بھارت کے زیرانتظام جموں و کشمیر کو عقوبت خانہ بنے ایک سال ہوچکا ہے، لاکھوں کشمیری عوام ایک بہت بڑی جیل میں مقید ہیں جس میں نہ بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بیمار اور بزرگ علاج کے لیے اسپتال جا سکتے ہیں۔ بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے آبادی کا تناسب تبدیل کیے جارہی ہے، اور اب تک غیر کشمیری خاندانوں میں چار لاکھ ڈومیسائل تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ سید علی گیلانی سمیت جموں و کشمیر کی تمام سیاسی قوتوں اور شخصیات کو جنہوں نے ماضی میں تحریک ِآزادی کے لیے کردار ادا کیا، بھارت نے بدستور گھروں میں نظربند رکھا ہوا ہے۔ بھارتی فوج کے مظالم میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس سال کے آغاز سے ہر روز اوسطاً پانچ مکینوں کو ان کے گھروں سے نکال کر، ان کے گھروں کو چشم زدن میں مسمار کرکے انہیں چھت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوج نے ظلم و ستم کی ایک نئی لہر شروع کی ہے، اور صرف پچھلے چھے ماہ میں 148 نہتے کشمیریوں کو ہلاک کیا گیا اور کشمیر کی عددی اکثریت کو تبدیل کرنے کے لیے باقاعدہ اقدامات تیز کردیے گئے ہیں۔ 5 اگست 2019ء کے غیرقانونی قدم کے بعد اب غیرکشمیری جموں و کشمیر میں آباد کیے جانے لگے ہیں، جنہیں یہاں اب قانون کے مطابق جائدادیں خریدنے کا حق دے دیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کے وہ مہاجرین جو عارضی ہجرت کرکے آزادکشمیر یا پاکستان آگئے، ان کی جائدادیں ہتھیائی جارہی ہیں، اس کے علاوہ گیارہ لاکھ ایکڑ اراضی بھارتی فوج کے قبضے میں ہے۔ یہ عمل کشمیریوں کی اکثریت کو ختم کرکے غیر کشمیریوں کو یہاں آباد کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ان افراد کو تمام سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر غیرکشمیری ہندوؤں کو تعینات کردیا گیا ہے۔
بھارت کی اس جارحیت پر بین الاقوامی ردعمل بہت کمزور ہے۔ بین الاقوامی میڈیا بھی عملاً خاموش ہے۔ مسلم ممالک میں ترکی، ملائشیا اور ایران کسی حد تک کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم رکھ رہے ہیں، ان کے سوا کسی مسلمان رہنما نے کھل کر کشمیریوں پر مظالم کی مذمت نہیں کی۔ مشرق وسطیٰ کے اہم مسلم ممالک کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم بند کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے کے بجائے اُس سے سیاسی، ثقافتی اور معاشی پینگیں بڑھانے میں مصروف نظر آئے۔ صدر ٹرمپ نے ثالثی کے بارے میں بات تو کی لیکن اس سلسلے میں بھارت پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا۔ چین نے غیر معمولی کردار ادا کرتے ہوئے دو بار سلامتی کونسل میں کشمیر کے بارے میں غیر رسمی اجلاس منعقد کرائے، تاہم عالمی برادری ابھی تک بھارت کو ظلم سے نہیں روک سکی۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پُرزور طریقے سے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا، مگر بدقسمتی سے اس کا اثر صرف تقریر کے دورانیے تک ہی محدود رہا، اور حکومت نے کشمیر کے لیے اس کے بعد ایک تنکا بھی نہیں توڑا، اس کی ساری توجہ نیب کے ذریعے اپوزیشن کو رگیدنے پر مرکوز ہے۔ قومی سلامتی کے اس بڑے مسئلے پر اپنی توجہ کچھ تقریروں، کچھ جمعہ کے احتجاجوں، چند منٹ کی خاموشی اختیار کرنے اور کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھنے تک ہی محدود رکھی۔ بجائے اس کے کہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ اہم ممالک کا دورہ کرکے انہیں اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کرتے، انہوں نے چند ملکوں کے رہنماؤں سے ٹیلی فون پر بات چیت پر ہی اکتفا کیا۔ سلامتی کے اہم مسائل پر صرف فون کے ذریعے حمایت کی استدعا نہیں کی جاتی، اس کے لیے بین الاقوامی رہنماؤں سے ذاتی روابط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نیم دلانہ کوشش کی وجہ سے موجودہ قیادت اس مسئلے میں وسیع بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
حریت رہنما سید علی گیلانی 5 اگست 2019ء کے بعد شدید علیل ہوکر بھی خاموش نہیں بیٹھے۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو دو خطوط لکھے جن میں سے ایک کا وزیراعظم نے جواب بھی دیا ہے۔ تاہم یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ سید علی گیلانی کے لیے نشانِ پاکستان کا اعلان ان کے خطوط کے باعث نہیں ہوا۔ سید علی گیلانی کی صحت اب پہلے سے اچھی ہے، تاہم کمزور ہیں۔
پاکستان میں سید علی گیلانی سے محبت کرنU والی جماعت اسلامی نے پانچ اگست کو اسلام آباد میں جناح ایونیو پر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے جلسہ کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹرسراج الحق، سیکرٹری جنرل امیرالعظیم، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں محمد اسلم، جماعت اسلامی شمالی پنجاب کے امیر ڈاکٹر طارق سلیم، رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی اور پاکستان بزنس فورم کے صدر کاشف چودھری نے خطاب کیا۔ جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصر اللہ رندھاوا، نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمٰن سواتی، گوجر خان سے راجا جواد محمود، جماعت اسلامی راولپنڈی کے امیر عارف شیرازی اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل راجا فاضل اور دیگر رہنما بھی جلسے میں شریک ہوئے۔ عید کی تعطیلات اور کورونا وبا کے باوجود جلسے کی حاضری بہت اچھی رہی۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کشمیر ہائی وے کا نام تبدیل کرنے پر حریت کانفرنس کے رہنمائوں کے تحفظات کی حمایت کی اور کہا کہ کشمیر ہائی وے کا نام سری نگر ہائی وے رکھنے کا فیصلہ تبدیل کیا جائے۔ ڈی چوک میں ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ کشمیر کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اوآئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جائے، ایک منٹ کی خاموشی نہیں بلکہ دنیا کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا جائے۔ جب تک آپ دشمن کو دوست سمجھتے رہیں گے، نقصان اٹھائیں گے، حکومت جہاد کا اعلان کرے، قراردادیں کوئی راستہ نہیں، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سینکڑوں قراردادیں پاس کرچکی ہیں، حکومت نے بہت وقت ضائع کردیا اب اسے مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے، ان کے پاس اب زیادہ وقت نہیں رہا۔ 5 اگست2019ء کے بعد کشمیر میں ڈبل لاک ڈائون ہے اور نسل کُشی ہورہی ہے، 30 ہزار سے زائد کشمیری نوجوان جیلوں میں ہیں،کشمیر اس وقت چاروں طرف سے محاصرے اور دنیا کی بڑی جیل کا منظر پیش کررہا ہے، کشمیر کو جیل خانہ بنانے میں پاکستان کے حکمرانوں کا بھی ہاتھ ہے، بھارت کو ایل او سی پر باڑ لگانے کی اجازت پرویزمشرف نے دی۔ امریکہ میں ایک سیاہ فام پولیس کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے تو پورا امریکہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے، مگر کشمیر میں ہرروز قتلِ عام کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسلام آباد قبرستان بن چکا ہے۔
آٹھ ماہ تک کشمیر کمیٹی کا کوئی چیئرمین نہیں تھا۔ فخر امام کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا، جب انہوں نے کام شروع کیا تو ان کو تبدیل کردیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے بعد واپس آکر جنرل گریسی کی پالیسی پر عمل کیا اور اعلان کیا کہ جو کشمیر کی طرف جائے گا وہ غدار ہوگا۔ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے بھارت سلامتی کونسل کا رکن بنا۔ حکمرانوں کی صفوں میں کوئی محمود غزنوی، ٹیپو سلطان اور محمد بن قاسم نہیں ہے۔ اسلام آباد کے ٹھنڈے دفاتر اور بنگلوں میں بیٹھ کر حکمرانی کرنے والوں کے لیے چار سالہ معصوم بچے اور اس کے نانا کی تصویر کافی تھی۔
جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم نے کہا کہ چار نسلوں سے کشمیریوں کا استیصال ہورہا ہے، ایسا استحصال کہ چار سال کے بچے کے سامنے اس کے نانا کو، دادا کو اور باپ کو شہید کردیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے حکمرانوں نے بھارت کو سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کے لیے ووٹ دے کر بھارتی مسلمانوں کا استیصال کیا۔ ہمارے حکمران قدم بقدم پیچھے ہٹ رہے ہیں، وہ کوئی اقدام کرنے کے بجائے تقریریں کررہے ہیں، اگر یہی صورتِ حال رہی تو اگلے پانچ سال میں مودی عمران خان کو دہلی میں تقریر کرنے کی دعوت دے گا کہ اپنا تقریر کا شوق پورا کرلو۔ ہم جنگ نہیں چاہتے مگر کشمیر میں اور ایل او سی پر جنگ ہورہی ہے، بھارت یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، بھارت نے جنگ مسلط کی ہے۔ حکمران دنیا کو بتانے کے بجائے بزدلوں کی طرح اسے چھپا رہے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی نے کہاکہ جہاد اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کیا ہے، جس قوم نے جہاد سے پہلو تہی کی، اللہ تعالیٰ نے اسے ذلیل و خوار کردیا۔ کشمیر جہاد سے آزاد ہوگا۔ حکومت سے کہتا ہوں کہ جہادکا اعلان کرے، پوری قوم اس کی آواز پر لبیک کہے گی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں محمد اسلم نے کہا کہ عمران خان کو تو سچ بولنے کی توفیق نہیں، سچ یہ ہے کہ بائیس کروڑ پاکستانی عوام اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ یہ جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے مودی کی جیت کی دعا کی اور آج وہی مودی کشمیریوں پر ظلم و جبر اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کررہا ہے۔ 35-A اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی جاری ہے اور ہمارے حکمران چپ سادھے بیٹھے ہیں۔
مزاحمتی واک
ایک سال کے بعد بھی پانچ اگست کے اقدام کے خلاف حکومت کا ردعمل واجبی سا ہے۔ پانچ اگست کی مناسبت سے اسلام آباد میں حکومتی شخصیات نے دفتر خارجہ سے پارلیمنٹ ہائوس تک مزاحمتی واک کی اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر علی امین گنڈاپور، معاونِ خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف بھی شریک ہوئے۔ مزاحمتی واک کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ واک کے شرکا جب وزیراعظم سیکرٹریٹ کے سامنے پہنچے تو صدر عارف علوی بھی واک میں شریک ہوئے اور ڈی چوک تک قیادت کی۔ واک میں اسپیکر قومی اسمبلی، سینیٹ کے چیئرمین، حکومتی اراکینِ پارلیمنٹ کی چھوٹی تعداد بھی شریک ہوئی۔ اس موقع پر پاکستان کے صدر عارف علوی نے میڈیا سے گفتگو بھی کی اور کہا کہ اقوام متحدہ پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کو قبول کرے تو مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ مزاحمتی واک کشمیر کے لیے اس کی کوششوں کی سیاسی معراج ہے۔
تحفظ معیشت کانفرنس
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا میاں محمد اسلم و دیگر کا خطاب
گزشتہ ہفتے اسلام آباد سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے خلاف یوم استیصال منایا گیا، جماعت اسلامی نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے جناح ایونیو پر ایک بڑا جلسہ کیا، اور جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں محمد اسلم کی رہائش گاہ پر الفلاح ہال میں تاجروں کی ایک نمائندہ تحفظِ معیشت کانفرنس ہوئی، امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق مہمانِ خصوصی تھے۔ اس کانفرنس میں شہر کی پچاس سے زائد نمائندہ تاجر تنظیمیں، چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے منتخب نمائندے اور عہدیدار شریک ہوئے، پاکستان بزنس فورم اس کی میزبان تھی۔ کانفرنس میں تاجر تنظیموں، رئیل اسٹیٹ ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں، اسلام آباد چیمبر کے منتخب نمائندوں، اسمال چیمبرز عہدیداوروں، ریستوران ایسوسی ایشن کے علاوہ کاروباری طبقے اور مقامی مارکیٹوں کی یونینز کے نمائندوں نے اپنی مشکلات بیان کیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق، نائب امیر میاں محمد اسلم، جماعت اسلامی پنجاب کے امیر ڈاکٹر طارق سلیم جماعت اسلامی کی جانب سے نمائندہ شخصیات تھیں۔ سینیٹر سراج الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک کے فیصلے غیر منتخب لوگ کررہے ہیں، حکومت میں بیٹھے مافیاز کے پاس کوئی وژن نہیں ہے، حکومت کے سامنے ہر دولت مند شخص چور اور کرپٹ ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے انسان بے گناہ سمجھا جاتا ہے، مگر حکومت کے نزدیک ہر تاجر مجرم ہے۔ حکومت کے پاس یونیورسٹیوں کے لیے دس ارب روپے نہیں ہیں، نیا شہر بسانے کے لیے 50 ہزار ارب کہاں سے آئیں گے؟ وزیراعظم عمران خان خود اعتراف کرچکے ہیں کہ ملک میں مافیا طاقتور ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کے بل پاس کرنے میں پی پی اور نون لیگ نے حکومت کا ساتھ دیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی عالمی ایجنڈے پر ایک ہیں۔ وزیر خارجہ نے بل پاس ہونے پر کہا کہ چھوٹے گروپ بھی ہمارا ساتھ دیتے تو بہتر تھا۔ سراج الحق نے کہا کہ مانگنے اور رونے کے بجائے اپنے آپ کو طاقتور بنائیں۔ جس روز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اپنے ملک میں معاشی ترقی کے لیے کاروں کے کارخانے کا افتتاح کررہے تھے اُسی روز وزیراعظم عمران خان ملک میں معیشت بہتر کرنے کے لیے شہریوں میں مرغیاں اور کٹے تقسیم کررہے تھے، وہ ترقی کے لیے مرغی کی گردن پر بیٹھ کر مریخ پر جانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے حال ہی میں 23 ارب ڈالر قرض واپس کیا ہے اور اپنا ملک قرض فری بنادیا ہے۔ جس ملک کی معیشت تباہ ہوجائے، اُس کا جغرافیہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ سینیٹر سراج الحق نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مافیاز نے پی آئی اے اور واپڈا کو تباہ کیا۔ دو دن قبل حکومت نے ایک بل پاس کیا۔ میرا خیال تھا کہ حکومت اس بل کو پاس کروانے میں کامیاب نہیں ہوگی، لیکن پتا چلا کہ یہ بل آئی ایم ایف کی ہدایت پر تھا، اس بل کی تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے حمایت کی، تاجروں کی وجہ سے بے روزگاروں کو روزگار ملتا ہے، جس ملک میں تاجر خوشحال نہ ہو وہ ملک نہیں چل سکتا۔ تاجر برادری ہی ملک میں تعلیمی ادارے اور مدارس چلاتی ہے۔ ہمارے حکمران ایک دوسرے کو ذلیل کرنے کے لیے نئے الفاظ ایجاد کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سوال کیا گیا کہ جماعت اسلامی سامنے آئے اور قیادت کرے۔ ہم کورونا وائرس کے دوران ملک بھر میں متاثرین کی خدمت کرتے رہے ہیں، ہمارے کارکن شہید ہوئے ہیں، انہوں نے قربانیاں دی ہیں، کراچی میں ہماری ریلی پر حملہ ہوا، کارکنوں کا قصور یہ تھا کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے ریلی نکال رہے تھے، ہمارے ایک کارکن شہید ہوئے اور سینتیس زخمی ہیں، ان میں متعدد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں کہا کہ بھارت نے گزشتہ سال پانچ اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت ہی تبدیل کردی اور ہمیں اچھا نہیں لگا کہ جب بھارت یہ کام کررہا ہو تو ہم ملک میں اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کررہے ہوں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں محمد اسلم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بہترین وسائل ہیں اور ہمارے پاس چاروں موسم ہیں، معدنیات ہیں اور ہماری زمین بھی زرخیز ہے، مگر معاملہ صرف اچھی حکمرانی اور وسائل کی بہتر تقسیم کا ہے۔ ہمیں اچھے حکمران نہیں ملے۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کا ساتھ دیا جائے تاکہ ملک میں تبدیلی آئے۔ آخر میں پاکستان بزنس فورم کے صدر کاشف چودھری نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔