قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک زمانہ لوگوں پر ایسا آئے گا اُس وقت لوگوں میں مسلمان کے لیے بہتر مال بکریاں ہوں گی، ان کو لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں میں (بستی سے الگ) اپنا دین بچاتا ہوا فتنوں سے بھاگتا پھرے گا۔
(بخاری۔ عن ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ’’اسلام غربت کی حالت میں شروع ہوا ہے اور پھر ایک زمانہ آئے گا جب وہ ویسا ہی ہوجائے گا۔ تو جو لوگ اس کی غربت دور کرنے کی کوشش کریں وہ لائقِ ستائش اور لائقِ بشارت ہیں۔‘‘(مسلم)۔
’’یعنی وہ لوگ جو دین کی خاطر اپنے گھر بار اور خاندان کو خیرباد کہہ دیں۔‘‘
ان ارشاداتِ نبویﷺ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب حق کی آواز بالکل اجنبی اور غیرمانوس ہوجائے، دینِ فطرت کا احساس لوگوں کے دلوں سے نکلنے اور ان میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنے لگے، خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت سے جب بُعد پیدا ہوجائے، فضا اور ماحول اتنا بگڑ جائے کہ اس میں رہتے ہوئے آدمی کے لیے دین پر عمل کرنا دشوار ہوجائے، ایسی حالت میں اہلِ جرأت اپنے دین کو بچاتے ہوئے اصلاحِ امت، اقامتِ دین اور احیائے سنت کا کام کرتے ہیں، جو مردانِ خدا ایسے نازک حالات میں دنیا کو حق کی طرف بلانے اور باطل سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہی لوگ غرباء کے مبارک نام سے یاد کیے گئے ہیں۔ اور حضور انور ﷺ نے انہی کو بشارت اور خوش خبری دی ہے۔ آپؐ کے ان ارشادات سے یہی نہیں کہ ’’غریب‘‘ اور ’’غرباء‘‘ کی پوری تشریح ہوجاتی ہے، بلکہ مجملاً یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی ’’غربت‘‘ کو دور کرنے کی جو لوگ سعی کریں گے ان کو کیا کیا مراحل پیش آسکتے ہیں؟ اور انھیں کن کن دشوار گزار گھاٹیوں کو طے کرنا ہوگا؟
عام فتنہ و فساد اور معاشرہ کے عام بگاڑ کے وقت آدمی کا اپنے دین کو بچا لے جانا بھی بڑا کام ہوتا ہے، اور حدیث میں اس کی اجازت آئی ہے۔ لیکن بہرحال یہ رخصت کا پہلو ہے۔ عزیمت یہی ہے کہ حق کی جو دولت اسے فضلِ ایزدی سے ملی ہے، اس کو اپنے ہی تک محدود رکھنے کے بجائے دوسروں میں بھی تقسیم کرے۔ اس کو چھپانے کے بجائے زندگی کے میدان میں آکر اس کی دعوت دے، دین کی جو روشنی اس کے ہاتھ آئی ہے، اس سے اپنی ہی آنکھیں روشن نہ کرے بلکہ جو لوگ باطل کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سراسیمہ و سرگرداں ہیں، ان کے ہاتھوں تک بھی یہ روشنی پہنچائے۔ نبی کریم ﷺنے ایسے ہی لوگوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ ان کو سو شہیدوں کے برابر اجر ملے گا۔ اور یہی لوگ ہیں جن کے متعلق آپؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’میری امت میں ہمیشہ کچھ ایسے لوگ موجود رہیں گے جو حق کو غالب کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے، ان کو اس بات کی پروا نہ ہوگی کہ کس نے ان کو چھوڑ دیا، اور کون ان کی مخالفت کررہا ہے۔ یہ گروہ قیامت تک اپنا کام کرتا رہے گا۔‘‘
یہی کارِ عزیمت ہے جسے انجام دینے کے لیے انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی ہے۔ چنانچہ انبیاء کے مقصدِ بعثت اور فریضۂ نبوت کے سلسلے میں قرآن نے کھلے الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ: ’’یہ کہ دین کو قائم کرو۔‘‘ یہاں خدائے قدوس نے حکم جس بات کا دیا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ دین پر قائم رہو بلکہ یہ ہے کہ دین کو قائم کرو۔
حضرت صدیق اکبرؓ کے دور خیرالقرون میں بھی اس طرح کے بعض سادہ مزاج اور ’’رخصت پسند دیندار‘‘ پیدا ہوگئے تھے جن کے دلوں میں یہ خیال پرورش پانے لگا تھا کہ آدمی پر اصل ذمہ داری اس کے انفرادی اصلاح و تقویٰ کی ہے، اجتماعی تقاضے یعنی دعوت و اصلاح، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی عدم پابندی اس کی دین داری میں کوئی خلل نہیں ڈال سکتی، وہ خود اچھے ہیں تو دنیا بری ہوا کرے۔ انہوں نے اپنے اس خیالِ خام کے جواز کے لیے قرآن کی اس آیت کو اپنے استدلال کا سہارا بنایا تھا: ’’تم اگر خود ہدایت پر ہو تو کسی کا گمراہ ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔‘‘
لیکن جب حضرت صدیق اکبرؓ کو اس غلط ذہنیت کا علم ہوا تو آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور تقریر کرکے اس خام خیالی کی تردید کی، آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! تم آیت یاایھا الذین امنو الخ پڑھتے ہو (اور اس کے ظاہری الفاظ سے غلط فائدہ اٹھاتے ہو، حالانکہ اس آیت کا مفہوم وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو) میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ برائی دیکھ کر اس سے اغماز برتیں اور اسے دور کرنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’جب لوگ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیج دے۔‘‘
انبیاء کرام کی سیرتوں پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ جب بھی انہوں نے لوگوں کو حق کی طرف بلایا ہے، جب بھی انہوں نے خدا اور بندے کے ٹوٹے ہوئے رشتہ کو جوڑنے کی کوشش کی ہے تو ابتدا میں ان کی آواز پر لبیک کہنے والے اور ان کی دعوت کو قبول کرنے والے بہت کم بلکہ بسا اوقات ایک دو بھی نہیں ہوئے ہیں۔ پھر یہی نہیں کیا گیا بلکہ اس دعوت کے نتیجے میں ان کو ہر قسم کی مصیبتیں اور اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ان میں سے بعضوں کو اپنے اہل و عیال سے الگ ہونا پڑا، بعضوں کو گھربار سے دستبردار ہونا پڑا، اور کتنوں کو اپنی جان کی بازی بھی لگا دینی پڑی۔ غور کرنے کی بات ہے کہ دعوتِ حق دینے سے پہلے جو لوگ ان کے ہمدرد و ہم نوا تھے وہ یک بہ یک ان کے دشمن کیوں ہوگئے؟ کل تک جو بیوی کا، شوہر کا، باپ کا، بیٹے کا اور بھائی کا سا رشتہ رکھتے تھے، آج وہ ان کے خون کے پیاسے کیوں ہوگئے؟ کل تک جو لوگ ان کے اخلاق کے مداح تھے آج ان کی برائی کیوں کرتے پھر رہے ہیں؟ کل تک بستی اور خاندان کا ہر شخص ان سے ملنے جلنے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو باعثِ فخر سمجھتا تھا، آج وہ نفوسِ قدسی اجنبی اور غریب الدیار کیوں بنادیے گئے ہیں؟ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں تھی کہ وہ جس چیز کی طرف ان کو بلا رہے تھے، ان کے لیے وہ غیر مانوس اور نئی چیز معلوم ہوتی تھی۔ وہ چونکہ اپنے اندر کوئی تبدیلی پیدا کرنا نہیں چاہتے تھے یا اس کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے، اس لیے کسی تبدیلی یا انقلاب کی دعوت ان کے لیے بالکل تعجب خیز اور مضحکہ انگیز تھی۔