چین کے ساتھ کشیدگی بڑھ کر کئی نئی پیچیدگیوں کو جنم دے گئی ہے، مگر کشمیر موم کی ناک کی طرح بدستور بھارت کے رحم وکرم پر ہے، وہ جیسے چاہے اسے موڑ دے
کشمیر کی شناخت اور ریاستی تشخص کو چھنے ہوئے ایک سال مکمل ہوگیا ہے مگر بھارت کو سیاسی طور پر ابھی ڈور کا سرا نہیں ملا۔ 5 اگست 2019ء کے بعد بھارت کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی زمینوں اور وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل ہوا۔ کنٹرول پہلے بھی کچھ کم نہیں تھا، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے کچھ اقدامات کو کشمیر اسمبلی سے منظورکرانا ضروری ہوتا تھا۔ اسمبلی کے ارکان کو کسی مقصد کے لیے قائل کرنا پڑتا تھا۔ اب یہ اسپیڈ بریکر اور مجبوری باقی نہیں رہی۔ اب بھارت کا کشمیر پر براہِ راست قبضہ ہے۔ بھارت چاہے تو اپنی نوآبادی بسائے، اسے توسیع دے، مقامی لوگوں کو ڈرا دھمکا کر زمینیں فروخت کرنے پر مجبور کرے، انڈسٹریلائزیشن، ٹورازم اور فوجی مقاصد کے نام پر زمینوں پر قبضہ کرے تو اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ٹاٹا، برلا اور امبانی جیسے ساہوکار چاہیں تو سونے کی طرح ناپ تول کر زمینیں خرید کر بھارت کے مقاصد کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ مقامی لوگ کب تک اس عمل کی مزاحمت کرسکتے ہیں! سامراجی قوتوں نے دنیا میں مسائل کی نوعیت اور ہیئت کو بدلنے کے لیے آخری چارۂ کار کے طور پر یہ حربہ اختیار کیا ہے اور اس کے مقاصد بھی ان کے حق میں مثبت ہی برآمد ہوئے۔ جس وقت دو مختلف نظریات اور خیالات، تہذیب اور ثقافت کی حامل دو آبادیوں میں عددی فرق کم ہوجاتا ہے تو پھر سیاسی مسائل ایک نیا رنگ اور رخ اختیار کرتے ہیں، پھر اس کی اصولی بنیاد کمزور ہوتی ہے اور یہ دوآبادیوں کا جھگڑا بن جاتا ہے۔ جموں وکشمیر میں ریاست کا تصور اس قدر مضبوط تھا کہ یہاں دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ہندو آبادی مسلمان آبادی کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑی نہیں ہوئی۔ جموں میں ہندو اکثریت نے گرچہ وادی کی تحریکوں کا ساتھ نہیں دیا مگر انہوں نے اس تحریک کے مقابلے کے لیے کوئی متوازی مزاحمت کھڑی نہیں کی۔ یہی حال وادی کے پنڈتوں کا ہے جو وادی سے بے دخل تو ہوئے مگر انہوںنے وادی کے مسلمانوں کی تحریکِ مزاحمت سے خود کو دور بھی رکھا اور زبانی کلامی مخالفت بھی کی مگر انہوں نے اس مزاحمت کا راستہ روکنے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ اب جو حکمت عملی بھارت اپنا رہا ہے اس میں بیرونِ ریاست سے ہندوئوں کو جموں وکشمیر میں لاکر بسانا مقصود ہے۔ پانچ اگست کو اس منصوبے کی راہ کی رکاوٹوں کو ایک ایک کرکے گرا دیا گیا، اور آج جموں وکشمیرکی ریاست یونین ٹیریٹری کے نام پر بھارتی دیو کی مٹھی میں بند اور جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہے۔ بھارت جو چاہے فیصلہ لے رہا ہے اور مستقبل کی تمام رکاوٹوں کو قانونی جامہ پہنا رہا ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کے خوابوں کو لیفٹیننٹ گورنر کے نام پر ایک بھارتی تعبیر دے رہا ہے۔ اس مضحکہ خیز اور سفاکانہ کھیل میں قاتل، منصف اور مدعی کے سارے کردار بھارت کی ریاست اور حکومت نے اپنے اندر سمو لیے ہیں۔ حد تو یہ کہ بھارت کی’’آزاد‘‘عدلیہ کو ہاتھ پائوں باندھ کر ریفری کے بجائے تماشائی بناکر باہر بٹھا دیا گیا ہے۔
پانچ اگست سے پہلے بھارت کشمیر میں فوجی لحاظ سے دندناتا پھر رہا تھا، اس کے بعد اب وہ قانونی اور آئینی اعتبار سے لٹھ لیے دوڑ رہا ہے۔ اس راہ میں کوئی رکاوٹ، کوئی اسپیڈ بریکر موجود نہیں۔ پانچ اگست کے بعد پاکستان کے ساتھ اُس کے پہلے سے کمزور تعلقات قریب قریب ختم ہوکر رہ گئے ہیں، چین کے ساتھ کشیدگی بڑھ کر کئی نئی پیچیدگیوں کو جنم دے گئی ہے، مگر کشمیر موم کی ناک کی طرح بدستور بھارت کے رحم وکرم پر ہے، وہ جیسے چاہے اسے موڑ دے۔ کشمیر میں طاقت کا جو خلا پیدا ہوا ہے اب بھارت اس کو پُر کرنے کے نام پر کوئی سیاسی کھچڑی پکا رہا ہے۔ اس کا ثبوت مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا پانچ اگست کے حوالے سے لکھا گیا ایک مضمون ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کے درجے کی بحالی کے بغیر وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے لکھا کہ میں اُس ایوان کا حصہ نہیں بن سکتا جس کے اختیارات چھینے گئے ہیں۔ کبھی جموں وکشمیر اسمبلی سب سے طاقتور اسمبلی ہوتی تھی، اب یہی سب سے کمزور اسمبلی ہے۔ یہ دھمکی ہے نہ بلیک میلنگ، مگر میرا فیصلہ یہی ہے۔
عمر عبداللہ کی اس بات کا جواب بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اوپناش کھنہ نے نہایت ملائمت اور محبت سے یوں دیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ریاست کی بحالی کا اپنا وعدہ پورا کرے گی، جلد بی جے پی ریاست کی بحالی کے مطالبے کے حق میں مظاہرے کرے گی۔
اس سے لگتا ہے کہ بھارت ریاست کی حیثیت کی بحالی، اور یونین ٹیریٹری کا فیصلہ واپس لینے کے لیے تیار ہے مگر دفعہ 370کی بحالی پر آمادہ نہیں جو پانچ اگست کے بعد چھڑنے والی لڑائی کی بنیادی وجہ ہے۔ وہ اسپیڈ بریکر بحال نہیں کیے جارہے جو کشمیر میں بھارت کو کھل کھیلنے میں رکاوٹ رہے ہیں۔ عمر عبداللہ اور ان کے والد 6 ماہ تک نظربند رہنے کے بعد رہائی پاچکے ہیں اور ان کے دہلی کے ساتھ رابطے قائم ہوچکے ہیں۔ محبوبہ مفتی بدستور نظربند ہیں، اور ان کی نظربندی میں مزید 6 ماہ کی توسیع کی گئی ہے۔ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی جو پانچ اگست کے بعد بھارتی حکمرانوں کی پالیسیوں پر سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے تابڑ توڑ حملے کررہی ہیں، یہ الزام عائد کررہی ہیں کہ ان کی نقل و حرکت پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس تفریق سے لگتا ہے کہ عمرعبداللہ دہلی کے ساتھ کسی ہم آہنگی کی طرف بڑھ چکے ہیں اور محبوبہ مفتی اس اسکیم کا حصہ نہیں بن رہیں، کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ مسئلے کا پرنالہ اپنی جگہ ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دہائی میں محبوبہ مفتی اور ان کی جماعت سیلف رول کے نعرے کے ساتھ جس پیس پروسیس کا حصہ تھیں وہ امریکی سرپرستی میں شروع کیا گیا تھا۔ ماضی میں دہلی سری نگر معاہدات میں سب سے اہم ترین معاہدہ اندرا عبداللہ ایکارڈ تھا جس میں شیخ محمد عبداللہ جیسے مقبول سیاست دان نے اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدہ کرکے سری نگر کا اقتدار قبول کیا تھا، فرق یہ تھا کہ جب انہوں نے اقتدار چھوڑا تھا تو وزیراعظم تھے، اور جب دوبارہ مفاہمت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا تو وہ وزیراعلیٰ بن چکے تھے۔ اس معاہدے کو سقوطِ ڈھاکا کے تناظر میں اسلام آباد کی خاموش تائید حاصل تھی، کیونکہ حکومتِ پاکستان درپیش حالات کے باعث کشمیریوں کو زیادہ امید دلانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو شملہ معاہدے میں کچھ تحریری اور کچھ زبانی یقین دہانیاں کراکے آئے تھے۔ اسلام آباد کی طرف سے شیخ عبداللہ کو گرین سگنل ملنے کے بعد ہی اندرا عبداللہ ایکارڈ کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ شیخ عبداللہ آگے بڑھے تو قالین اُن کے قدموں سے کھنچنا، اور کشمیر میں مزاحمت کونیا رنگ و آہنگ ملنا شروع ہوا۔ محمد مقبول بٹ کا نام انہی حالات میں اُبھرکر سامنے آیا۔
اب بھی ’’اندر عبداللہ ایکارڈ پارٹ ٹو‘‘کے لیے وہی حالات، وہی اسباب، وہی اشارے موجود ہیں، مگر اِس بار بھی آگے جانے والا ’’شیخ عبداللہ‘‘ہوگا، اور پیچھے رہ جانے والوں میں کوئی مقبول بٹ اُبھرکر حالات کا قالین ان کے قدموں تلے سے کھینچنا شروع کردے گا۔