ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی طرزِ حکمرانی کا ایک مظہر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بلدیاتی نظام کی تباہی بھی ہے۔ گزشتہ دنوں سرکاری زمینوں پر قبضے، سرکلر ریلوے کی بحالی، کے الیکٹرک کی کارکردگی کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ نے چند مقدمات کی سماعت کی تھی۔ عدالتِ عظمیٰ کی ان سماعتوں میں معزز جج صاحبان نے جو تبصرے کیے تھے وہ صوبائی حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سربراہ اور اس کے اداروں کے خلاف ایک فردِ جرم تھی۔ حسبِ توقع حالات میں بہتری کی کوئی امید نہ تھی۔ سو عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کے تلخ تبصروں کا بھی کوئی اثر نظر نہیں آتا، البتہ کراچی پر کنٹرول کے نام پر پرانی جنگ نئے مرحلے میں داخل ہوتی نظر آرہی ہے، اور وفاق اور صوبے کی کش مکش کا نام دے کر شہر کی تباہی کے ذمے دار اس کی آڑ لے رہے ہیں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، ایک زمانے میں واحد بندرگاہ تھی جس کے واسطے سے عالمی بحری تجارتی گزرگاہ سے یہ ملک جڑا ہوا تھا۔ کبھی یہ پاکستان کا پہلا دارالحکومت تھا۔ دارالحکومت اسلام آباد چلے جانے کے باوجود اس شہر کو اقتصادی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ آج اس شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، ہر خطے سے تعلق رکھنے والوں کی وجہ سے اس شہر کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ’’پین اسلامزم‘‘ کے تصور کے وارثوں کے ملک کو علاقے اور زبان میں تقسیم کردیا گیا۔ وہ ملک جو ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ کے نعرے کی بنیاد پر قائم ہوا، جس نعرے نے پشاور سے لے کر کلکتہ تک کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا، وہاں لسانی، صوبائی اور علاقائی تعصبات کے نعرے مسلمانوں کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ لسانی، صوبائی اور علاقائی تقسیم کراچی کی تباہی کے اہم اسباب میں سے ایک ہے۔ کراچی کے بلدیاتی اور شہری انفرااسٹرکچر کی بحالی سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ لیکن اب یہ بحران انتہائی پے چیدگی اختیار کرگیا ہے۔ اس بحران کے جو کردار ہیں وہی اس کے اصل ذمے دار ہیں۔ کراچی کے بحران کی پے چیدگی کا ایک مظہر یہ ہے کہ وزیراعظم نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور فوج کو کراچی کے برساتی نالوں کی صفائی کے لیے بھیج دیا۔ اس فیصلے کے بعد سے وفاق، صوبے اور کراچی سے تعلق رکھنے والی تین جماعتوں کے درمیان نئی کش مکش شروع ہوگئی ہے۔ ایم کیو ایم کبھی بلاشرکتِ غیرے کراچی کی نمائندگی کرتی تھی اب اس میں نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی شریک ہوچکی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عمران خان نے تبدیلی کا جو نعرہ لگایا تھا اس کی پذیرائی انہیں خیبر پختون خوا کے بعد سب سے زیادہ کراچی میں ملی تھی، اور انتخابی دائرے میں پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم کو ہزیمت دی تھی، لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اب ایم کیو ایم تحریک انصاف کی اتحادی اور پیپلزپارٹی کی مخالف ہے، جبکہ اس سے قبل پیپلزپارٹی کی دو مسلسل صوبائی حکومتوں میں اتحادی رہی ہے۔ نئی حکومت قائم ہوئے دو سال ہوگئے ہیں۔ خود عمران خان اس شہر سے منتخب ہوئے تھے، لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر انہوں نے کراچی سے اپنی رکنیت برقرار نہیں رکھی۔ صدرِ مملکت عارف علوی بھی اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان دو برسوں میں وفاقی حکومت بھی اس شہر کے مسائل کے حل کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیں کرسکی۔ اس دوران میں وفاقی مداخلت کی بہت افواہیں گردش کرتی رہیں، گورنر راج کی افواہیں بھی سامنے آئیں، اسی تناظر میں ذرائع ابلاغ نے مصدقہ ذرائع سے یہ خبر جاری کی کہ 13 اگست کو اسلام آباد میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دو وزرا کے ہمراہ ایک اہم شخصیت سے ملاقات کی جس میں پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے ساتھ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ جنرل افضل بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں یہ فیصلہ ہوا کہ کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے وفاق اور سندھ مل کر کام کریں گے، بعد میں وزیراعلیٰ کی سربراہی میں تینوں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ اس خبر سے کراچی کے شہریوں کو یہ اطمینان ہوا کہ تباہ حال بلدیاتی انفرااسٹرکچر کی بحالی شروع ہوگی۔ لیکن وزیراعلیٰ سندھ نے اچانک تردید کردی ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کوئی کمیٹی بنی ہے۔ انہوں نے انتہائی جارحانہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کسی کے دماغ میں کوئی فتور ہے تو نکال دے، آئینی اختیارات کسی سے شیئر نہیں کروں گا۔ کمیٹی بننے کی بات ہوئی ہے، کوئی معاہدہ نہیں ہوا، کمیٹی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کی کمیٹی نہیں ہوگی۔ سندھ دھرتی ہماری ماں ہے اور جو ہماری ماں کے ٹکڑے کرنے کی بات کرے گا ہم سب اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ ہم تو چاہتے ہیں وفاق کراچی کو اپنائے، مگر یہاں تو سندھ کے ٹکڑے کرنے کی بات کی جارہی ہے‘‘۔
کراچی کے شہریوں کو بلدیاتی و شہری مسائل کے حل کے لیے تینوں جماعتوں کے اتفاق کی جو خوش خبری ملی تھی وہ چند دن بھی برقرار نہیں رہی۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان کش مکش کوئی ناپسندیدہ بات نہیں ہے، لیکن اسے لسانی اور علاقائی تقسیم کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ کراچی کی تباہی کی حقیقی ذمے داری ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی دونوں پر عائد ہوتی ہے، اب اس میں تحریک انصاف بھی شامل ہوگئی ہے، وفاق میں حکومت کے باوجود اس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی صوبائی خودمختاری کے حق میں بجا بات کررہی ہے لیکن اس نے 18 ویں ترمیم کی روح سے گریز کرتے ہوئے شہری اور بلدیاتی نظام کے اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ کراچی کا مسئلہ تو سب کے سامنے آگیا ہے، لیکن حیدرآباد، نواب شاہ، لاڑکانہ اور سکھر جیسے شہروں کا بھی برا حال ہے۔ شہری اور بلدیاتی مسائل ایک مضبوط، فعال اور خودمختار بلدیاتی، شہری اور مقامی حکومت کی ضرورت کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے شہریوں کو انتشار اور تقسیم کے عذاب میں بھی مبتلا کررہی ہیں۔