پاکستان نے دو برسوں میں مجموعی قرضے کا 42 فیصد سود ادا کیا ہے
تحریک انصاف کی حکومت تیسرے پارلیمانی سال میں داخل ہوچکی ہے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے پارلیمان کے تیسرے سال کے آغاز پر دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرچکے ہیں۔ صدرِ مملکت کے خطاب کے دوران حسبِ روایت اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا۔ صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کے احتجاج کی روایت محترمہ بے نظیر بھٹو نے’’گو بابا گو‘‘ کے نعرے کے ساتھ رکھی تھی، یہ روایت آج 26 سال گزر جانے کے باوجود جاری ہے۔ حکومت کے دو سال مکمل ہوجانے پر اسد عمر، حفیظ شیخ، فواد چودھری سمیت کابینہ کے اہم ترین چھے وزرا نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی، مگر یہ پہلا موقع تھا کہ کسی سوال کا جواب دیے بغیر پریس کانفرنس ختم کردی گئی۔
تین کام ساتھ ساتھ ہوئے ہیں: پارلیمنٹ سے صدر کا خطاب، حکومت کے دو سال کی تکمیل، اور ایف اے ٹی ایف سے باہر نکلنے کی کوشش میں پارلیمنٹ میں قانون سازی۔ یہ عمل اگرچہ مکمل ہوچکا ہے تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) قانون سازی میں تعاون کرکے اب پچھتا رہی ہیں کہ حکومت انہیں پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر فکس اپ کررہی ہے۔ دونوں جماعتوں کے سینئر رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں حکومت نے سیاسی مات دی ہے کیونکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو مطلوب قوانین کی منظوری کے دوران یہ بات کہی جارہی تھی کہ حکومت کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر قانون سازی چاہتی ہے، لیکن حکومت نے اپوزیشن کی مجبوری سے پورا فائدہ اٹھایا اور قانون سازی کے بعد اب کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے۔ اپوزیشن تلملا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ حکومت اپنے دعوے کی سچائی کے لیے ثبوت پیش کرے۔ جے یو آئی نے برملا کہا ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیںسوپیازاور سو جوتوں کا مزہ لے چکی ہیں، رہی سہی کسر حکومت نے یہ کہہ کر نکال دی کہ پاکستان گرے لسٹ میں جعلی بینک کھاتوں کی وجہ سے گیا، اسی لیے منی لانڈرنگ کے انسداد کے لیے قانون سازی کی گئی ہے، عالمی اداروں نے پاکستان پر دبائو بڑھایاکہ وہ اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے، بینکوں میں بنائے گئے کھاتوں پر کڑی نگاہ رکھے، سونے اور پراپرٹی کی خرید و فروخت پر مسلسل نگرانی کا بندوبست کرے۔ حکومت یہ قانون سازی نہ کرتی تو پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ میں ڈال دیا جاتا۔ حکومت کا دعویٰ درست ہوگا، تاہم وہ یہ تو بتائے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کو یقینی بنانے کے لیے کون سے نئے قوانین بنائے گئے ہیں؟ ان کی تفصیلات کیا ہیں؟ نئے قوانین ہماری کاروباری عادات اور رویوں میں کون سی تبدیلیاں لاسکتے ہیں؟ یہ تبدیلیاں ہماری معیشت میں مزید کساد بازاری تو نہیں لائیں گی؟ کاروباری حلقوں میں افراتفری تو نہیں پھیل جائے گی؟ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یہ سارا عمل مکمل ہوچکا ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قوانین کی منظوری سے قبل قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر فرمائی تھی۔ اس تقریر کے ذریعے انہوں نے اصرار کیا کہ اپوزیشن جماعتیں ایف اے ٹی ایف کو مطلوب قوانین کی منظوری میں تعاون کے بدلے حکومت سے NRO مانگ رہی ہیں۔ خواجہ آصف معترض ہوئے کہ وہ ’’اندر کی باتیں‘‘ باہر کیوں لائے؟ حکومت اور اپوزیشن کا مؤقف کچھ بھی ہو، ابھی تک یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو کیوں گھیر رکھا ہے، لیکن حکومت اور اپوزیشن اس معاملے پر حیران کن حد تک خاموش ہیں۔
صدر عارف علوی نے اپنے خطاب میں حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے خارجہ پالیسی، کرپشن اور اس کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششوں، قانونی، معاشی و معاشرتی انصاف، اسمگلنگ اور اس کی روک تھام، اندرونی و بیرونی قرضوں، پاور سیکٹر، اقتصادیات، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں سے متعلق گفتگو کی اور ملک میں امن و امان کی صورتِ حال، تعلیم و صحت میں حکومت کی کارکردگی کو سراہا۔ دو سال مکمل ہوجانے پر وزیراعظم کے ڈیلیوری یونٹ نے بھی وزارتوں کی رینکنگ جاری کی۔ پارلیمنٹ سے صدر کے خطاب میں حکومتی کارکردگی اور وزیراعظم کے ڈیلیوری یونٹ کی رپورٹ میں مطابقت نظر نہیں آئی۔ وزیراعظم کے ڈیلیوی یونٹ کے مطابق وزارتِ ماحولیات کارکردگی کے لحاظ سے سب سے بہتر رہی، اس کے بعد تجارت، پھر وزارتِ پارلیمانی امور، اسد عمر کی وزارتِ منصوبہ بندی کے بعد پانچویں نمبر پر وزارتِ اطلاعات، وزارتِ انسدادِ منشیات چھٹے اور وزارتِ خارجہ ساتویں نمبر پر رہی، بین الصوبائی رابطہ وزارت آٹھویں، اوورسیز نویں اور نج کاری کی وزارت دسویں نمبر پر رہی۔ وزارت اطلاعات فواد چودھری کا دور چھوڑ کر براہِ راست وزیراعظم کی نگرانی میں رہی اور یہ کارکردگی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہے۔ اور پاکستان کی آنکھ، کان اور ناک سمجھی جانے والی اہم ترین وزارت، وزارتِ خارجہ ساتویں نمبر پر رہی۔ وفاقی وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وزارت خزانہ پہلی دس پوزیشن میں اپنی جگہ نہیں بنا سکی۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی رائے یہ بن رہی ہے کہ پاکستان کی قرضوں کی واپس ادائیگی کی استعداد کم ہورہی ہے اور اسے مزید قرضوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، مزید قرضے لیے توخسارہ بڑھ جائے گا اور معیشت متاثر ہوگی۔ پاکستان نے دو برسوں میں مجموعی قرضے کا 42 فیصد سود ادا کیا ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ سود ملکی معیشت پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ معیشت میں بہتری لانے کے لیے حکومت کم شرح سود پر طویل مدتی مقامی بانڈز جاری کررہی ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ انٹرنیشنل اسلامی سکوک بانڈ بھی جاری کیا جائے۔ سابق حکومتوں نے بھی پالیسی ریٹ کے باوجود زیادہ شرح سود پر مقامی بانڈز جاری کیے اور ساڑھے 4فیصد زیادہ شرح پر قرضہ لیا۔ مقامی بانڈز کی مدت 3 سے 20سال رکھی گئی ہے، اور مقامی مارکیٹ میں 38ارب روپے کے بانڈز جاری کیے جائیں گے۔ مقامی مارکیٹ میں 16ارب روپے کے تین سالہ مدت کے بانڈز 8.1فیصد، 12ارب روپے کے 15سالہ مدت کے بانڈز 9.91 فیصد، 10ارب روپے کے 20 سال کی مدت کے بانڈ10.42فیصد شرح سود پر جاری کیے جائیں گے۔
حکومتی کارکردگی کی یہ رپورٹ کسی اپوزیشن جماعت کا وائٹ پیپر نہیں بلکہ وزیراعظم کے اپنے ڈیلیوری یونٹ نے مرتب کی ہے، لہٰذا حکومت کی دو سالہ کارگزاری پر کسی غیر جانب دارانہ تجزیے کی اب کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔
حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس نے ملکی قومی خزانے کے خسارے کو کم کیا، مگر یہ نہیں بتارہی کہ ان دو سال میں مہنگائی کتنی بڑھی، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی شرح تبادلہ بڑھ جانے سے ملکی معیشت کو کیا نقصان پہنچا، ملک میں سرمایہ کاری کتنی ہوئی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کتنی آئی؟ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ میڈیا کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا اسے نقصان پہنچا، مگر یہ وزارت تو زیادہ عرصہ براہِ راست وزیراعظم کی نگرانی میں کام کرتی رہی، بہتر ہے کہ اب حکومت خود ہی فیصلہ کرے کہ خرابیوں کا ذمہ دار کون ہے۔ وزارتِ خارجہ جسے بھارت اور افغانستان کے علاوہ مسلم دنیا، اور اقوام عالم کے ساتھ رابطے بڑھانے تھے، کشمیر پر انہیں اپنا ہم نوا بنانا تھا، اس بارے میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا یہ تلخ ترین تبصرہ کہ وزارتِ خارجہ کے افسر بہتر رہن سہن، پروٹوکول اور ٹائی سوٹ کے چکر سے ہی باہر نہیں نکلتے، اپوزیشن اور جمہور کی بہترین ترجمانی ہے۔ وزارتِ خارجہ کو اس خطے میں بھارت اور افغانستان کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے بڑے چیلنجز ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ حالیہ بدمزگی، اور دو ماہ بعد ہونے والا ایف اے ٹی ایف کا اجلاس سب سے بڑا چیلنج ہے۔ افغانستان امن معاہدہ اس وقت خطرے میں نظر آرہا ہے کہ افغان حکومت طالبان کی فراہم کی ہوئی فہرست کے مطابق قیدی رہا کرنے پر آمادہ نہیں، قیدی رہا کرنے کا معاملہ معاہدے پر دستخط کے بعد سے لے کر آج تک متنازع بنا ہوا ہے، لیکن کابل حکومت اگرچہ امریکی دبائو میں آکر طالبان قیدی رہا کرتی آئی ہے تاہم اس وقت بھی تین سو بیس قیدی جیلوں میں بند ہیں اور ان میں چھے ایسے ہیں جن پر آسٹریلیا کی حکومت اعتراض لگا چکی ہے کہ یہ آسٹریلوی شہریوں کے قتل میں ملوث رہے ہیں۔ لہٰذا یوں یہ ایک نیا تنازع بن گیا ہے۔ پاکستان پر افغانستان کے حالات کے براہِ راست اثرات پڑتے ہیں۔ اگر یہ تنازع حل نہ ہوا اور حالات خراب ہوئے تو پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ کابل حکومت اور امریکی چاہتے ہیں کہ طالبان پُرتشدد کارروائیاں بند کریں، جبکہ طالبان کا مؤقف ہے کہ کابل حکومت اور امریکی معاہدے کے مطابق طالبان قیدی رہا کریں تو حالات درست ہوسکتے ہیں۔ وزارت خارجہ میں کتنا دم خم ہے کہ وہ کابل میں امن کے قیام کے لیے کام کرے! اس وقت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ایک سابق سفارت کار محمد صادق کی معاونت حاصل ہے۔ محمد صادق ایک مثبت سوچ رکھنے والے سفارت کار ہیں، امید ہے کہ وہ مثبت تبدیلی لے آئیں گے۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کو اس وقت کشمیر واسرائیل سمیت عالمی تناظر میں آزمائشی صورتِ حال کا سامنا ہے، ہم کشمیریوں کو کبھی تنہا چھوڑ سکتے ہیں اور نہ اسرائیل کو تسلیم کریں گے، پاکستان مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا حامی ہے۔ صدر کے یہ الفاظ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے بین الاقوامی برادری خصوصاً عالمی اداروں کے لیے دوٹوک پیغام ہے۔ صدرِِ مملکت نے دو سال میں حکومتی کامیابیوں کا ذکر کیا، تاہم حقائق یہ ہیں کہ ملک کے 90 فیصد عوام کا گمبھیر مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے، فی کس آمدنی دنیا کی پست ترین سطح پر ہے جو ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ حکومت کی دو سالہ کارکردگی رپورٹ کے اجراء پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے اعتراف کیا ہے کہ ’’میڈیا سے بگاڑ کر مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکامی اور احتساب پر ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں‘‘۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا محض اعتراف کرلینے سے مسائل حل ہوجائیں گے اور جمہور کو اطمینان حاصل ہوجائے گا؟ اس کے لیے حکومت کو خود نمائی اور خودستائشی کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ جمہور کے حلقوں میں تو ازالہ نہیں، کفارہ کی بات ہورہی ہے۔ تحریک انصاف اعتراف کو اپنی خوبی سمجھ رہی ہے۔ فقط اعتراف اور غلطیوں کی توضیحات کرنا کفارے سے گریز کے مترادف ہے، اسے ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ میڈیا سے بگاڑ، اشیائے خورونوش اور دیگر بنیادی ضرورتوں کی عوام کو آسان دستیابی میں حائل مافیاز کو قابو کرنے میں ناکامی، اور جاری احتسابی عمل میں آئے بڑے جھول کو ختم کرنے میں حکومت اعتراف کے باوجود بدستور ناکام ہی جارہی ہے۔ دو سال گزر جانے کے بعد وزیراعظم عمران خان اپنی امیج بلڈنگ چاہتے ہیں اور اس کے لیے منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے، لیکن امیج بلڈنگ کے لیے یہ گزرے ہوئے دو سال تو کسی کام کے نہیں ہیں۔ وزیراعظم کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ جس میڈیا کے ذریعے وہ اپنا بیانیہ عوام تک پہنچا سکتے تھے اسی میڈیا کو حکومت نے لاغر اور اپاہج بنادیا، یوں اپنی گورننس کی تشہیر کا راستہ خود ہی بند کردیا۔ حکومت نے جن پہلی دس وزارتوںکی کارکردگی بتائی، وزارت خزانہ ان میں شامل نہیں ہے۔ یہ وزارت شروع سے آج تک بیرونِ ملک سے ملنے والی امداد، مالی معاونت اور سہولت کاری کے ذریعے چل رہی ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب نے اپنے پیسے واپس مانگے ہیں تو چین سے رجوع کیا گیا ہے، جس پر چین نے پاکستان کو بینک میں رکھے ایک ارب ڈالر استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اس اجازت کے بعد حکومت کو بینکنگ اور نان بینکنگ اداروں سے مقامی طور پر 165 ارب روپے سے 169 ارب روپے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ چین نے بجٹ ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر کو روپے کے برابر استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے ترجمان بتاتے ہیںکہ چین کی جمع کی گئی رقم سرکاری قرضہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کو پاکستانی روپے میں یہ رقم موصول ہوگی۔ چین نے اسٹیٹ بینک میں سب سے زیادہ رقم جمع کرائی ہے تاکہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوسکیں۔ فی الحال پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 19.6 ارب ڈالر ہیں جس میں سے اسٹیٹ بینک کے پاس 12.6 ارب ڈالر، جب کہ کمرشل بینکوں کے پاس 7.01 ارب ڈالر ہیں۔ شرح سود میں کمی سے شرح مبادلہ پر دباؤ بڑھا ہے، اس لیے آنے والے دنوں میں درآمدات میں اضافے کے خدشات ہیں جو عدم توازن کا سبب بن سکتے ہیں۔ اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے گورنر اسٹیٹ بینک کو شرح سود کم کرنے پر مجبور کیا جس سے قرضوں میں 200 سے 300 ارب روپے کی کمی ہوئی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 20 اگست کو دو روزہ دورے پر چین کے لیے روانہ ہوئے تو ایک بار پھر تمام نظریں اس دورے پر مرکوز ہوتی نظر آئیں۔ یہ دورہ کتنا اہم ہے اور اس کا ایجنڈا کیا تھا، اس پر پارلیمنٹ میں لازمی غور ہونا چاہیے اور مکمل سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔
سید علی گیلانی کے جعلی خطوط
ایک مسئلہ مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی سے متعلق جعلی خبروں کی تشہیر ہے، اس پر دفتر خارجہ خاموش ہے مگر ممتازکشمیری رہنما سید علی گیلانی کے اہلِ خانہ بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے جعلی خطوط کے اجراء کے معاملے پر عوام اور میڈیا سے اپیل کی ہے۔ علی گیلانی کے صاحبزادوں نعیم گیلانی اور نسیم گیلانی کی جانب سے کی گئی اپیل میں کہا گیا ہے کہ ان کے والد کے نام سے جعلی خطوط کا اجراء تشویش ناک ہے۔ اہلِ خانہ نے کہا کہ خطرناک مہم پہلے سے علیل سید علی گیلانی کے لیے پریشانی کا باعث ہے، ان من گھڑت خطوط اور خیالی تبصروں سے والد صاحب کی صحت متاثر ہورہی ہے۔ اہلِ خانہ نے یہ بھی کہا کہ سید علی گیلانی سے متعلق کوئی بھی بیان ان کے نمائندے عبداللہ گیلانی دیں گے اور اسے ہی درست تصور کیا جائے۔ سید علی گیلانی کے اہلِ خانہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سید علی گیلانی کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔