مجھے چند سال پہلے اپنے ایک دوست کے ساتھ اُس کے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا، یہ پنجاب کے ایک مشہور گاؤں کے چودھری ہیں، میں ان کے مہمان خانے میں ٹھیرا ہوا تھا، سردیوں کے دن تھے، میں صبح اٹھا تو مہمان خانے کے صحن میں پنچایت ہورہی تھی، میں نے کھڑکی کھولی اور کارروائی دیکھنے لگا۔ دو خاندان لڑ رہے تھے اور میرے دوست کے تایا حقہ لے کر درمیان میں بیٹھے تھے، وہ پہلے ایک فریق کی بات سنتے تھے اور پھر دوسرے فریق کی۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے اور تایا اطمینان سے حقہ پی رہے تھے۔ پنچایت شام تک چلتی رہی اور میں کھڑکی سے یہ سارا منظر دیکھتا رہا۔ تایا جان درمیان میں لنچ کے لیے گھر چلے گئے، اور لنچ کرکے ایک آدھ گھنٹہ سستا کر دوبارہ آگئے، جب کہ فریقین اس دوران بھی ایک دوسرے کو گالیاں اور کوسنے دیتے رہے۔ تایا جان واپس آئے اور دوبارہ عدالت کی عنان سنبھال لی۔ شام کے وقت اعلان ہوا چودھری صاحب کل فیصلہ کریں گے، آپ لوگ اب واپس چلے جائیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ میں نے رات کے کھانے پر اپنے دوست سے پوچھا ’’یہ سارا دن یہاں کیا ہوتا رہا!“ میرے دوست نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’یہ چودھراہٹ ہورہی تھی“۔ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا، وہ بولا ’’میرے تایا علاقے کے چودھری ہیں، رشتوں سے لے کر تدفین تک سارے فیصلے یہ کرتے ہیں۔ آج کے دونوں فریق ایک دوسرے کے رشتے دار ہیں، ایک خاندان کی لڑکی دوسرے خاندان میں بیاہی ہوئی ہے، یہ شادی کے دوسرے دن سے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور باقی زندگی بھی لڑتے رہیں گے“۔ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا، وہ بولا ’’یہ دونوں تگڑے خاندان ہیں، بچی بی اے پاس ہے جب کہ لڑکا اَن پڑھ اور بدتمیز ہے، یہ رشتہ ہمارے تایا جان نے کرایا تھا، یہ جب رشتہ کرا رہے تھے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ تایا جی آپ یہ ظلم کیوں کررہے ہیں! لڑکی اور لڑکے کا کوئی جوڑ نہیں، یہ زیادتی ہوگی، تایا جی نے اُس وقت ہنس کر کہا تھا ’’یہ دونوں تگڑے ہیں، یہ اگر ایک ہوگئے تو ہمیں علاقے میں چودھراہٹ نہیں کرنے دیں گے، چناں چہ میں ان کا بے جوڑ رشتہ کرا رہا ہوں۔ یہ دونوں رشتے کے بعد آپس میں لڑتے رہیں گے اور یوں ہماری چودھراہٹ قائم رہے گی“۔ میں یہ سن کر میں سکتے میں آگیا اور حیرت سے پوچھا ’’یہ لوگ اگر ایک دوسرے سے اتنے تنگ ہیں تو طلاق کیوں نہیں لیتے؟“ وہ ہنس کر بولا ’’ہمارے علاقے میں طلاق قتل سے بڑا جرم ہوتی ہے، اگر کسی نے طلاق مانگ لی یا دے دی تو پھر یہ لڑائی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی، دوسرا اگر طلاق ناگزیر ہوئی تو یہ فیصلہ بھی تایا جی کریں گے، اور تایاجی اپنی زندگی میں یہ فیصلہ نہیں کریں گے کیوں کہ دونوں خاندانوں کے درمیان سیٹلمنٹ کا تایاجی کی چودھراہٹ کو نقصان ہوگا، اور یہ مر جائیں گے مگر اپنا نقصان نہیں ہونے دیں گے“۔ آپ یہ منطق سن کر یقیناً حیران ہوں گے لیکن یہ منطق نہ صرف اس ملک میں چل رہی ہے بلکہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ بھی ہے، اور اس المیے کی جڑ پنجاب ہے۔ پنجاب پاکستان کا 60 فیصد ہے، یہ 12کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے، چناں چہ جس طرف بھی نکل جائیں آپ کو وہاں پنجابی سوچ کا غلبہ ملے گا، اور ہم پنجابیوں کی سوچ یہ ہے کہ اول ہم خود کچھ کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو کرنے دیتے ہیں، دوسرا ہم مر جائیں گے مگر اپنے ہاتھ سے اپنی چودھراہٹ نہیں نکلنے دیں گے، اور تیسرا ہم دوسروں کو اکٹھا نہیں ہونے دیتے، ہم ’’لڑائیں اور مزے کریں“ کے حامی ہیں۔ میں دوبارہ سی سی پی او عمر شیخ کی مثال دوں گا۔ یہ کیا ہیں؟ یہ پنجاب کے اصلی مرد بچے ہیں، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ہم پنجابیوں کی اکثریت ایسا نہیں سوچتی؟ کیا خواتین کے بارے میں ہماری رائے عمر شیخ کے خیالات سے نہیں ملتی؟ لہٰذا جب ہمارا کلچر، ہماری تہذیب اور ہماری زبان عورت کو عزت نہیں دیتی تو پھر پنجابی افسروں میں شائستگی اور تہذیب کہاں سے آئے گی! یہ عمر شیخ کیوں ثابت نہیں ہوں گے؟ مجھے یقین ہے میں ایک اور غیر مقبول کالم لکھ رہا ہوں، ملک کی ساٹھ فیصد اکثریت اور 12 کروڑ چودھریوں کے خلاف بات کرنا اور انسان خود بھی ان میں سے ایک ہو یہ کہاں کی عقل مندی، یہ کہاں کی سمجھ داری ہے! لیکن ہمیں اگر یہ ملک چلانا ہے تو پھر اپنے ڈی این اے کو سمجھنا ہوگا، ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا، ہمیں ماننا ہوگا کہ ہمارے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہم پنجابیوں کی سوچ ہے۔ ہم خود کچھ کررہے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو کرنے دے رہے ہیں۔ ہم نے اس ملک میں ایک متحارب سوچ بھی پیدا کردی ہے ”لڑو، لڑو اور بس لڑو“۔ آپ دیکھ لیں ہمارے ہیروز کون ہیں؟ اس خطے میں لڑنے والا ہر شخص ہمارا ہیرو ہے۔ پوری دنیا میں پروفیسر، سائنس دان، موجد، موسیقار، گلوکار، مصور، آرکی ٹیکٹ، ادیب، شاعر اور عبدالستار ایدھی جیسے لوگ ہیرو ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں یہ لوگ آج بھی کمی کمین سمجھے جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ ہم پنجابی ہزاروں سال سے ہاتھ سے کام کرنے والوں کو کمی اور دوسروں کے ہاتھوں کی کمائی کھانے والوں کو چودھری سمجھتے آرہے ہیں۔ ہمارے ملک میں کیوں کہ پنجابی سوچ کا غلبہ ہے چناں چہ ہمارے ملک میں جو بھی شخص ہاتھ سے کام کرے گا وہ کمی ہوگا خواہ وہ شاعر ہو، ادیب ہو، موسیقار ہو، مصور ہو یا پھر سائنس دان۔ اور ہم اسے اُس وقت تک کمی سمجھتے رہیں گے جب تک وہ ہاتھ اور عقل ہلانا بند نہیں کردیتا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پنجاب میں ہر کمی چند ہفتوں بعد کمین بھی ہوجاتا ہے۔
( روزنامہ ایکسپریس، 14ستمبر2020ء)