عظیم کساد بازاری اور سرد جنگ کے درمیان دنیا بھر میں نیولبرل ازم کی بڑبڑاہٹ سی سنائی دیتی رہی، کہ معاشی ترقی ہمیں ہرچیز سے محفوظ و مامون بنادے گی۔ مگر 2008ء کے معاشی بحران کے بعد ایسے مؤرخین کی تعداد میں اضافہ ہوا جو نئی اصطلاح”fossil capitalism” یعنی قدرتی ایندھن کی سرمایہ داری پر بات کررہے ہیں، اُنھیں یقین ہے کہ تیز رفتار معاشی ترقی کی وجوہات ایجادات، تجارت، یا عالمی سرمایہ داری نہیں ہیں بلکہ ’’قدرتی ایندھن‘‘ کی دریافت ہے، جس کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا۔ قدرتی ایندھن سے پہلے کسی فرد کی زندگی ماں باپ یا اُن کے والدین کی زندگی سے کچھ بہتر یا مختلف نہ تھی، پانچ سوسال پہلے انسانی حالات قریب قریب ایک جیسے تھے۔ یہ دانشور کہتے ہیں کہ جب ہم سارا قدرتی ایندھن جلا چکے ہوں گے، تب شاید ہم میانہ معاشی روش کی جانب لوٹ جائیں گے۔ یہ سب کچھ ’’بدلتے موسم‘‘ کے سبب ہوگا۔
موسمی حدت کے معیشت پر اثرات کی سب سے دلچسپ تحقیق Hsiang اور اُس کے ساتھیوں کی جانب سے سامنے آئی، جوfossil capitalismکے مؤرخین نہیں ہیں، مگر ایک بہت ہی منفرد تجزیہ پیش کرتے ہیں: گرمی کا ہر سیلسیئس ڈگری جی ڈی پی کے1.2فیصد پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ خاصی چونکا دینے والی بات ہے۔ یہ تحقیق کہتی ہے کہ رواں صدی کے آخر تک معاشی نقصان کی یہ شرح پرکیپیٹا 23 فیصد پر چلی جائے گی۔ یہ نتیجہ ہوگا زراعت کے بگڑتے حالات کا، بڑھتے جرائم کا، اور بے تحاشا مشقت کا۔ دیگر حقائق اور بھی تلخ ہوسکتے ہیں: اس بات کا 12 فیصد امکان ہے کہ 2100ء تک موسمی تبدیلی عالمی پیداوار 50 فیصد تک گھٹادے۔ یہ محققین کہتے ہیں کہ صدی کے آخر تک معاشی انحطاط 8 گنا بڑھ سکتاہے۔
اُس معاشی تباہی کا فہم بہت مشکل ہے، لیکن آپ اس تصور سے آغاز کرسکتے ہیں کہ عالمی معیشت کا حجم نصف رہ جائے گا، ہر شے نصف قدر پر آجائے گی، اور محنت کشوں کے لیے آج کی آمدنی کا نصف باقی رہ جائے گا۔ ساری کاروباری شماریات کسی بھی حل کے لیے محض کارِ زیاں بن کر رہ جائے گی۔ نیویارک سے لندن کا راؤنڈ ٹرپ آرکٹک کے سفرکی قیمت پر ممکن ہوپائے گا۔
زہریلے سمندر
سمندر قاتل بن جائیں گے۔ کاربن کے اخراج میں انقلابی کمی بھی سمندروں کی سطح کو4 فٹ بلندی پر جانے سے نہیں روک سکے گی، رواں صدی کے آخر تک یہ بلندی 10 فٹ تک چلی جائے گی۔ دنیا کے ایک تہائی بڑے شہر ساحلوں پر بستے ہیں، ان کے پاور پلانٹس، بندرگاہوں، بحری اڈوں، اور فشریز وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا! ستم بالائے ستم یہ کہ آج کم از کم 60 کروڑ انسان سمندر سے محض 10میٹر دوری پر آباد ہیں۔ ان شہروں کا ڈوبنا بھی بس ابتدا ہی ہوگی۔ اس وقت دنیا کی ایک تہائی سے زائد کاربن سمندر میں جذب ہوچکی ہے، اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو نہ جانے اس وقت خشکی پر حدت کی کیا شرح ہوتی! مگر اس کا نتیجہ بھی ’’سمندری تیزابیت‘‘ (ocean acidification)کی خوفناک صورت میں نکلا ہے۔ یہ تیزابیت جگہ جگہ سمندری ذخیروں کو جلارہی ہے۔ یہ زرخیز ذخیرے سمندری حیات کے بڑے حصے کی نشوونما کرتے ہیں اور نصف ارب انسانوں کے لیے خوراک مہیا کرتے ہیں۔ سائنس دان اس بارے میں پُریقین نہیں ہیں کہ آیا یہ تیزاب زدہ سمندری خوراک انسانی زندگی کے لیے کس قدر مضر ہے!
تیزابی سمندروں کے صرف یہی مضر اثرات نہیں ہیں، کاربن کا انجذاب ایک ایسا مسلسل ردعمل پیدا کرسکتا ہے کہ جس سے آکسیجن کی متواتر کمی ہوسکتی ہے، جو سمندر کی تہ سے بتدریج سطح سمندر تک آبی حیات کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ یہ وہ عمل ہوگا جس میں ’کینسر زون‘ تشکیل پائیں گے، اور فشریز کا خاتمہ شروع ہوجائے گا، یہ پہلے ہی خلیج میکسیکو اور نمیبیا کے پانیوں میں نمایاں ہوچکا ہے، جہاں ہائیڈروجن سلفائید بلبلے چھوڑ رہا ہے۔ یہ ہزار میل تک پھیلی ہوئی زمین سے منسلک ہے جسے “Skeleton Coast”کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہائیڈروجن سلفائیڈ اس قدر زہریلا ہے کہ سمندروں میں موجود لاکھوں کروڑوں سال پرانی انواع کوہلاک کررہا ہے، اور جو گیس یہ زہریلے سمندر فضا میں چھوڑ رہے ہیں، ہرشے زہریلی بنارہے ہیں۔
’’فنا‘‘ کی چھلنی
ہم یہ سب کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ طویل مضمون The Great Derangementمیں بھارتی ناول نگارامیتاو گھوش اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ عالمی حدت اور قدرتی تباہ کاری اب تک موجودہ ادب کا مرکزی موضوع کیوں نہیں بن سکے ہیں؟ ہم کیوں موسمی تباہی متصور کرنے کے قابل نہیں ہوسکے؟ اب تک اس موضوع پر ناولوں کی قطار لگ جانی چاہیے تھی۔ ایسا شاید اس لیے نہیں ہے کہ ناول نگاری میں ہم ذاتی احساسات منعکس کرتے ہیں، اور معاشرتی مقدر پر نظر کرنا بھول جاتے ہیں۔ یقیناً یہ اندھا پن زیادہ دیر نہیں چل سکے گا، کیونکہ وہ دنیا جس میں ہم مستقبل گزارنا چاہتے ہیں اس بات کی اجازت نہیں دے گی۔ 6 درجہ اضافی گرمی کے ساتھ یہ دنیا قدرتی تباہ کاریوں کی زد میں آجائے گی۔ یہ وہ صورتِ حال ہوگی کہ جسے ہم آغاز میں معمول کا ’’موسم‘‘ پکاریں گے: طوفانوں کا متواتر برپا ہونا، بارشوں اور سیلاب کا سلسلہ، قحط کا سلسلہ، اور ایسے بہت سے نامعلوم موسمی اثرات کہ جن کے بارے میں فی الوقت یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ طاقت ور سمندری طوفان اکثر آئیں گے، اور ہمیں ان کی نئی کیٹگریز بنانی ہوں گی۔
بہت سارے لوگ ’موسمی تبدیلی‘ کوصنعتی انقلاب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، جو اب کئی صدیوں بعد عفریت بن کر نمودار ہوچکا ہے، یہ اس مسئلے کی تفہیم کے لیے مددگار تناظر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اٹھارہویں صدی کے انگلینڈ میں کاربن کا دھواں اٹھنا شروع ہوا، جو پھر ہر طرف اٹھتا نظر آیا۔ لیکن نصف سے زائد وہ کاربن جو انسانیت ماحول میں داخل کرچکی ہے، گزشتہ چند دہائیوں کے اخراج کا نتیجہ ہے۔ صرف ایک نسل کی زندگی میں کاربن ہماری زمین کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ یوں صنعتی دنیا کے ’’کامی کازی مشن‘‘ نے ایک ہی زندگی میں تباہی کی کہانی رقم کردی ہے۔
وہ سائنس دان جو بدلتے موسم سے خبردار کرتے رہے، اُن میں سے چند آج بھی زندہ ہیں۔ مثال کے طور پر ویلی بروئیکر یقین رکھتے ہیں کہ محض کاربن کے اخراج میں کمی سے تباہی سے گریز ممکن نہیں، اس کے لیے ’’کاربن کو پکڑنا‘‘ (carbon capture)ہوگا، یعنی فضا سے کاربن کوخارج، کشید، یا الگ کرنا ہوگا۔ کوئی ایسی ٹیکنالوجی درکار ہے جو یہ کام کرسکے۔ جو بوئیکرکے خیال میں یہ کئی کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری سے شاید ممکن ہو، اور اس کے لیے ’’جیو انجینئرنگ ‘‘میں اعلیٰ مہارتوں کی ضرورت ہوگی۔ تاہم یہ باتیں فی الحال ماحولیاتی ماہرین کے لیے خواب اور سائنس فکشن سے زیادہ نہیں۔ ویلی بروئیکرaerosol طبعی کیمیا پربہت زور دیتا ہے، اُس کا خیال ہے کہ فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کا پھیلاؤ مفید ہوسکتا ہے۔
جیمس ہینسن ایک اور اہم نام ہے، وہ یونیورسٹی آف آئیوا کا ماہر ماحولیات تھا۔ اُس نے موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ’’زیرو ماڈل‘‘ متعارف کروایا تھا، اور بعد میں ناسا میں موسم کی تحقیق کا سربراہ بنادیا گیا تھا، مگر جب اُس نے وفاقی حکومت کے خلاف ’’بے عملی‘‘ پر قانونی چارہ جوئی کی، تو اسے شدید دباؤ کا شکار کردیا گیا۔ اس دوران اُسے کئی بار گرفتارکیا گیا، جیل میں بند کیا گیا۔
جیمس ہینسن کی تحقیق کہتی ہے کہ سیارہ زہرہ پربھی پہلے زمین جیسی ماحولیاتی صورت حال تھی، زندگی سے بھرپور پانی کی وافر مقدار یہاں موجود تھی، مگر بدلتے موسم نے تیزی سے اسے ناقابلِ بودو باش بنادیا، یہاں کی فضا میں ایک ایسی گیس پھیل گئی کہ زندگی ممکن نہ رہی۔ اب یہی صورتِ حال کرۂ ارض پر بھی شروع ہونے جارہی ہے۔
میں نے اکثر سائنس دانوں سے جب اس مسئلے ’ماحولیاتی تبدیلی‘ کا حل جاننا چاہا، پوچھا کہ اتنی بڑی کائنات میں کیا کہیں زندگی کے آثار موجود نہیں؟
جواب یہ آیا کہ فطری تہذیب کی عمر کا دورانیہ ہی شاید ہزاروں سال پر مشتمل ہوتا ہے، اور صنعتی زندگی میں یہ دورانیہ چند صدیوں پر سمٹ آتا ہے۔ وہ کائنات جو اربوں سال قدیم ہے، اور زمان و مکان کے لمبے فاصلوں پر محیط ہے، اس سے پہلے کہ کوئی اُس کے اجرام تک رسائی حاصل کرے، شاید تہذیبیں تیزی سے پیدا ہوکر فنا بھی ہوجاتی ہیں۔ زمین پر جب بھی فنا کا دور آیا ہے، اس بڑی ماحولیاتی چھلنی نے تیزی سے زندگی کا خاتمہ کیا ہے۔ ہمارے عہد کا خاتمہ بھی آچکا ہے، ابتدا ہوچکی ہے۔
تاہم جتنے سائنس دانوں سے میری بات ہوئی ہے، وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ’’بدلتے موسم‘‘ کو الٹے قدموں پھیرنے کے لیے کوئی نہ کوئی رستہ نکال لیں گے، کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔