میرے محسن اور استادِ صحافت اطہر ہاشمی کی روحِ مطہرہ جو ارشادِ ربانی کے مطابق نیند کی حالت میں نکال لی گئی تھی پھر لوٹائی نہیں گئی، اور یوں پاک باز روح یقیناً جنت الفردوس کا مسکن بنادی گئی ہوگی۔ روزنامہ”جسارت “ جس کے وہ چیف ایڈیٹر مرتے دم تک رہے، جسارت کی آن، بان و شان تھے۔ وہ ایسی شخصیت تھے جس کو کتابوں میں نہیں بلکہ دلوں میں پڑھا اور روحوں میں یاد رکھا جائے گا۔ ان کی بزلہ سنجی دلوں کو گرماتی رہے گی، اور ان کی یادیں سعید روحوں کے دلوں کو تڑپاتی رہیں گی۔ میں 1979ء میں صحافت کی دنیا میں داخل ہوا تو پہلی منزل جسارت ٹھیری۔ اُن دنوں جسارت کا طوطی بولتا تھا۔ محمد صلاح الدین اس کے مدیر تھے، اور میں اُن کا ہی دورۂ سکرنڈ کے موقع پر پانچ دیگر امیدواروں میں سے حسنِ انتخاب ٹھیرا۔ قصہ مختصر، ہم خبر کی دنیا میں مگن، کالم نگاری کی دنیا سے ناآشنا تھے۔ محترم عبدالکریم عابد جسارت کے مدیر تھے تو انہوں نے ڈائری کے حوالے سے کالم لکھنے کی راہ دکھائی، اور یہ اطہر ہاشمی ہی تھے جو مدیر منتظم کشش صدیقی کے پڑوسی، ادارہ جسارت میں تھے، انہوں نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بتایا کہ ڈائری مقامی سے آگے صحافت کی دنیا میں جہاں اور بھی ہیں، اور ادارتی صفحے پر لکھنے کے لیے رہنمائی یہ کہہ کر فرمائی کہ تم میں لکھنے کے جراثیم ہیں۔ اور یوں اس بندۂ خدا نے انگلی پکڑی اور ہم ادارتی صفحے پر لکھنے کے لیے کچھ پڑھنے بھی لگے، اور یوں لکھنا اور پڑھنا دونوں میں ان کی حوصلہ افزائی اہم عنصر کے طور پر اب تک شامل ہے۔ یہ ان کا صدقۂ جاریہ ہے اور ہماری ہر اچھی تحریر کا ثواب اللہ ان کو عطا کرے گا۔ پھر ایک مرحلہ وہ آیا کہ بذریعہ اطلاع نامۂ جسارت ہم اس ادارے سے راندۂ درگاہ ہوئے، مگر ہم سے جسارت اور اطہر ہاشمی کی محبت نکالی نہ جاسکی۔ جسارت آنا ہو اور اطہر ہاشمی سے ملے بغیر چلے جائیں، یہ کیسے ہوسکتا تھا! ان کی باغ و بہار باتیں دل کو لبھاتی ہی نہیں بلکہ حوصلہ بڑھاتی اور رہنمائی فرماتی تھیں۔ میں نے عمر رفتہ اور موت کی آہٹ سن کر سنت، داڑھی کو کھلی چھوٹ دے دی، اور اس صورت میں اطہر ہاشمی سے پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے برجستہ کہا کہ مولوی ہوگیا کیا؟ یہ دل موہ لینے والا جملہ تھا، طنز نہ تھا۔ اور یہ مولوی سے ان کے دل میں چھپا ہوا اظہارِ محبت بھی تھا۔ پھر ایک مرتبہ دانش کے ہمراہ جو کراچی میں رہتے ہیں، ان کے فلیٹ پر ملاقات کے لیے گیا تو انہیں مولوی کے روپ میں پایا، اس پر یک گونہ مسرت ہوئی کہ محبتِ سنت رنگ لے آئی ہے۔ ایک چھوٹے کمرے میں خوب کچہری ہوئی۔ چھوٹا فلیٹ ان کے بڑے پن اور صاحبِ کردار ہونے کی دلالت تھا۔ اس دور میں جب قلم فروشی کی منڈی لگی ہوئی ہے اور صحافت کے کاروبار میں صحافی محلات کے مالک بن گئے ہیں اس فقیر منش کی کٹیا رزقِ حلال کی گواہی دے رہی تھی۔ اطہر ہاشمی حساس دل کے مالک تھے اور وہ روایتی مدیر نہ تھے۔ مجھے علم ہوا کہ ایک مالی بحران جسارت میں آیا تھا، اس دور میں تین نچلے ملازموں کو ادارۂ جسارت نے ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دے کر رخصت کردیا، اور وہ منہ لٹکائے جب اطہر ہاشمی سے الوداعی ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو اطہر ہاشمی نے ذمہ داران سے بات کی کہ مجھے فارغ کردیا جائے انہیں رکھ لیا جائے۔ ذمہ داران نے کہاکہ آپ کی فراغت کا اخبار متحمل نہیں ہوسکتا، تو اطہر ہاشمی نے ایک شاندار بات کہی کہ فراغت ادارے سے نہیں تنخواہ سے ہے، میری اہلیہ ڈاکٹر ہیں، ہمارا گزارہ ہوجائے گا۔ یہ ایثار کی زبردست مثال تھی۔ اور یوں ان تینوں کی دعا نے اطہر ہاشمی کے خلوص و ایثار کو جِلابخشی، حج بھی ہوئے اور عمرے بھی ہوئے، اور اردو نیوز جدہ سے ایک دانے سے سو دانے، بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر اللہ نے ان کے ساتھ معاملہ فرمایا۔