قافلے اجالوں کے (شخصی خاکے)۔

اردو ادب میں خاکہ نگاری کی حیثیت باقاعدہ ایک صنف کی ہے۔ اس موضوع پر درجنوں کتابیں، نئی اور پرانی موجود ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے سوانحی خاکوں کی ایک کتاب ’’چند ہم عصر‘‘ تحریر کی تھی۔ اس کا شمار آج بھی اس موضوع کی بہترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ ایک خاکے کی ابتدا میں مولوی صاحب نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے‘‘۔ سوانحی خاکہ درحقیقت انسان ہی کے مطالعے کا نام ہے۔ انسان کا اصل شرف اس کا اخلاق و کردار ہے، جس انسان میں یہ محاسن جتنے زیادہ ہوں گے اس کا سوانحی خاکہ اتنا ہی متاثر کن ہوگا۔
’’قافلے اجالوں کے‘‘ ڈاکٹر محمود احمد کاوش کے تحریر کردہ 21 سوانحی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ بلامبالغہ یہ اردو کے سوانحی خاکوں کے ذخیرے میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد کاوش جو اصلاً ایک استاد، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ استادوں کے استاد ہیں، ٹیچرز ٹریننگ کالج کے پرنسپل کو استادوں کا استاد نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے! ڈاکٹر محمود احمد کاوش کا نام ادب کی دنیا میں شاید زیادہ معروف نہ ہو، لیکن کسی فن کار یا تخلیق کار کی حیثیت کے تعین کا یہ پیمانہ ہرگز نہیں کہ وہ کس قدر معروف یا مشہور ہے۔ ایک تخلیق کار کی حیثیت کا تعین اُس کے فن پاروں کے معیار پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک مصنف کا کمال کیا ہے؟ ٹالسٹائی نے اپنی کتاب’’آرٹ کیا ہے‘‘؟ میں اس سوال کا جواب اس طرح دیا ہے کہ اس سے بہتر جواب ممکن نہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک مصنف جو کچھ محسوس کرے اسے اسی شدت اور احساسِ جامعیت کے ساتھ لفظوں کی گرفت میں لے آئے اور پڑھنے والا اسے پڑھے تو اس کے اندر وہی شدتِ احساس اور اثر پیدا ہو جو لکھنے والا پیش کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو زبان و بیان پر ایسی قدرت حاصل ہے کہ وہ قلمی تصویر کو اس طرح واضح کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کے ذہن کے پردے پر وہ تصویر اس طرح نمودار ہوتی ہے کہ گویا وہ مجسم ہوکر ہمارے اردگرد ہی کہیں موجودہے۔ اور یہی خاکہ نگار کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ سوانحی خاکہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے تکلف اور تصنع کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ کامیاب خاکے کا حسن اور شگفتگی بے ساختہ پن سے جڑی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد کاوش کی تحریر اس معیار پر پوری اترتی ہے۔ ان کے طرزِ تحریر کی دل کشی کا اصل سبب ان کے اندازِ بیان میں موجود بلا کی بے ساختگی اور روانی ہے۔
اس مجموعے میں پہلا خاکہ بعنوان ’’سایہ جو ایک ابر کا سر پر نہیں رہا‘‘ ان کی والدہ محترمہ کے احوال پر مبنی ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی والدہ کا سوانحی خاکہ ’’ماں جی‘‘ تحریر کیا ہے۔ ادبی لحاظ سے یہ اس درجہ اعلیٰ اور متاثر کن تحریر ہے کہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ شہاب صاحب اس کے سوا کچھ بھی نہ تحریر کرتے تب بھی صرف یہ ایک تحریر ادب کی دنیا میں ان کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی والدہ کا جو خاکہ تحریر کیا ہے اس کے لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ خاکہ اپنی نوعیت اور ادبیت کے اعتبار سے شہاب صاحب کے تحریر کردہ خاکے ’’ماں جی‘‘ کے فنی مقام سے قریب تر ہے۔ انگریزی الفاظ کے بے دریغ اور بلاضرورت استعمال کا چلن آج کل بہت عام ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اس روش سے اجتناب کرتے ہیں۔ والدہ کے خاکے میں انھوں نے لفظ ’’تکمیلیت پسند‘‘ استعمال کیا ہے جس نے بڑا لطف دیا ہے، ورنہ ہمارے ہاں تو اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے انگریزی لفظ Perfectionist ہی استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان خاکوں کے ذریعے اسلامی اخلاق و کردار کے ایسے چراغ روشن کیے ہیں جن کی روشنی میں ایک ہمہ گیر تہذیب کی تعمیر ہوسکتی ہے۔
دوسرا خاکہ بہ عنوان ’’ناز پرور لہلہاتی کھیتیوں کا بادشاہ‘‘ ان کے والد کے احوال پر مبنی ہے جس میں انھوں نے ایک سعیدالفطرت کسان کے حالات بیان کیے ہیں جس کی زندگی محنت اور دیانت سے عبارت تھی۔ یہ تحریر اس حقیقت کی تفہیم کرتی ہے کہ انسانی فطرت میں سلامتی اور خیر بالقوہ موجود ہے۔ جو اس کی قدر اور نگہداشت کرتا ہے وہ اعلیٰ انسانی اوصاف سے حصہ پاتا ہے۔ جو غفلت اور ناقدری کرتا ہے وہ اس جوہر میں کمی کے باعث سعادت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس خاکے کا عنوان ’’ناز پرور لہلہاتی کھیتیوں کا بادشاہ‘‘ بڑا لاجواب ہے۔ اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہے۔ ان دونوں خاکوں میں دیہی زندگی کی ایسی منظرکشی کی گئی ہے جس کا جواب نہیں۔ لیکن اس کی تحسین وہی لوگ کرسکتے ہیں جو دیہاتی پس منظر رکھتے ہوں۔
ڈاکٹر صاحب چوں کہ اعلیٰ شعری ذوق رکھتے ہیں، لہٰذا وہ برمحل اشعار کا استعمال کرکے تحریر کے حسن کو دوبالا کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے اساتذہ کے خاکے بھی تحریر کیے ہیں، جن میں ’’ماسٹر جی۔ امانت اللہ صاحب‘‘ کاخاکہ بہت خوب ہے۔ ان کا حال پڑھ کر طبیعت پر جو اثر قائم ہوتا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ کیسے نادر الوجود لوگ تھے جن سے دنیا سے خالی ہوگئی۔

وہ لوگ جو اہلِ کمال تھے، وہ کہاں گئے
جو اپنی مثال آپ تھے، وہ کہاں گئے

ڈاکٹرصاحب کی خوش قسمتی ہے کہ ایسے اساتذہ انھیں نصیب ہوئے۔ ایک نامور بیوروکریٹ ڈاکٹر محمد صالح طاہر کا خاکہ لکھ کر ڈاکٹر صاحب نے پوری قوم پر اس پاکیزہ خصلت شخص کا قرض اتارا ہے، جس کی پوری زندگی ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے اللہ ہی کو اپنا رب مانا اور اس پر قائم رہے‘‘ کے مصداق تھی۔ ایسا شخص جس کی زندگی کا ہر لمحہ ’’عبودیتِ رب‘‘ سے عبارت ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک قومی قرض اور فرض ہی نہیں ادا کیا بلکہ اس کے ساتھ امید اور حوصلے کی ایک ایسی شمع بھی روشن کی ہے جو ایسے اہلِ حکم کے لیے، جن کے اندر خیر اور سلامتی تو موجود ہے لیکن حوصلہ اور ہمت نہیں، امید کا سامان ثابت ہوسکے گی۔
طوالت مانع نہ ہوتی تو حق تو یہ ہے کہ ہر خاکہ تعارف کے لائق ہے، لیکن اختصار کے پیش نظر بقیہ خاکوں کے متعلق اتنا کہنا کافی ہے کہ ہر خاکہ اپنی جگہ انتخاب ہے۔ ڈاکٹر خیال امروہوی اور محمد خان کلیم کے حالات پڑھ کر دل بیٹھ گیا اور طبیعت اداس ہوگئی۔ اپنی قومی اور معاشرتی بے حسی پر رونا آتا ہے کہ کیسے کیسے علم کے کوہِ گراں کی کیسی ناقدری کی گئی۔ ان کے ساتھ کیسا بے رحمانہ سلوک رکھا گیا۔ ایسی قوم کیوں کر ترقی کرسکتی ہے جو اہلِ علم کی ناقدری بلکہ توہین کرتی ہو! صرف ایک خاکہ ایسا ہے جس کے احوال مختصر ہونے کے باعث ایک طرح کی تشنگی کا احساس باقی رہتا ہے ۔ وہ خاکہ بابا محمد یحییٰ خان کا ہے۔یہ ایک دلچسپ اور سبق آموز کتاب ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب اس قدر عمدہ ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ کتاب سے جدا نہیں ہوتا تاآنکہ اسے اول تا آخر پڑھ نہ لے۔
کتاب کے مطالعے کے دوران قاری کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پروف احتیاط سے پڑھے گئے ہیں لیکن کہیں کہیں نہ صرف پروف کی اغلاط رہ گئی ہیں بلکہ متعدد مقامات پر مرکب الفاظ دو سطروں میں ٹوٹ گئے ہیں۔ یہاں بطور نمونہ ہم چند ایسے مقامات کی نشان دہی کریں گے۔ ص32سطر15 ۔ ’’خاکہ کھنچا‘‘۔ یہاں ’’خاکہ کھینچنا‘‘ ہونا چاہیے۔ ص 25 سطر 13 کے آخر میں مقنا اور سطر14کی ابتدا میں طیسی‘ جبکہ یہ ایک ساتھ مقناطیس ہونا چاہیے۔ ص38 سطر 13 کے آخر میں ’’آ‘‘ جبکہ سطر14کی ابتدا میں ’’کر‘‘ لکھا ہے۔ یہاں مرکب لفظ ’’ آکر‘‘ ایک ساتھ ہونا چاہیے۔ ص 42 سطر 19کے آخر میں ’’آ‘‘ اور سطر20 کی ابتدا میں ’’لیا‘‘ لکھا ہے۔ اسے یکجا ’’آلیا‘‘ ہونا چاہیے۔ اسی صفحے کی سطر 2 میں مصنف نے ’’جنگ نامہ حامد‘‘ کا ذکر کیا ہے، بظاہر یہ کوئی منظوم داستان معلوم ہوتی ہے۔ اگر اس کی وضاحت ہوجاتی تو قاری کو تفہیمِ مطالب میں آسانی ہوجاتی۔ پیش نظر کتاب کے مطالعے کے دوران قاری کے ذہن میں بعض سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا اسے کوئی جواب نہیں ملتا۔ سب سے پہلے وہ کتاب کے ٹائٹل پر نظر ڈالتا ہے تو اسے آخری سطر میں یہ عبارت نظر آتی ہے: اہتمام و پیش کش راشد اشرف/ ڈاکٹر پرویز حیدر۔ جیسے ہی قاری کتاب کھولتا ہے تو اسے فلیپ پر ایک تصویر نظر آتی ہے، جس کے نیچے یہ عبارت درج ہے: ’’مرتب (راشد اشرف) کی کتابوں کی تفصیل‘‘۔ یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹائٹل پر ’’ اہتمام و پیش کش‘‘ اور فلیپ پر ’’مرتب‘‘ عجیب معمّا ہے۔ مرتب تو ڈاکٹر محمود احمد کاوش خود ہیں پھر راشد اشرف صاحب کی تصویر اور مرتب ہونے کا کریڈٹ مفت میں کیوں حاصل کیا جارہا ہے؟
قاری کو مزید حیرت کتاب کے دوسرے فلیپ کو دیکھ کر ہوتی ہے، جس میں اسے ایک تصویر نظر آتی ہے جس کے نیچے ڈاکٹر پرویز حیدر (سرپرستِ اعلیٰ ’’زندہ کتابیں‘‘) لکھا ہے۔ دونوں فلیپ دیکھ کر قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر اضافی مرتب اور سرپرستِ اعلیٰ کی رنگین تصاویر شائع کی گئی ہیں تو کہیں نہ کہیں اصلی مرتب یعنی ڈاکٹر محمود احمد کاوش کی تصویر اور ضروری کوائف بھی درج ہوں گے، لیکن پوری کتاب میں اسے کہیں مطلوبہ کوائف اور تصویر نہیں ملتی، البتہ ایک طول طویل فہرستِ کتب نظر آتی ہے جس کی سرخی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کتب کے مرتب راشد اشرف صاحب ہیں۔ جب قاری اس فہرست پر نظر ڈالتا ہے تو مزید حیران ہوتا ہے، کیونکہ اس فہرست میں زیادہ ترکتب ایسی نظر آتی ہیں جو پہلے سے شائع شدہ ہیں، ظاہر ہے کہ اشاعت سے قبل ہر کتاب کے مصنف نے انھیں ترتیب دے کر ہی شائع کرایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام شائع شدہ کتب کے مصنفین ہی ان کے مرتب کہلانے کے حق دار ہیں۔ راشد اشرف صاحب نے انھیں کمپوز کراکے دوبارہ شائع کرایا ہے۔ اس صورت میں بے چارے مصنف کو ’مرتب‘ ہونے کے اعزاز سے محروم کرنا ناانصافی ہے۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ راشد اشرف صاحب اور ڈاکٹر پرویز حیدر صاحب ان کتب کی اشاعت کے ذریعے اردو ادب کی خدمت کررہے ہیں، جس کی تحسین نہ کرنا ناانصافی ہوگی، لیکن یہ بھی ناانصافی ہی ہوگی کہ محض جمع آوری اور کتب کی اشاعت کے کام پر مرتب کا اعزاز حاصل کیا جائے۔ قاری کو مزید حیرت ہوتی ہے کہ فلیپ پر موجود کتب کی طویل فہرست کو دوبارہ کتاب کے آخری 5 صفحات پر شائع کیا گیا ہے۔