جب کبھی غیرت ِانسان کا سوال آتا ہے
بنت ِزہرا تیرے پردے کا خیال آتا ہے
آج کی مزین دنیا صرف حقوق لینے کا سبق دیتی ہے جبکہ بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ دنیا، فرائض کی دنیا ہے۔ جب اللہ کا حکم آجاتا ہے تو اس کا نفاذ سب سے پہلے اپنی ذات پر اور پھر معاشرے پر ہوتا ہے، مگر (معذرت کے ساتھ) ہمارے معاشرے کا مزاج ایسا ہوتا جارہا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے (نعوذ باللہ) ہم سے درخواست کی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث کے ذریعے ہمیں حکم دیا ہے۔ اب اس بات کی حکمت ہمیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے من وعن عمل ’’واجب‘‘ ہے۔ ’’پردہ نظر کا ہوتا ہے‘‘ اس سوچ نے آج آدھی انسانیت کو برہنہ کردیا ہے۔
قرآن کی سورہ القصص کی آیت نمبر 25 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس آیت کا مفہوم ہے کہ ’’شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی‘‘۔ دنیا ’’پردہ‘‘ کی تعریف کرے مگر قرآن کی اس ایک آیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہی عورت کی پہچان ہے، اسی میں اس کی عزت اور اسی میں اس کی زینت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پردے کو عورت کے لیے پسند فرمایا ہے، اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ضروری قرار دیا اس حکم میں کجی کیسے ہوسکتی ہے؟ وہ رب جو ستّر ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے، وہ رب جو ہمیں نوازنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے، وہ رب جس نے ہمیں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنا دیا۔
جب حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا تو وہ کافی عرصے تک پڑا رہا، لیکن حضرت حوا علیہ السلام کا پتلا کب بنایا؟ کب ان کو وجود ملا؟ یہ پتا نہ چل سکا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر کیا، بہن کا تذکرہ کیا، حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تذکرہ فرمایا، مگر نام کا بھی پردہ رکھا۔ جب پردے کا حکم نازل ہوا تو تمام صحابیہ رضی اللہ عنہا نے فوراً لبیک کہا، جو جہاں تھیں وہیں پر قرار پکڑا، اپنے اپنے گھروں سے جو چیز پردے کے لیے میسر تھی، منگوائی، اور پھر اس کے بعد پورے پردے کے ساتھ اپنے گھروں میں تشریف لے گئیں۔
آج کچھ خواتین آزادی کا نعرہ لگا کر ہمارے معاشرے کو ’’مادر پدر آزاد معاشرہ‘‘ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے، کسی ایک نے ایک نعرہ لگایا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، پھر سب نے دیکھا کہ ہمارے سروں پر ایک نہ نظر آنے والا وائرس مسلط ہوگیا۔ کیا مرد اور کیا عورت سب نے اپنے گھروں میں قرار پکڑا، اور جو نقاب سے گھبراتی تھیں 24 گھنٹے ماسک لگا کر رہنے لگیں۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے پردے ہی میں عزت و وقار رکھا ہے۔ ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے، اسی طرح عورت بھی مکمل حجاب میں ہی پسندیدہ ہے۔ ہماری زندگی کا مطمح نظر محض یہ ساٹھ، ستّر سال کی زندگی نہیں بلکہ مرنے کے بعد آخرت اور ہمیشہ کی ’’جنت‘‘ کی ’’زندگی‘‘ ہے، اور اس زندگی کا حاصل اللہ کی رضامندی میں ہے۔ پردہ ’’حقوق اللہ‘‘ میں سے ہے، اس کو کسی مخلوق کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن مجید کی 12 سے زیادہ آیات اور80 سے زائد احادیث سے پردے کا حکم ثابت ہے۔ خواتین کے ’’جہنم‘‘ میں جانے کی بڑی وجہ ’’بے پردگی‘‘ ہے۔ آج سارے معاشرے میں اس ’’گناہِ کبیرہ‘‘ کو چھوٹا سمجھا جارہا ہے۔ بے شرمی کا یہ سیلاب ہماری نسلوں کو فحاشی وعریانی کی طرف لے جا رہا ہے، دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ بے پردگی کی وجہ سے بہت سے لوگ حرام میں مبتلا ہوئے۔ نظر کی اس خرابی کی وجہ سے مال، صحت، وقت سب ضائع ہوگیا۔ حیا کا تعلق خاتون کے جسم، آواز، لباس اور اس کی خاص متعلقہ چیزوں سے ہے۔ حتیٰ کہ اپنے محارم کے سامنے بھی احتیاط لازم ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں‘‘۔ آج کے پُرفتن دور میں ہم عورتیں پردہ کرکے خود کو اور اپنی نسل کو گناہ کی زندگی سے بچا سکتی ہیں۔ جو چیز جتنی بڑی ہوتی ہے اس کی قیمت بھی دینی پڑتی ہے، اور جنت ہمارے ’’جان ومال‘‘ کے ساتھ ’’گروی‘‘ ہے۔ توآئیے تمام تر ذمہ داری و ہمت کے ساتھ بے پردگی کے عذاب کو اپنے معاشرے سے ختم کریں اور ہمیشہ یہ دعا کریں ’’یااللہ ہمارے ان گناہوں کو معاف فرما دے جن سے ہماری حیا کم ہوگئی ہے۔ اور یااللہ اس حیا کو پورا بڑھا دیجیے اور جن گناہوں سے بحر وبر کی مخلوق پر اثرات پڑ رہے ہیں ان سے مجھے بھی بچا لیجیے اور سب مخلوقات کو بھی بچا لیجیے‘‘۔آمین