وہ جو میڈیا اور لکھنے والوں کی زبان کی غلطیاں نکالتے تھے۔ درست اور صحیح زبان لکھنے کا طریقہ سمجھاتے تھے۔ اپنی سنجیدہ تحریر میں بھی ظرافت کی چھُوٹ ڈال کر اسے لائقِ مطالعہ بنادیتے تھے۔ ہاں وہی اطہر ہاشمی… آج صبح آنکھ کھلی تو واٹس ایپ پر میسج تھا کہ دنیا سے خاموشی سے گزر گئے۔ مجھ سے اُٹھا نہ گیا، بستر پر ڈھیر ہوگیا۔ ایک صدمہ تھا، ایک عجیب سا افسوس، جس نے تقریباً ادھ موا سا کردیا۔ حافظے کی اسکرین پہ اُن سے وابستہ یادوں کی فلم چلنے لگی۔ وہ سب یادیں جو ذہن کے کونے کھدروں میں دبی اور چھپی ہوئی تھیں، اُبھر اُبھر کر، نکل نکل کے ستانے لگیں۔ یہ ایک منظر ہے روزنامہ جسارت سے وابستگی کے دنوں کا۔ ادارتی صفحے پہ اطہر ہاشمی صاحب کے کالم چھپتے تھے۔ میں بھی لکھتا تھا۔ ایک دن ان کا کالم چھپتا تو اگلے دن میرا۔ ان کے کالم بھی شگفتہ شگفتہ سے ہوتے تھے، میں بھی طنز و مزاح کے پیرائے میں بات بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ میں اچھا لکھتا ہوں، اور مجھے یہ قلق کہ میں ان کی، اطہر ہاشمی صاحب کی طرح کیوں نہیں لکھ پاتا۔ ’جسارت‘ کی فضا نئے نویلے صحافیوں اور کالم نگاروں کے لیے بہت سازگار تھی۔ ایک طرح سے یہ ایسے لوگوں کی نرسری تھی جہاں لکھنے والے، خبریں بنانے والے اپنی صلاحیتوں کے پودے کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔ ’جسارت‘ کے ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر اور سٹی ایڈیٹر، ادارتی صفحے کے انچارج ایسے نوآموزوں کو پورا پورا موقع دیتے تھے۔ اور پھر یوں ہوتا تھا کہ جب پودا پروان چڑھ جاتا تھا تو کسی اور باغ میں جاکر اپنی بہار دکھانے لگتا… کسی بڑے اخبار میں جہاں تنخواہیں، مراعات اور تسلیم کیے جانے کے امکانات اور مواقع جسارت سے زیادہ ہوتے تھے۔ ایسوں کے جانے کے بعد اخبار میں کوئی اور نوآموز رکھ لیا جاتا تھا۔ اس پودے کو کھاد، پانی اور دھوپ دینا اور نشوونما کرنا، جسارت اخبار ہی کی ذمہ داری بن جاتی تھی۔
میں نے جب جسارت چھوڑا تو شاید اطہر ہاشمی مرحوم وہیں تھے۔ پھر ایک دن معلوم ہوا کہ وہ اردو نیوز جدہ سے وابستہ ہوکر وہیں چلے گئے ہیں۔ افسوس ہوا یہ سن کے تو خوشی بھی ہوئی۔ افسوس اس کا کہ جسارت ایک بہت اچھے کالم نگار سے محروم ہوگیا، خوشی اس کی کہ اب ہاشمی صاحب کے دن پھر جائیں گے۔ اچھی، بہت اچھی تنخواہ ہوگی، اگر اپنا گھر نہیں ہوگا تو اب وہ بھی بن جائے گا، مقروض خدانخواستہ ہوں گے تو قرضے کے بوجھ سے نجات مل جائے گی۔ ہاں آدمی صدیوں سے، جب سے یہ دنیا بنی ہے، تلاشِ معاش اور تلاشِ رزق میں دربدر مارا پھرا ہے، ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک۔ ایک آسودہ حال زندگی گزارنا کس کا خواب نہیں ہوتا! اچھا کھانا، اچھا پہننا، اچھے اور اپنے مکان میں رہنا، زندگی میں آسائش اور تونگری… بس ان ہی تمنائوں کی تکمیل میں آدمی ساری زندگی بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ جگر خون اور پِتّہ پانی ہوجاتا ہے، مگر آدمی باز نہیں آتا۔
اطہر ہاشمی مرحوم کو میں نے قریب سے نہیں دیکھا۔ قریب سے ان معنوں میں کہ میں ان کی نجی زندگی سے کہ کہاں پیدا ہوئے، کیسے ماحول میں پرورش پائی، لکھنے پڑھنے کا شوق کیسے اور کیوں کر پیدا ہوا، اور اس شوق کے ہاتھوں انھوں نے کیا کچھ پڑھا اور اپنے تجربات و مشاہدات سے کیا کیا سیکھا… ان میں سے کسی بات سے بھی واقف نہیں۔ اس لیے انھیں جاننے کا کوئی دعویٰ نہیں۔ ان سے کبھی تنہائی میں ملنا ہی نہیں ہوا۔ ہم جب بھی ملے، دفتر کے بھیڑ بھڑکے میں ملے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ اخبار کے دفتر میں کیسی بھاگا دوڑی لگی رہتی ہے۔ عجلت، جلدی، ہنگامی حالت، جلدی میں خبر لکھو، فوراً سرخیاں نکالو، کالم منگوائو، کاپی جڑوائو، کاپی کو فوراً پریس بھیجو۔ صحافت عجلت میں لکھا ہوا ادب… جہاں کوئی قرار نہیں، سکون نہیں، وہاں اس کی توقع کیسے رکھی جائے کہ اگر اطہر ہاشمی جیسی شخصیت نیوز ڈیسک پر موجود ہو تو اس سے ایسی گپ شپ لگے کہ ان کے ماضی کو کریدا جائے، وہ سب باتیں پوچھی جائیں جو ان کی ذات سے متعلق ہوں۔ تو ایسی کوئی ملاقات ہم دونوں کے نصیب میں لکھی ہی نہیں تھی تو کیسے جان پاتا میں! انھیںاچھی طرح سے نہ جاننے کا کوئی ایسا قلق بھی نہیں کہ کتنے ہی دوست احباب ہیں، ملنے جلنے والے، جن سے برسوں پرانی ملاقات اور یارانہ ہے لیکن جن کا ماضی ایک سربستہ راز ہی ہے۔ یہ بھاگم دوڑ کی زندگی نہ اتنی مہلت دیتی ہے اور نہ خواہش ہی ہوتی ہے کہ کسی سے فرمائش کی جائے کہ بھائی صاحب! کچھ اپنی بابت بھی بتائو، اپنے ماضی کی بابت۔ نہیں، اس کا خیال ہی نہیں آتا۔ تو اطہر ہاشمی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ لیکن ایک بات جو حیران کرتی تھی، انھیں دیکھ کر، ان سے مل کر کہ وہ اخبار کی دنیا سے منسلک دوسروں کے برعکس جب بھی ملے، پُرسکون حالت میں ملے، چہرے پر ان کے ہمیشہ اطمینان دیکھا۔ اندر کی حالت کی خبر تو کب کسی کو معلوم ہوتی ہے، لیکن ان کا ظاہر، خصوصاً ان کا چہرہ ہمیشہ پُرسکون اور مطمئن ہی پایا۔ ویسا چہرہ جیسا نماز پڑھنے کے بعد ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی فرسٹریشن سے پاک، دُھلا دھلایا۔ اور ہاں زبان پہ کبھی کوئی شکوہ، کبھی کسی کی شکایت… نہیں کبھی نہیں۔ یہ کیفیت ہوتی ہے جب آدمی کا نفس، اگر نفسِ مطمئنہ نہ بھی ہو تو اس کے آس پاس ضرور ہو۔ شکایت کرنے سے اور شکوہ سنج ہونے سے کون سے مسئلے حل ہوجائیں گے، کب پریشانی دور ہوجائے گی، تو پھر فائدہ؟ شکایات کے رجسٹر میں شکایت درج کرانے کا۔ ہم سب اپنا اپنا شکایتی رجسٹر اپنے پاس رکھتے ہیں اور کسی دوست، ساتھی، ہمدمِ دیرینہ کو فرصت کے کسی لمحے میں گپ شپ کرتے ہوئے یہ شکایتی رجسٹر دکھانا نہیں بھولتے۔ وہ جو حقی صاحب کا شعر ہے ناں…
آپ کیا سادہ ہیں جو حال کسی نے پوچھا
خوش گماں ہو کے لگے زخم دکھانے اپنے
تو یہ زخم دکھانا کیا ہے؟ وہی شکایتی رجسٹر کھولنا۔ تو اطہر ہاشمی کے پاس ایسی کوئی شکایتی کتاب دیکھی نہیں۔ جو آدمی اندر سے مطمئن ہو، دنیا اور لوگ جیسے ہیں، انھیںاسی طرح قبول کرے، اور کسی کی بے وفائی کو بھی انسان کی مجبوری سمجھے تو پھرشکوہ شکایت ویسے ہی پیچھا چھوڑ دیں۔ اور جب ایسا ہوجائے تو چہرہ پُرسکون کیوں نہ ہو۔ ایک بات اور، دیکھنے میں سنجیدہ سے آدمی لگتے تھے۔ دیکھ کر اور مل کر نہیں لگتا تھا کہ اندر ظرافت بھی موجیں مارتی ہوگی۔ لکھتے ہوئے پھلجڑیاں بھی چھوڑتے ہوں گے۔ اسی جریدے کا آخری صفحہ ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کا مقبول کالم… کوئی بھی کالم اٹھا لیجیے، ایک خشک موضوع، لفظ و معنی کی بحث، تذکیر و تانیث کا معاملہ، لفظوں کے استعمال، روزمرہ اور محاورے کے صحیح اور غلط ہونے کی چخ چخ… مگر ان بحثوں کو بھی وہ دل چسپ بنادیتے تھے۔ یہ کالم اتنا مقبول تھا کہ دوسروں کا تو نہیں معلوم لیکن میں اکثر فرائیڈے اسپیشل کو پڑھنے کے لیے اٹھاتا تو آخر سے پڑھنا شروع کرتا۔ ان کا کالم رسالے کا آخری صفحہ ہوتا تھا۔ یہاں پر پہنچ کے رسالہ تمام ہوجاتا تھا، لیکن پڑھنے والے کے لیے بہت سی چیزیں شروع ہوتی تھیں۔ لکھتے ہوئے املا صحیح ہونا چاہیے۔ بولتے ہوئے زبان درست ہونی چاہیے۔ فلاں لفظ کے معنی یہ نہیں، یہ ہیں۔ اس کی سند کالم نگار نے فلاں شاعر کے فلاں شعر سے دی ہے۔ ہاں کام کی باتیں اور بہت مفید باتیں ذہن میں رہ جاتی تھیں۔ یہ زمانہ زبان کے زوال کا ہے۔ آج کی نسل کی زبان بگڑی ہوئی زبان ہے۔ میڈیا، اخبارات، رسائل، ٹیلی ویژن چینل ایسی بگڑی ہوئی مسخ شدہ زبان کو فروغ دے رہے ہیں کہ جاننے والے، زبان کا علم رکھنے والے سر پیٹ کے رہ جاتے ہیں۔ پہلے اخبارات ہوں یا ریڈیو، ٹیلی ویژن اور رسالے، صحتِ زبان کو اہمیت دیتے تھے۔ ان کی اوّلین ترجیح یہ ہوتی تھی کہ جو زبان بولی یا لکھی جائے اسے لازماً درست ہونا چاہیے۔ میڈیا میں ایسے لوگ اہتمام سے رکھے جاتے تھے جو زبان دانی میں ماہر ہوں۔ بے شک ماہرِ لسانیات نہ ہوں لیکن روزمرہ محاورے، تذکیر و تانیث، لفظوں کے صحیح معنی، ان کا املا… ان پر عبور ہو۔ چناں چہ کوئی تحریر ان کی منظوری اور تائید کے بغیر نہ چھپتی تھی اور نہ نشر ہوتی تھی۔ لیکن جب سے میڈیا کاروبار بنا ہے… صرف منافع بخش کاروبار… زبان ہی نہیں، تہذیب و معاشرت، اخلاقی اقدار اور ’’معیار‘‘ کا جنازہ نکل گیا ہے۔ کوئی نہیں جو ان لوگوں کو بتائے کہ وہ زبان و ادب ہی نہیں اس معاشرے کے ساتھ بھی کتنا بڑا ظلم کررہے ہیں۔
اطہر ہاشمی مرحوم نے یہی ذمہ داری اُٹھا رکھی تھی۔ اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا۔ لیکن اُس فاختہ کو یاد کیجیے جو پانی کی ایک بوند اُٹھائے اُڑتی جاتی تھی آگ بجھانے کے لیے۔ آگ ایک بوند پانی سے کب بجھتی ہے! لیکن یہ اطمینان تو اسے حاصل ہے کہ شمار اس کا آگ بجھانے والوں میں ہے، لگانے والوں میں نہیں۔ اخبار میں رہ کر اطہر ہاشمی نے یہ ذمہ لیا تو اسی لیے کہ جب ہر طرف میڈیا میں زبان کا قتلِ عام ہو تو کوئی تو ہو جو لکھنے اور بولنے والوں کی زبان درست کرے، غلطیوں اور خامیوں کی نشان دہی کرکے زبان کا نگہداشت ہوجائے۔ اردو بے چاری کیسی مظلوم زبان ہے۔ کروڑوں انسانوں کے رابطے کی زبان ہے، جہاں کوئی زبان ساتھ نہ دے، کام نہ آئے، وہاں اردو ساتھ دیتی ہے، کام آتی ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ جو سب کے کام آتا ہے اُس کے کام کوئی نہیں آتا، اس کی پروا کسی کو نہیں ہوتی۔ تو اردو کو ہم نے سیاست دانوں، خطیبوں، پیشۂ صحافت سے منسلک ہونے والوں، ایف ایم ریڈیو اور پرائیویٹ چینل چلانے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جیسا سلوک چاہیں اس زبان کے ساتھ روا رکھیں۔ اطہر ہاشمی نے اپنے حصے کی شمع جلائی، اور اب وہ نہیں رہے تو کون ان کی جگہ لے گا؟ یہ رسالے والوں کے سوچنے کا معاملہ ہے۔ ہمارے لیے تو تاسف اور غم کا پہلو فقط یہ ہے کہ اطہر ہاشمی نہ رہے۔ اب تو یہ کہہ کر بھی دل کو تسلی نہیں دی جاسکتی کہ
دائم آباد رہے گی دنیا
وہ نہ ہوں گے کوئی اُن سا ہو گا