ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کی ذمے داری کون لے گا
کیا کراچی کا بنیادی مسئلہ ایک بڑا مالیاتی پیکیج ہے جو شہر کی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بناسکتا ہے؟ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کراچی پیکیج کو بنیاد بناکر1113ارب روپے کی مالی مدد اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ایک بڑا ترقیاتی پیکیج ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یقینی طور پر کراچی کو اگر واقعی مثبت انداز میں تبدیل ہونا ہے تو اس میں ایک بڑا نکتہ مالیاتی وسائل کی فراہمی کا بھی ہے۔ یہ پیکیج وفاق دے یا سندھ حکومت… مالی وسائل کی شہر کو ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے قبل ماضی میں کراچی کی درستی کے لیے مالی وسائل ہی سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا؟ یا مسائل کی نوعیت مالیات کی فراہمی کے علاوہ بھی تھی؟ ایک سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ ’’کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ کے تحت کراچی شہر واقعی تین برس میں تبدیل ہوجائے گا؟ اسی طرح یہ سوال بھی موجود ہے کہ 1113 ارب روپے موجودہ صورتِ حال میں کہاں سے آئیں گے؟ کیونکہ اگر یہ مالی وسائل نہیں ملتے تو پھر شہر کی حالت بدلنے کی بات بھی پیچھے جاسکتی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کراچی پیکیج کے نام پر سیاسی طور پر تقسیم بھی نظر آتی ہیں۔ سندھ حکومت کے بقول کراچی پیکیج کے 1113 ارب روپے میں سے 750 ارب روپے سندھ حکومت، جبکہ 363ارب روپے وفاقی حکومت خرچ کرے گی۔ جبکہ اس کے برعکس وفاقی وزیر اسد عمرکے بقول وفاقی حکومت کا حصہ 62فیصد جبکہ سندھ حکومت کا حصہ 38فیصد ہے۔ یہ تقسیم ظاہر کرتی ہے کہ اب بھی کراچی کی ترقی سے زیادہ وہاں کی سیاست اہم ہے، اور ہر جماعت اپنے مفاد کی بنیاد پر سیاسی اسکورنگ کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ بھاری گیارہ سو ارب روپے کا بجٹ فراہم کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہوگا، ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت ہو یا سندھ حکومت، دونوں نے کراچی پیکیج کے نام پر حقائق سے زیادہ خواہشات یا جذبات کی سیاست کو بنیاد بناکر بھاری بھرکم پیکیج کا اعلان کردیا ہے، جو عمل درآمد کے نظام میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
ایک مسئلہ کراچی کی درستی کے لیے سیاسی کمٹمنٹ کے فقدان کا ہے۔ وفاق اور صوبوں سمیت مقامی نظام حکومت کے درمیان اعتماد کے فقدان، کمزور مقامی حکومت کے نظام، بیوروکریسی کے نظام میں پائی جانے والی خرابیوں اور بالخصوص 18ویں ترمیم کے بعد صوبے کو مرکزیت کی بنیاد پر چلانے کی روش نے کراچی کا سیاسی، سماجی، انتظامی اور مالی حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ سندھ میں پچھلے تیرہ برسوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، اور کراچی شہر کی حکومت مجموعی طور پر ایم کیو ایم کے پاس رہی ہے، جبکہ کراچی کا ایک بڑا حصہ کنٹونمنٹ بورڈ کے پاس ہے جہاں ان کا اپنا ترقیاتی نظام ہے۔ اس لیے کراچی شہر کی بنیادی خرابی کی بڑی ذمہ داری ان ہی کرداروں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ رویہ بھی مسائل کی وجہ ہے کہ سندھ کے طاقت ور فریقین سمیت سندھ اور مقامی حکومت ذمہ داری لینے کے بجائے اسے وفاقی حکومت پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے دونوں فریقین میں پہلے سے موجود بداعتمادی مزید بڑھتی ہے اور دو طرفہ تعاون کے امکانات کو بھی ختم کرتی ہے۔
اگر ہم 1113ارب روپے کے کراچی پیکیج کی جزیات کو دیکھیں تو اس میں فراہمیِ آب کے منصوبے کے لیے 192ارب، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ یا برساتی نالوں کی صفائی اور متاثرین کی آباد کاری کے لیے 267 ارب، ماس ٹرانزٹ ریل اور ٹرانسپورٹ کے لیے 572 ارب، سیوریج ٹریٹمنٹ اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے 141ارب، انڈر پاسز، فلائی اوورز کی تعمیر کے لیے 41 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ لیکن سوال وہی ہے کہ یہ تو کراچی سے جڑے ترقیاتی مسائل ہیں جن کے حل کے لیے شفاف انداز میں وسائل خرچ ہوں تو یقینی طور پر نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں۔ لیکن کراچی کا عملی بگاڑ بڑا ہے۔ یہ بگاڑ ایک بڑی سرجری کا تقاضا کرتا ہے جو محض مالیات کی فراہمی سے درست ہونے والا نہیں۔ ہمیں کراچی کے مسائل کے حل کے لیے پہلے ان کی درست تشخیص کرنی ہوگی۔ اسی بنیاد پر کراچی کی سیاسی، انتظامی اور ترقیاتی سطح کی ترجیحات کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
سابقہ سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے جو بگاڑ کراچی میں پیدا کیا اُسے درست کرنے کے لیے روایتی اور فرسودہ یا میٹھی گولیوں یا محض سر درد کی گولیوں سمیت کچھ ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ماضی میں کراچی کی ترقی کے لیے جو وسائل ملے تھے کیا اس بات کی ضرورت نہیں کہ ان کا سیاسی اور مالی آڈٹ ہو؟ اگر ماضی کی بھاری رقم لوٹ مار، اقربا پروری، قبضوں کی سیاست یا کرپشن کی نذر ہوگئی تو حالیہ کراچی پیکیج پر عمل درآمد ہو بھی جائے تو اس کی شفافیت کی ذمہ داری کون لے گا؟ اگرچہ اِس بار ایک نیا تجربہ یہ کیا گیا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت، ریاستی اداروں، کنٹونمنٹ بورڈز، این ڈی ایم اے سمیت مختلف اداروں کی شمولیت کے بعد ایک نگران کمیٹی قائم کی گئی ہے جس کی سربراہی وزیراعلیٰ سندھ خود کریں گے۔ لیکن کیا یہ کمیٹی اپنی شفافیت، فعالیت اور خودمختاری ثابت کرسکے گی؟ یا اس کمیٹی کو عملاً چلنے کا موقع دیا جائے گا؟ کیونکہ سندھ حکومت پہلے ہی انتباہ کرچکی ہے کہ وہ ایسی کسی کمیٹی کے حق میں نہیںجو عملی طور پر سندھ حکومت کے مفادات یا اختیارات کو چیلنج کرتی ہو۔
کراچی کا بڑا مسئلہ سیاسی ہے۔ اس میں جہاں فریقین میں ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ درکار ہے، وہیں اس میگا شہر کے لیے ایک مؤثر ماسٹر پلان ضروری ہے جو سب فریقوں کی باہمی مشاورت سے بنانا ہوگا۔ اسی طرح میگا شہر کے تناظر میں وفاق اور صوبوں سمیت مقامی نظام حکومت کے دائرۂ کار کو نئے سرے سے پرکھ کر کچھ نئی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ایک مضبوط رابطہ کاری وفاق، سندھ، شہری حکومت اور کنٹونمنٹ بورڈ کے درمیان درکار ہے، اور ان فریقوں میں عملی تعاون اوراعتماد کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ اس شہر سے کیسے تجاوزات کا خاتمہ ہوگا، کیسے شہر کو جرائم پیشہ افراد سے نجات دلائی جائے گی؟ قبضہ گروپوں سے (جو سیاسی طور پر مختلف لوگوں کی پشت پناہی رکھتے ہیں) جگہیں خالی کروانا، منشیات فروشی کا خاتمہ، سرکاری و غیر سرکاری املاک کی تعمیر میں غیر قانونی اقدامات یا تجاوز کرنا، پارکنگ اور پارکوں کے نام پر قبضے کا کھیل، ٹرانسپورٹ اورٹمبرز مافیا، سیاسی جماعتوں میں جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی جیسے امور اہم نوعیت کے مسائل ہیں جنہیں اپنی ترجیحات کا عملاً حصہ نہ بنا کر کچھ نیا کرنا ممکن نہیں۔
یہ کام بڑی ادارہ جاتی اصلاحات کا تقاضا کرتا ہے۔ پولیس، عدالتی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے بیوروکریسی میں ایک بڑی سرجری اور انتظامی اداروں میں سیاسی مداخلتوں کا خاتمہ کیے بغیر یہ کراچی پیکیج بھی اپنا اثر نہیں دکھا سکے گا،کیونکہ مسئلہ مالیات کے ساتھ ساتھ شفافیت کا بھی ہے۔ بالخصوص جب تک اس بڑے اور میگا شہر کے لیے ایک خودمختار مضبوط مقامی حکومت کا نظام جس میں ان اداروں کو سیاسی، انتظامی اورمالی اختیارات نہیں دیے جاتے، اس شہر کی حقیقی حالت، ترقی یا خوشحالی کا خواب مشکل اورناممکن نظر آتا ہے۔