سامانِ سفر

دعوتِ دین کے فکری اور عملی پہلوئوں پر سید مودودی کی منتخب تحریروں کا مجموعہ

ہمارے بھائی عرفان جعفر صاحب نے دوسری کتابوں کے ساتھ زیر نظر گراں قدر کتاب بھیجی، اس میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوتِ دین کے فکری اور عملی پہلوئوں پر نگارشات کو بڑی عمدگی اور سلیقے سے جمع کردیا گیا ہے۔ کتاب کی مرتبہ محترمہ یاسمین حمید صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:
’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جہاں اس صدی کے ایک بلند پایہ مفکر تھے وہاں انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ اپنے پیش کردہ فکر و فلسفہ کو عملاً ایک تحریک کی صورت میں برپا کرکے دنیا کو یہ بھی دکھا دیا کہ اس راست فکر کے نتیجے میں کیسے ایک نیا انسان، ایک نئی معاشرت، ایک نئی تہذیب اور ایک نئی ریاست کی تشکیل ہوا کرتی ہے۔ سید مودودیؒ نے اپنے بیش قیمت لٹریچر کے بڑے حصے میں اسلام کی دعوت، اس کے تقاضوں اور مطالبات کو اپنی تمام تر وسعت و گہرائی کے ساتھ واضح کیا ہے۔
پیش نظر کتاب ’’سامانِ سفر‘‘ سید مودودیؒ کے اسی علم و حکمت اور دانش و بصیرت کا پرتو ہے۔ ہر وہ شخص جو راہِ حق کا متلاشی ہو اور صراطِ مستقیم پر تاحیات پوری یکسوئی، دلجمعی، شرحِ صدر اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا چاہتا ہو اس کتاب سے مستفید ہوسکتا ہے ان شا اللہ۔ وہ اس میں فریضہ زندگی یعنی اقامتِ دین کی پہچان سے لے کر دین کا مزاج، دعوتِ دین کو لے کر اٹھنے والی تحریک کا مخصوص امتیازی طریق کار، اس کا لائحہ عمل اور نقشہ کار، پھر اقامتِ دین کے لیے جماعت کی اہمیت و ضرورت سے لے کر جماعتی زندگی میں بالعموم پیش آنے والی عملی مسائل اور ان کے بصیرت افروز حل بزبانِ قائدِ تحریک پائے گا۔
اس کتاب میں سید مودودیؒ کے لٹریچر سے ایک ترتیب و تدریج کے ساتھ لوازمہ مرتب کیا گیا ہے۔ حصہ اوّل میں یہ بات پیش نظر رہی ہے کہ قاری اسلام کی بنیادی دعوت اور اس کے جملہ تقاضوں کا فہم حاصل کرے، اور اسلام کی دعوت کو بخوبی سمجھ کر اور اچھی طرح سے پرکھ کر اس پر لبیک کہے۔
دعوتِ حق پر صدقِ دل سے لبیک کہنے کے بعد ایک فرد کی زندگی جامد و ساکت نہیں رہ سکتی۔ عموماً اس میں ایک تحریک پیدا ہوتی ہے۔ کتاب و سنت میں اس تحریک کی رہنمائی کیسے لی گئی ہے، حصہ دوم میں اس کی وضاحت کو شامل کیا گیا ہے۔ نیز یہ کہ کتاب و سنت کی اس روشنی میں سید مودودیؒ نے عصرِ حاضر میں جس تحریکِ اسلامی کی بنیاد ڈالی اس کی تاریخ و داستان بھی بزبانِ داعی قاری کو سنائی گئی ہے تاکہ راہِ حق کے پرانے ہم سفر اسے بھولنے نہ پائیں اور نئے ہم سفر بھی یہ جان لیں کہ اس تحریک کا آغاز کیسے، کن حالات میں، کن عزائم کے ساتھ، کن اصولوں کے پیش نظر اور کس طرزِ فکر سے کیا گیا تھا۔
پھر چونکہ یہ کام انفرادی حیثیت میں کرنے کا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے اجتماعی جدوجہد لازم ہے، لہٰذا حصہ سوم جماعتی زندگی کے قواعد و ضوابط سے بحث کرتا ہے۔ نیز اس حصے میں جماعتی زندگی کے عملی مسائل سے متعلقہ رہنمائی بھی شامل کردی گئی ہے۔
’’سامانِ سفر‘‘ کا تمام تر جوہر مولانا کی تحریروں، تقاریر اور انٹرویوز وغیرہ سے کشید کیا گیا ہے۔ مآخذ میں کچھ تو مولانا کی اپنی کتب ہیں، تاہم ان کی دعوتی نوعیت کی تقاریر زیادہ تر ’’روداد جماعت اسلامی‘‘ سے لی گئی ہیں۔ اس کتاب کی چھے جلدیں جماعت کے ابتدائی تشکیلی دور کے اہم اجتماعات کی کارروائی پر مشتمل ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا کی تحریر و تقریر کو مدون کرنے والے دیگر حضرات کے مجموعوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب کی تیاری اور اشاعت کا مقصد آج کے کارکنانِ تحریک تک دعوتی و تنظیمی تصورات اور روایات کو پہنچانا ہے۔ سیاسی حالات پر بحث اس کا بنیادی موضوع نہیں۔ تاہم قیام پاکستان سے پہلے کی مولانا محترم کی تحریروں میں سیاسی واقعات کے تذکرے کی اس قدر کاٹ چھانٹ بھی نہیں کی گئی کہ ان کی فرمائی گئی بات کا ابلاغ ہی ٹھٹھر کر رہ جائے۔
’’سامانِ سفر‘‘ کو خصوصیت کے ساتھ کارکنان اور ذمہ دارانِ تحریک کے لیے مرتب کیا گیا ہے تاکہ وہ راہِ حق کا یہ سفر پورے شعور و آگہی سے طے کریں۔ امید ہے کہ کتاب کا بنظر غائر مطالعہ انہیں وہ رہنمائی دے گا جس سے ان کا سفر آسان اور منزل روشن تر ہوجائے گی، ان شا اللہ۔ یہ مطالعہ انہیں ایک ایسا آئینہ فراہم کرے گا جس میں اپنا اور اپنے کام کے خدوخال کا مشاہدہ کیا جاسکے گا، شرط یہ ہے کہ خود احتسابی کی نگاہ سے اس پر غور و فکر کیا جاتا رہے۔
کتاب تین حصوں میں منقسم ہے۔ حصہ اول ”ہماری دعوت کیا ہے؟“ کے عنوان سے 9 ابواب ”دعوتِ اسلامی کے تین نکات“، ”انبیا علیہم السلام کا طریقِ کار“، ”ہمارا طریقِ کار“، ”ہماری تبلیغی پالیسی“، ”ہمارے پیش نظر کام کا نقشہ کار“، ”دعوت کا کام کرنے والوں کے اوصاف“، ”ہماری دعوت سے متاثر ہونے والوں میں اخلاقی تبدیلیاں“، ”اسلام کی دعوت اور مسلمانوں کا نصب العین“، ”راہ روپشت بمنزل“پر مشتمل ہے۔
حصہ دوم کا عنوان ہے ”دعوت…. تحریک کے قالب میں“۔ یہ حصہ ان سات ابواب پر مشتمل ہے:۔
اسلامی تحریک کا مخصوص طریق کار (اس طریق کار کی اہمیت، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا طریقِ آغاز، توحید کے تصور کی وسعت، کام کے آدمی چھانٹنے اور انہیں تربیت دینے کا فطری طریقہ، اسلامی دعوت پھیلنے کی وجوہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا غیر معمولی اثر)،تحریک ِ اسلامی کا ابتدائی سرمایہ، برصغیر میں تحریک ِ اسلامی کی اٹھان کے بارے میں دو خاص مضامین تحریک ِاسلامی اور دوسری تحریکوں کا اصولی فرق، تحریک ِ اسلامی میں خواتین کا کردار، جن غلطیوں سے کارکنان کو لازماً بچنا چاہیے، تحریک ِاسلامی کا تنزل۔
حصہ سوم ”تحریک ِاسلامی، تنظیم و تربیت کے مراحل میں“ کے زیرعنوان ہے۔ یہ حصہ 9 ابواب پر مشتمل ہے: ۔
تنظیم کے اصول، نظمِ جماعت کی ضرورت و اہمیت، جماعتی زندگی کی خصوصیات، جماعتی زندگی کے قواعد، افرادِ کار سے نظم کے مطالبات (حلقہ بہ حلقہ ہدایات)، ہمارے اجتماعات، مقامی کام، نظمِ جماعت کی اطاعت، اندرون جماعت عملی مسائل۔
محترمہ یاسمین حمید صاحبہ نے اپنی تحریر میں قرآن مجید کی ایک آیت کی طرف اشارہ اجمالی طور پر اشارہ کیا ہے، خیال ہوا اس کو مفصل کردیا جائے ،وہ لکھتی ہیں:۔
’’اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کوشش کو اپنے لیے خالص کرتے ہوئے بارآورکردے۔ تحریک اسلامی أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کی شان کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم رہیں۔ ذمہ دارانِ تحریک اس کی جڑوں کی مضبوطی پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں کہ یہ جس قدر گہری ہوں گی اس کا شجر طیب اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی قدر برگ و بار لائے گا‘‘۔
درج بالا تحریر میں سورہ ابراہیم کی آیات 24 اور25 کی طرف اشارہ ہے۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں اس کا ترجمہ اور تفہیم درج ذیل الفاظ میں کی ہے:۔
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں، ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ اس سے سبق لیں۔‘‘
کلمہ طیبہ کے لفظی معنی ’’پاکیزہ بات‘‘ کے ہیں۔ مگر اس سے مراد وہ قولِ حق ہے جو عقیدئہ صالحہ جو سراسرحقیقت اور راستی پر مبنی ہو۔ یہ قول اور عقیدہ قرآن مجید کی رو سے لازماً وہی ہوسکتا ہے جس میں توحید کا اقرار، انبیاء اور کتبِ آسمانی کا اقرار، اور آخرت کا اقرار ہو، کیونکہ قرآن انہی امور کو بنیادی صداقتوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین سے لے کر آسمان تک چونکہ سارا نظامِ کائنات اسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن اپنے کلمہ طیبہ میں کرتا ہے، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانونِ فطرت اس سے نہیں ٹکراتا، کسی شے کی بھی اصل اور جبلت اس سے ابا نہیں کرتی، کہیں کوئی حقیقت اور صداقت اس سے متصادم نہیں ہوتی۔ اسی لیے زمین اور اس کا پورا نظام اس سے تعاون کرتا ہے، اور آسمان اور اس کا پورا عالم اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔
مولانا نے کلمہ طیبہ کو اختیار کرنے کے نتیجے میں جو فوائد اور برکات ہوتی ہیں ان کو اس عمدگی سے بیان کیا ہے کہ اردو کے ادبِ عالیہ کا بہترین نمونہ بن گیا ہے۔
مولانا تحریر فرماتے ہیں: ۔
’’وہ ایسا بار آور اور نتیجہ خیز کلمہ ]کلمہ طیبہ[ ہے کہ جو شخص یا قوم اسے بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا نظام اس پر تعمیر کرے، اس کو ہر آن اس کے مفید نتائج حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ وہ فکر میں سلجھائو، طبیعت میں سلامتی، مزاج میں اعتدال، سیرت میں مضبوطی، اخلاق میں پاکیزگی، روح میں لطافت، جسم میں طہارت و نظافت، برتائو میں خوش گواری، معاملات میں راست بازی، کلام میں صداقت شعاری، قول و قرار میں پختگی، معاشرت میں حسنِ سلوک، تہذیب میں فضیلت، تمدن میں توازن، معیشت میں عدل و مواسات، سیاست میں دیانت، جنگ میں شرافت، صلح میں خلوص اور عہد و پیمان میں وثوق پیدا کرتا ہے۔
وہ ایک ایسا پارس ہے جس کی تاثیر اگر کوئی ٹھیک ٹھیک قبول کرلے تو کندن بن جائے‘‘۔
(تفہیم القرآن، جلد 2، ص 484)
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔