پانچ ماہ کے وقفے کے بعد حکومت کی جانب سے دیگر شعبہ جات کی طرح سیاحت کا شعبہ کھولے جانے کے فیصلے سے گرمی کے ستائے ہوئے لاکھوں سیاحوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سیاحتی شعبے سے لاک ڈائون کے خاتمے کے بعد ملک کے طول و عرض سے سیاحوں نے مری کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات ناران،کاغان، سوات، کالام،کمراٹ، دیر اور چترال کا رخ کرلیا ہے۔ موصولہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ سیاحوں نے ملک کے شمالی علاقوں کا اس بڑے پیمانے پر رخ کیا ہے کہ صرف سوات میں موجود ڈیڑھ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں سیاحوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے، جس کے بعد ان ہوٹلوں میں بکنگ بند کردی گئی ہے، بلکہ ہوٹلوں کے باہر ہائوس فل کے بورڈ بھی آویزاں کردیئے گئے ہیں۔ بعض سیاحوں کا کہنا ہے کہ ہوٹلوں میں جگہ کم پڑنے کے بعد لوگ کھلے مقامات پر ٹینٹ لگا کر ان علاقوں کی ٹھنڈک اور قدرتی حسن سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ہوٹل ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا نے سیاحتی شعبہ کھولنے کے حکومتی اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ حکومت بڑے پیمانے پر سیاحتی مقامات کا رخ کرنے والے مرد وخواتین اور بچوں پر مشتمل سیاحوں کی سیکورٹی اور ان کو درکار دیگر ضروریات کا ترجیحی بنیادوں پر اہتمام کرے گی۔ واضح رہے کہ حکومت نے کورونا وبا کے باعث زندگی کے دیگر اہم شعبوں کی طرح سیاحت کے شعبے پر بھی مکمل پابندی عائد کررکھی تھی جس سے یہ سیزنل شعبہ بری طرح متاثر ہوا تھا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہوگئے تھے جن میں ہوٹل مالکان سے لے کر ان ہوٹلوں میں کام کرنے والے دیگر اسٹاف کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے دیگر کاروباری ادارے اور افراد شامل ہیں۔
یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ شمالی اضلاع کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے اور ان علاقوں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار سیاحت سے ہونے والی آمدن پر ہے۔ اس کے باوجود گنجان آباد شہری علاقوں کی طرح ان علاقوں میں بھی لاک ڈائون پالیسی نافذ کرکے جہاں لاکھوں سیاحوں کو ان علاقوں میں جانے سے روک دیا گیا تھا، وہیں اس اقدام سے ملک کی اس اہم صنعت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا تھا، حالانکہ ہوٹل انڈسٹری ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت کو باربار یہ اپیلیں کی جاتی رہی ہیں کہ چونکہ زیادہ تر پڑھے لکھے اور صاحبِ ثروت لوگ سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں اس لیے اگر حکومت بعض ایس او پیز کے ساتھ سیاحتی مقامات کھولنے کا اعلان کردے تو ہوٹلوں کی انتظامیہ سیاحوں کے ساتھ مل کر ان ایس او پیز پر عمل درآمد کروا سکتی ہے۔
اس بات سے ہر کوئی واقف ہے کہ بعض ممالک نے محدود قدرتی اور انسانی وسائل کے باوجود سیاحت کے شعبے کو ترقی دے کر اپنی معیشتوں کو بہتر کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج سیاحت پوری دنیا میں سب سے بڑی انڈسٹری کا روپ دھار چکی ہے۔ سیاحتی انڈسٹری کا پاکستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اور ایڈوانٹیج یہ ہے کہ اس شعبے میں انفرااسٹرکچر کی چند بنیادی سہولیات مثلاً سڑکوں، بجلی، ٹیلی فون، سیکورٹی اور صحت کی سہولیات بہم پہنچا کر اس شعبے کوکم سرمایہ کاری کے ذریعے ایک مفید اور زیادہ آمدن کا حامل شعبہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں میں خیبرپختون خوا کا شمار سب سے غریب اور پسماندہ صوبوں میں ہوتا ہے، یہاں کے لوگوں کا معیارِ زندگی پنجاب اور سندھ کے برعکس کم تر ہے۔ یہاں بے روزگاری عروج پر ہے، تعلیم اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، پینے کا صاف پانی ایک بڑی آبادی کے لیے نایاب ہے، اور امن وامان کی صورت حال بھی دگرگوں ہے۔ باالفاظِ دیگر زندگی کے تمام اہم شعبے روبہ زوال ہیں،سارے صوبے میں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، ملک کے دو بڑے ڈیم اس صوبے میں ہونے اور ملک کی بجلی کی پیداوار کا زیادہ تر حصہ ان ڈیموں سے پورا ہونے کے باوجود اس صوبے کو نہ تو بجلی کی آمدن سے وہ حصہ دیا جاتا ہے جو آئینی لحاظ سے اس کا حق ہے، اور نہ ہی بجلی کی ترسیل میں اس صوبے کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے، جس سے صوبے کے شہری علاقوں میں بالعموم اور پسماندہ دیہی علاقوں میں بالخصوص احساسِ محرومی بڑھتا جارہا ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو خیبر پختون خوا میں آمدن بڑھانے اور اس صوبے سے غربت کے خاتمے میں دو شعبوں کو خصوصی توجہ دے کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، یہ دو شعبے بڑے پیمانے پر بجلی کی پیداوار کے دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھانے اور یہاں موجود سیاحت کے بھرپور مواقع کو استعمال میں لانے کی صورت میں موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اس ضمن میں کوتاہی سے کام لے رہی ہے، جس کا خمیازہ صوبے کے عوام کو غربت اور معاشی بدحالی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہاں اس امرکی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت نے اب تک سیاحت کے فروغ کے اعلانات تو بہت کیے ہیں اور اس ضمن میں ایک سیاحتی پالیسی کی منظوری بھی دی جاچکی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس شعبے میں روٹین سے ہٹ کر دلچسپی لینے والے اور کسی حد تک اس شعبے کو ایک باقاعدہ انڈسٹری کے طور پر آگے لے جانے والے صوبائی وزیر عاطف خان کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد یہ اہم شعبہ عملاً جمود کا شکار ہے، اور انہوں نے اس شعبے میں اصلاحات کا تیزی سے جو عمل شروع کررکھا تھا وہ سرد خانے کی نذر ہوچکا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ کا تعلق سوات جیسے سیاحتی مرکز سے ہونے کی وجہ سے ایک عام تاثر یہ تھاکہ وہ سوات سمیت صوبے کے تمام سیاحتی اضلاع میں سیاحت کی بین الاقوامی معیار کے مطابق سہولیات کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنائیں گے اور سیاحتی پوٹینشل رکھنے والے صوبے کے شمالی اضلاع بشمول ہزارہ ڈویژن کے سیاحتی مقامات میں انفرااسٹرکچر کی ترقی پر خصوصی توجہ دیں گے، لیکن اس ضمن میں سوات ایکسپریس وے کی تعمیر کے سوا اب تک کوئی قابلِ ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، البتہ حال ہی میں ایکنک سے منظور کیے جانے والے سوات ایکسپریس وے کے فیز ٹو جو کہ چکدرہ تا فتح پور کے80کلومیٹر فاصلے پر مشتمل ہوگا، کے خلاف گزشتہ دنوں ملاکنڈ ڈویژن کے پانچ اضلاع دیر پائین، دیر بالا، باجوڑ، اپر چترال اور لوئر چترال کی جانب سے ایک گرینڈ احتجاجی مظاہرہ منعقد ہوچکا ہے جس میں وزیراعلیٰ پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے چکدرہ تا چترال موٹر وے منصوبے کو ضلع سوات منتقل کرکے ان پانچ اضلاع کے لاکھوں افراد کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت میں ہونے والے اس احتجاج کے بعد صوبائی حکومت کو بہ امر مجبوری یہ اعلان کرنا پڑا ہے کہ چکدرہ تا چترال موٹر وے کی فیزیبلٹی پر کام جاری ہے اور حکومت جلد ہی اس منصوبے کا اعلان کرے گی۔ جب کہ دوسری جانب جماعت اسلامی کا مؤقف ہے کہ وزیراعلیٰ نے گزشتہ دنوں چکدرہ تا فتح پور سوات ایکسپریس وے کے فیز ٹو کے جس منصوبے کا اعلان کیا ہے یہ دراصل چکدرہ تا چترال موٹر وے منصوبے کو ہائی جیک کرنے کے مترادف ہے، اور جماعت اسلامی اس ناانصافی کے خلاف ہر حد تک جائے گی۔
دریں اثناء سیاحتی مقامات سیزن کے اختتام پر کھلنے کے بعد چونکہ سیاح بڑی تعداد میں سیاحتی مقامات کا رخ کرچکے ہیں، لہٰذا اس ضمن میں بے پناہ رش کی وجہ سے جہاں ٹریفک حادثات کے واقعات بڑے پیمانے پر رپورٹ ہورہے ہیں، وہیں یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ مقامی لوگ اور خاص کر ہوٹل مالکان خودساختہ مہنگائی اور ہوٹلوں کے ریٹ بڑھانے کے ذریعے سیاحوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر پچھلے پانچ ماہ کی کسر ایک ماہ میں پوری کرنے کی کوشش کررہے ہیں جسے کسی بھی صورت مبنی برانصاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے توقع ہے کہ حکومت اور دیگر متعلقہ ادارے سیاحوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی اطلاعات اور پولیس کی جانب سے سیاحوں کو بے جا طور پر تنگ کرنے کے واقعات کا سختی سے نوٹس لیں گے اور ملک کے دوردرازعلاقوں سے آنے والے سیاحوں کی مقامی روایات کے شایانِ شان مہمان داری کی تابناک روایات کو برقرار رکھتے ہوئے دل اور جان سے خدمت اور تواضع کی روایات پر کوئی حرف نہیں آنے دیں گے ۔