونِ اولیٰ کی اسلامی تاریخ سے متعلق پندرہ مقالات ہیں، اور عہدِ جدید کی عالمی سیاست خصوصاً شرقِ اوسط کے حوالے سے چار مقالات شاملِ اشاعت ہیں۔ یہ مقالات مختلف کانفرنسوں میں پڑھے گئے یا مختلف جرائد میں شائع ہوئے۔ البتہ چند مقالات خاص اس مجموعے کے لیے، اسی لاک ڈائون کے تخلیے کے دوران لکھے گئے۔ ان میں ’’حکیم آل مروان: خالد ابن یزید‘‘ اور ’’ماوردی کا نظریہ امامت‘‘ شامل ہیں۔ یہ دونوں تاحال غیر مطبوعہ ہیں۔ مقالات کو تاریخ نویسی میں ہمیشہ بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ایک محدود موضوع پر مؤرخ اپنی تحقیق پیش کرتا ہے، اور مباحث آگے بڑھاتا ہے۔ امید ہے کہ اسلامی تاریخ و تہذیب اور شرقِ اوسط کی سیاست کو محیط یہ مقالات علمی حلقوں میں قبولیت حاصل کریں گے‘‘۔
کتاب جن مقالات پر مشتمل ہے وہ درج ذیل ہیں:۔
٭اسلامی تاریخ و تہذیب:۔
النبییٰ: عرب جاہلیہ کا ایک طریقہ، ابان بن عثمان: اولین سیرۃ نگاہ، نائلہ بنتِ الفرافصہ، حضرت نعمان بن بشیر: ایک مطالعہ، حکیم آل مروان: خالد بن یزید، عربی ادب پر سوقِ مربد کے اثرات، شعوبیت: آغاز و ارتقا، ابن اسحاق: ایک رجحان ساز سیرت نگار،مؤرخ کبیر عزالدین علی ابن اثیر، ابن عبدربہ اور ان کی تالیف العقدالفرید، امام المؤرخین: ابوالحسن علی بن حسین بن علی المسعودی، اندلس میں علوم و فنون کی ترقی اور مغرب پر اس کے اثرات، الماوردی کا نظریہ امامت، علم طب میں مسلمانوں کی خدمات، سلطنت عرب اور اس کا سقوط از جولیس ول ہوزن۔ ایک مطالعہ۔
٭عصر حاضر میں عالمی سیاست:۔
عرب قوم پرستی کا تصور، تشکیلِ ریاست اسرائیل کا نظریاتی پہلو، میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کا المیہ، کرد مسئلہ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تاریخی مطالعات اردو کی لائبریری میں گراں قدر اضافہ ہیں ، امید ہے ڈاکٹر صاحبہ باقی ماندہ مقالات کو بھی کتابی شکل میں مرتب کردیں گی۔
کتاب سفید کاغذپر خوب صورت طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔ سادہ مگر حسین سرورق سے آراستہ ہے۔ قیمت بھی بہت مناسب ہے۔