اسرائیل و امریکہ کی ایک دہائی سے جاری مربوط و منظم عسکری و سفارتی مہم کے نتیجے میں فلسطینی تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں، اور ان مظلوموں کی حالتِ زار سے مکمل آگاہی کے باوجود اسلامی ممالک سمیت دنیا ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ اعلان ابوظہبی کے بجائے واشنگٹن سے ہوا جسے صدر ٹرمپ نے ’معاہدۂ ابراہیم‘ قرار دیا ہے۔ یہ خبر کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز یا چشم کشا نہیں ہے، اور سفارتی سرگرمیوں سے صاف لگ رہا ہے کہ بحرین اور عمان بھی ایسا ہی فیصلہ کرچکے ہیں۔ 16 اگست کو بحرینی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں اطلاع دی کہ وزیراعظم شیخ خلیفہ بن سلمان الخلیفہ غیر ملکی دورے پر روانہ ہوگئے ہیں۔ اعلامیے میں وزیرِ باتدبیر کی منزل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا، لیکن خیال ہے کہ موصوف ’’مشورے‘‘ کے لیے اسرائیل یا مصر گئے ہیں، اور امریکی فوج کے پانچویں بحری بیڑے کا میزبان جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کرلے گا۔ اسی کے ساتھ عمانی وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ یوسف بن علوی نے فون کے ذریعے اپنے اسرائیلی ہم منصب جنرل گیبی اشکنازی سے ’مشرق وسطیٰ امن منصوبے‘ کے اہم نکات اور علاقے میں ہونے والی سفارتی پیش رفت پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔
اسرائیل و امریکہ کی ایک دہائی سے جاری مربوط و منظم عسکری و سفارتی مہم کے نتیجے میں فلسطینی تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں، اور ان مظلوموں کی حالتِ زار سے مکمل آگاہی کے باوجود اسلامی ممالک سمیت دنیا ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔ اہلِ غزہ و رام اللہ سے کہا جارہا ہے کہ اسرائیل جو دے رہا ہے اسے لے کر ہنسی خوشی رہنے پر تیار ہوجائو ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ مسلم دنیا میں فلسطینیوں کی حمایت میں کمی کا فائدہ اٹھاکر اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسلامی دنیا اسے قابض قوت کے بجائے ایک جائزومستند ریاست کا مقام عطا کردے۔
فلسطینی ملّت سکڑ کر غربِ اردن کے کچھ دیہات اور غزہ کی پٹی تک محدود ہوچکی ہے۔ غزہ کو کھلی چھت کا جیل خانہ کہنا بھی مناسب نہیں کہ دورِ جدید میں قیدیوں کو بجلی، پانی، صحت و صفائی اور خوراک کی جو سہولت حاصل ہے 18 لاکھ اہلِ غزہ اس سے بھی محروم ہیں۔ فلسطینیوں کو صرف اتنی سی سفارتی مدد حاصل ہے کہ اکثر مسلمان ممالک اسرائیل کو غاصب قرار دیتے ہوئے کم از کم زبان کی حد تک آزاد فلسطین کے حامی ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور معمول کے سفارتی تعلقات قائم ہوجانے کے بعد مظلوم فلسطینی تنکے کے اس سہارے سے بھی محروم ہوجائیں گے۔
اس سال 28 جنوری کو صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کیا تھا جس میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی ضمانت دی گئی تھی۔ معاہدے کی تیاری میں تنازعے کے دوسرے فریق یعنی فلسطین کو شریکِ مشورہ تو دور کی بات، اعلان سے پہلے اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے اسے غیر معمولی اور اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مجوزہ منصوبے میں فلسطین کے زیر انتظام علاقے میں بہت اضافہ کیا گیا ہے۔ اس موقع پر اسرائیل کے قائد حزبِ اختلاف بن یامین گینٹز کو صدرٹرمپ نے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔ انتخابات کے بعد اب مسٹر گینٹز مخلوط حکومت کے وزیر دفاع ہیں۔ مجوزہ منصوبے کے اہم نکات:
٭ فلسطینیوں کے کلیدی مطالبے ’’دو ریاستی فارمولے‘‘ کو تسلیم کیا گیا ہے۔
٭ دریائے اردن کے مغربی کنارے اور دوسری فلسطینی آبادیوں پر اسرائیلی اقتدار کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔
٭ گولان اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہوگا۔
٭ بیت المقدس بدستور اسرائیل کا دارالحکومت رہے گا۔
٭ بیت المقدس کے مشرقی مضافاتی علاقے میں فلسطین کا دارالحکومت قائم کیا جائے گا۔ مسجدِ اقصیٰ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔
٭ مجوزہ نقشے میں ننھا سا فلسطین ساری دنیا سے کٹا اور اسرائیل سے گھرا ہوا ہے۔
٭ غزہ بحر روم کے ساحل پر واقع ہے لیکن منصوبے کے تحت آبی آمدو رفت اس کے شمال میں اشدود بندرگاہ سے ہوگی جو اسرائیل کا حصہ ہے، یعنی اہلِ غزہ کی پانی تک رسائی اتنی ہی ہوگی کہ وہ اپنے گھر کی کھڑکیوں سے سمندر کا نظارہ کرسکیں۔
٭ دنیا سے فلسطین کا رابطہ رفح سے ہوگا جو مصر کے کنٹرول میں ہے۔ رفح گیٹ ایک عرصے سے مقفل ہے جس کی کنجیاں جنرل السیسی کے پاس ہیں۔
٭ فلسطین میں 15 اسرائیلی بستیاں بھی ہوں گی جو فلسطینیوں کی زمین پر آباد کی جائیں گی۔ ان آبادیوں کی حفاظت کے لیے اسرائیلی فوج تعینات ہوگی۔ اگر فلسطینی ٹرمپ پلان کو تسلیم کرلیں تو اسرائیل اگلے 4 برس تک کوئی نئی بستی تعمیر نہیں کرے گا۔
اس منصوبے کا آخری نکتہ معنی خیز ہے، یعنی فلسطینیوں کی مزید زمین ہتھیانے سے ’’پرہیز‘‘ کی مدت صرف چار سال ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ سب کو معلوم ہے۔ 181 صفحات پر مشتمل یہ دستاویز جسے صدر ٹرمپ نے ’ڈیل آف دی سنچری‘ قرار دیا تھا، امریکہ کے دامادِ اوّل جیررڈ کشنر نے تحریر فرمائی ہے۔ موصوف کو امارات اور سعودی عرب کے ولی عہد حضرات کا جگری دوست سمجھا جاتا ہے۔ یہ دونوں عرب شہزادے دنیا میں MBZ اور MBSکے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ دستاویز کا لبِ لباب یہ ہے کہ اگر فلسطینی جدوجہدِ آزادی کا سودا سر سے نکال دیں تو ان کے لیے دودھ و شہد کی نہریں بہہ سکتی ہیں۔ نقشے کے مطابق فلسطینیوں کی یہ جنتِ ارضی چند سو مربع کلومیٹر پر مشتمل ہوگی اور ساکنانِِ فردوسِِ زمیں کی ہلکی سی گستاخی پر اسے جہنم زار میں تبدیل کردیا جائے گا۔
فلسطینیوں کے شدید احتجاج کی بنا پر اس منصوبے کو پذیرائی نصیب نہ ہوئی اور خود سعودی عرب نے بھی اس پر کسی گرم جوشی کا اظہار نہ کیا، چنانچہ چند ماہ پہلے غربِ اردن کے مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کا اعلان ہوا۔ یعنی گاجر غیر مؤثر ہونے پر لاٹھی لہرا دی گئی۔ دروغ بر گردنِ راوی لاٹھی و گاجر کی رونمائی بارش کے پہلے قطرے کا نزول خوشگوار بنانے کے لیے تھی۔
متحدہ عرب امارات کے MBZ اسرائیل سے تعلق میں پہل کے لیے بھی ایک عرصے سے پرتول رہے تھے۔ اس کا آغاز کورونا وائرس سے متاثر فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان سے لدی اتحاد ائرویز کی تل ابیب کے لیے براہِ راست پرواز سے ہوا۔ گویا امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا آغاز ہوگیا۔ تاہم فلسطینیوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امدادی سامان قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مقتدرہ فلسطین کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فلسطینیوں کا کندھا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسی کے ساتھ اسرائیل نے عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کی کوششیں تیز کردیں اور تل ابیب سے اعلان کیا گیا کہ اِس سال کے اختتام سے پہلے غربِ اردن کے بڑے علاقے کو اسرائیل کا حصہ بنا لیا جائے گا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل کی حدود کو وادی اردن اور شمالی بحیرۂ مردار تک بڑھا دیا جائے گا، جسے انھوں نے ’نئی اسرائیلی مشرقی سرحد‘ کا نام دیا۔ ہتھیائے جانے والے علاقے کے صہیونی تشخص کو یقینی بنانے کے لیے یہ غیر مبہم اعلان بھی کردیا گیا کہ اسرائیل کا حصہ بننے والے علاقوں میں آباد فلسطینیوں کو اسرائیل کی شہریت نہیں دی جائے گی۔
الحاق کے اس فیصلے کی صدر ٹرمپ نے کھل کر حمایت کی، جبکہ ان کے حریف جوبائیڈن، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کی اشک شوئی کے لیے اس اعلان پر ’’شدید تشویش‘‘ کا اظہار کیا۔ الحاق کے اس فیصلے کے خلاف فلسطینیوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور محمود عباس نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر فلسطینیی زمینوں کو ہتھیایا گیا تو وہ اسرائیل سے ہونے والے تمام امن معاہدوں کو منسوخ کردیں گے، یا یوں کہیے کہ انھوں نے مسلح جدوجہد دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دے دیا۔ اسی دوران اسرائیل میں کورونا وائرس کی صورت حال خراب ہوگئی اور وزیراعظم کے خلاف بے ایمانی و بدعنوانی کے الزامات پر اعلیٰ عدالت میں ان کے خلاف سماعت کا آغاز ہوگیا۔ پہلی سماعت میں نیتن یاہو کی اصالتاً حاضری سے استثنا کی درخواست بھی مسترد کردی گئی، ساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ نے فردِ جرم کے جواب کی تیاری کے لیے ’ملزم‘ کو دسمبر تک کی مہلت کے ساتھ یہ بات بھی باور کرا دی کہ اگلے سال کے آغاز سے مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔
دوسری طرف امریکہ میں انتخابی مہم کا آغاز ہوا۔کورونا وائرس کے حوالے سے مایوس کن کارکردگی کی بنا پر صدر ٹرمپ دبائو میں آگئے، چنانچہ انھوں نے بین الاقوامی امور پر فیصلہ کن پیش رفت کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع کردی۔ اس ضمن میں چار بڑے تنازعات کھنگالے گئے جن میں ایران امریکہ کشیدگی، شمالی کوریا کا جوہری پروگرام، مشرق وسطیٰ امن منصوبہ اور افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا شامل ہیں۔
ایران کا معاملہ امریکہ اور اس سے بڑھ کر اسرائیل اور امریکہ کے خلیجی اتحادیوں کے لیے خاصا نازک ہے، اور سردمہری کی برف پگھلانے کے لیے تہران کو کسی بھی قسم کی رعایت سے آبگینوں کو ٹھیس لگ جانے کا خدشہ تھا۔ دوسری طرف شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے جوہری عزائم پر کسی بھی قسم کی بات چیت سے پہلے اپنے ملک کے خلاف پابندیاں ختم کرنے کی شرط عائد کردی ہے، اور وہ پابندیوں کے خاتمے سے پہلے بات چیت تو دور کی بات صدر ٹرمپ کا فون اٹھانے پر بھی تیار نہیں۔ چونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اس لیے ستاروں پر کمند ڈالنے کے بجائے جھکی ڈالیوں سے پھل توڑنے کی حکمت اختیار کی گئی۔
افغانستان میں ’مسٹر و مُلّا مفاہمت‘ کے لیے کوششیں تیز کردی گئیں، اور ٹرمپ انتظامیہ نے امداد بندکردینے کی دھمکی دے کر افغان حکومت کو طالبان قیدیوں کی رہائی پر آمادہ کرلیا۔ صدرٹرمپ کی خواہش ہے کہ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں افغانستان سے واپس آنے والے فوجیوں کا استقبال کرکے امریکی عوام کے سامنے خود کو ایک ایسا مدبر ر ہنما ثابت کریں جو sleepy Joe کے مقابلے میں انتہائی سرگرم ہے اور کئی دہائیوں پر محیط گنجلک و پیچیدہ تنازعات کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امارات اسرائیل مفاہمت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جیررڈ کشنر تحقیق و ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی عظیم الشان کامیابی کے قصے سنا کر عرب شہزادوں کو مسحور کرچکے ہیں۔ دامادِ اوّل کا کہنا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کی سلیکون ویلی یا بنگلور ہے۔ اسرائیل سے دوستی کے نتیجے میں ان کے تپتے صحرا گل و گلزار میں تبدیل ہوجائیں گے اور غلہ درآمد کرنے والے خلیجی ممالک ایشیا اور افریقہ کو خوراک فراہم کریں گے۔ فرسودہ نظام و طریقہ تعلیم کی جگہ اسرائیل کے جدید ترین نصاب سے عرب دنیا میں علم و دانش کا وہ عظیم الشان انقلاب برپا ہوگا جو پسماندہ عربوں کو ایک بار پھر دنیا کا امام بنادے گا۔ ان سب سے بڑھ کر خلیجی رہنمائوں پر ایران کا خوف طاری ہے۔ اسرائیل کی عسکری صلاحیتوں اور موساد کی سراغ رسانی استعداد سے عرب امرا اور سلاطین بے حد متاثر ہیں، اورانھیں یقین ہے کہ تعلقات کے بعد اسرائیل دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ایران کے خلاف عربوں کا مؤثر دفاع کرے گا۔
اسی کے ساتھ اَنا کی تسکین اور کامیاب سفارت کاری کا تاثر دینے کے لیے پہلے تو اسرائیل کو الحاق کا فیصلہ مؤخر کرنے پر راضی کیا گیا، اور دوسری طرف MBZ سے کہا گیا کہ وہ سفارتی تعلقات کے لیے الحاق کا فیصلہ منسوخ کرنے کی شرط عائد کردیں۔ صدر ٹرمپ کی ثالثی میں امارات کی شرط اسرائیل تک پہنچادی گئی اور نیتن یاہو نے اس پر جزوی رضامندی ظاہر کردی۔ چنانچہ فلسطینیوں کے لیے ’’زبردست رعایت‘‘ کے عوض امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اور بات کہ فیصلے کے خیرمقدم کے لیے تل ابیب بلدیہ کی عمارت پر روشنیوں سے امارات کا قومی پرچم لہراتے ہوئے نیتن یاہو نے صاف صاف کہہ دیا کہ فلسطینی علاقوں کے الحاق کا فیصلہ منسوخ نہیں بلکہ ملتوی کیا جارہا ہے۔ جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ کیا منصوبہ منجمد کیا جارہا ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں، لیکن یہ انجماد وقتی ہے۔
اس کی مزید وضاحت 13 اگست کو واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کی اخباری کانفرنس کے دوران ہوئی جب صدر نے امارات کے اس فیصلے کو مشرق وسطیٰ امن کے لیے شاندار پیش رفت قرار دیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ ان کے پیشرو قائدانہ صلاحیتوں سے محروم تھے، لیکن انھوں نے اس تنازعے کے تمام فریقین کو ایک ایسے معاہدے پر متفق کردیا ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ فلسطینیوں کو ہوگا، امارات کے جرأت مندانہ اقدام سے فلسطینی علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کا معاملہ داخلِ دفتر ہوگیا ہے اور انھیں یقین ہے کہ باقی عرب اور مسلمان ممالک MBZ کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے تعلقات معمول پر لے آئیں گے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینی زبان سے نہیں کہتے لیکن وہ بھی دل سے یہی چاہتے ہیں۔ جب ان سے ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا اسرائیل الحاق کا فیصلہ منسوخ کرنے پر رضامند ہوگیا ہے؟ تو وہاں موجود اسرائیل میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ فریڈ مین نے بہت صراحت سے کہا ’’الحاق کا فیصلہ منسوخ نہیں بلکہ وقتی طور پر ملتوی کیا گیا ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کے لیے امارات کو الحاق کا شوشا اٹھانے کی ضرورت کیا تھی؟ قطر کے سوا تمام کے تمام خلیجی ممالک اسرائیل کو غیر مشروط طور پر تسلیم کرنے کے پُرجوش حامی ہیں۔ اماراتی حکمرانوں کو ملک میں کسی ردعمل کا خوف نہیں، نہ ہی علاقے میں کسی مشکل کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’موذیوں‘‘ کا منہ بند کرنے کے لیے الحاق کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے، یعنی اسرائیل سے مہر ومحبت کا اظہار فلسطینیوں کی خاطر ہے۔ اب الحاق کے فیصلے کو مزید مؤخر کرنے کا جھانسہ دے کر دوسرے خلیجی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ فلسطینیوں سے ہمدردی کی آڑ میں پاکستان سمیت غیر عرب مسلم ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے لیے آمادہ کیا جائے گا، جس کے بعد فلسطینیوں کو پیشکش کی جائے گی کہ اگر وہ ہتھیار رکھنے پر رضامند ہوجائیں تو الحاق کا فیصلہ یکسر منسوخ کیا جاسکتا ہے، یعنی چند سو مربع کلومیٹر اراضی کے عوض سارے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو قانونی شکل دے دی جائے گی۔اس پورے معاملے پر انتہائی دردناک تبصرہ حماس کے ترجمان کا ہے، جن کا کہنا تھا کہ ’’1977ء میں انوارالسادات نے ہماری پشت میں جو چھرا گھونپا تھا اب اس کی نوک ہمارے دل و جگر تک پہنچ چکی ہے‘‘۔
مشرق وسطیٰ کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امارات کے بعد عمان اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، جبکہ سوڈان کی فوجی جنتا وزیراعظم ڈاکٹر عبداللہ حمدوک پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے لیے دبائو ڈال رہی ہے۔ خیال یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب بہت دیر تک مزاحمت نہیں کرپائیں گے۔ سعودی عرب اور کویت چاہتے ہیں کہ اب کچھ ’غیرعرب‘ مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ MBSکی خواہش ہے کہ اس ’’کارِِخیر‘‘ کے لیے پاکستان اور ملائشیا آگے آئیں۔ ملائشیا اس پر فی الحال آمادہ نظر نہیں آرہا۔ پاکستان کو رضامند کرنے کے لیے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ریاض طلب کیا گیا ہے۔ سعودیوں کو معلوم ہے کہ عوامی غیظ و غضب کے پیش نظر سول انتظامیہ کے لیے یہ فیصلہ ممکن نہیں، اور اس حوصلے کی توقع جرنیلوں ہی سے کی جاسکتی ہے۔
کہا تو یہ جارہا ہے کہ گزشتہ دنوں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے حوالے سے سعودی رویّے پر جس مایوسی کا اظہارکیا تھا اس پر ریاض سخت برہم ہے اور باہمی تعلقات میں آجانے والی سلوٹوں کو ہموار کرنے کے لیے جنرل صاحب سعودی عرب تشریف لے گئے ہیں، لیکن پیغامِ زبانی کچھ اور نظرآرہا ہے۔
…………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔