افغانستان کا نیا منظر نامہ

جلال آباد جیل پر حملہ، افغان لویہ جرگہ کی تیاری

افغانستان جو پچھلی چار دہائیوں سے بدامنی اور جنگ و جدل کا شکار ہے، وہاں ہر دن اپنے ساتھ امید اور مایوسی کی کئی نئی داستانیں لے کر طلوع ہوتا ہے۔ اس سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ اپنے اندر پیچیدگیوں کی کئی گرہیں لیے ہوئے منہ کھولے عمل درآمد کی راہ ابھی تَک رہا تھا کہ پہلے ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان اقتدار کی رسّا کشی اور اسی اثناء دو متوازی حکومتوں کے قیام نے افغانستان کے امن اور مستقبل کو دائو پر لگا دیا تھا کہ اب ایسے میں جہاں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان طے شدہ معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی پر تعطل اور بداعتمادی کی فضا چھائی ہوئی ہے وہاں گزشتہ سوموار کے روز پاک افغان بارڈر پر واقع سرحدی صوبے ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد کی ایک جیل پر ہونے والے ایک بڑے حملے میں کم از کم 21 افراد کی ہلاکت اور مزید 43 افراد کے زخمی ہونے کے علاوہ جیل سے کئی قیدیوں کے فرار ہونے کی اطلاعات نے پوری صورت حال کو مزید پیچیدہ اور پریشان کن بنادیا ہے۔ جلال آباد واقعے کا ایک قابلِ غور پہلو اس حملے سے طالبان کا اعلانِ لاتعلقی اور داعش کا اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہے۔ صوبہ ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطااللہ خوگیانی نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے میں تین حملہ آور ہلاک کیے گئے ہیں، البتہ ہلاک ہونے والوں میں عام شہری، قیدی، محافظ اور افغان سیکورٹی فورسز کے بعض اہلکار بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ متذکرہ جیل گورنر کے دفتر سے صرف 700 میٹر کے فاصلے پر ہے، اور یہاں عسکریت پسندوں کے بلاروک ٹوک پہنچنے کو افغان سیکورٹی پر ایک بڑے سوالیہ نشان سے تعبیرکیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ داعش ننگرہار اور اس سے ملحقہ علاقوں میں پہلے بھی کارروائیاں کرچکی ہے اور اسے یہاں ایک بڑی قوت سمجھا جاتا ہے، جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ داعش کا صوبہ خراسان کا صدر دفتر بھی اسی علاقے میں ہے۔ ایک صوبائی عہدیدارکی جانب سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ اطلاع بھی سامنے آئی ہے کہ حملے کے نتیجے میں کچھ قیدی فرار ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔
اس جیل میں تقریباً ڈیڑھ ہزار قیدی ہیں جن میں سے کئی سو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ داعش کے ممبر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حملہ اس کے ایک دن بعد ہوا جب حکام نے بتایا کہ افغان اسپیشل فورسز نے جلال آباد کے قریب اسلامک اسٹیٹ کے ایک سینئر کمانڈر کو ہلاک کیا ہے۔
طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے دوحہ قطر سے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا گروپ جلال آباد حملے میں ملوث نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جنگ بندی کے اپنے اعلان پر قائم ہیں اور ملک میں کہیں بھی ان حملوں میں ملوث نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر طالبان نے تین روزہ فائر بندی کا اعلان کیا تھا، جس کے جواب میں افغان حکومت نے بھی طالبان پر تین دنوں تک حملے نہ کرنے کا بیان جاری کیا تھا۔ لہٰذا ایسے میں جلال آباد حملے پر طالبان کے خلاف اپنے اعلان سے انحراف کے الزامات لگنے شروع ہوگئے تھے، لیکن ان کے سیاسی ترجمان کی جانب سے اس حملے میں ملوث ہونے سے صریح انکار کے بعد جہاں داعش ایک اور بڑے خطرے کے طور پر سامنے آئی ہے وہیں طالبان نے بھی حکومت پر اپنے گرفتار لگ بھگ چار سو مزید قیدیوں کی رہائی اور انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع کرنے پر زور دیا ہے۔
طالبان کی امن کے لیے کمٹمنٹ کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ جمعرات کو مشرقی صوبے لوگر میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے میں ملوث ہونے سے بھی انکار کیا تھا جس میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوگئے تھے۔
افغانستان میں حالیہ تشدد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان حملوں میں زیادہ تر اسلامک اسٹیٹ کے مقامی گروپ ملوث ہیں جو افغانستان میں طالبان امریکہ معاہدے کے بعد اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں شروع ہونے والے طالبان افغان حکومت امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل افغانستان میں بدلتی ہوئی صورت حال میں چونکہ بہت سی علاقائی قوتوں کو اپنے مفادات پر زد پڑتی نظر آرہی ہے، اس لیے وہ قوتیں اور ان کے مقامی آلہ کار اگر ایک طرف طالبان اور افغان حکومت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے متمنی ہیں تو دوسری جانب وہ داعش اور دیگر جنگجوگروپوں کی پشتیبانی کے ذریعے افغانستان میں بدامنی اور عدم استحکام کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کے خواہش مند ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب سے طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ طے پایا ہے اور فریقین کی جانب سے اس معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانیاں کرائی جاتی رہی ہیں، تب سے بعض قوتوں کو افغانستان کے مستقبل اور اس مستقبل میں طالبان کے ممکنہ کردار کے حوالے سے پریشانی لاحق ہے، بلکہ یہ قوتیں افغانستان کو اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے ایک نئی جنگ میں جھونکنے کے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی بے چین نظر آتی ہیں۔ دوسری جانب طالبان چونکہ اپنے آپ کو اور اپنی طاقت کو ایک برسرِزمین حقیقت کے طور پر دنیا کی سپریم پاور سے اِس سال دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کی شکل میں منوا چکے ہیں اس لیے طالبان کی اس سیاسی اور عسکری فتح کو بھارت کی قیادت میں بعض مقامی قوتیں سبوتاز کرنے کے درپے ہیں، جن کو بدقسمتی سے افغان حکومت کے اندر سے بھی بعض عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے جن کے عزائم کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امریکہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی سے پہلے پہلے اپنی افواج کا یہاں سے مکمل انخلا چاہتا ہے جس کا وعدہ امریکی صدر اپنی قوم سے بہت پہلے کرچکے ہیں، اور جس کا واضح روڈ میپ طالبان امریکہ امن معاہدے میں موجود ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جہاں گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک تازہ بیان میں قوم کو یہ خوش خبری سنائی ہے کہ نومبر میں امریکی صدارتی الیکشن کے دن تک افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد محض چار پانچ ہزار تک رہ جائے گی، وہیں طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مُلّا برادر اخوند سے نہ صرف ویڈیو ملاقات کی ہے بلکہ اس رابطے کے دوران افغان امن عمل پر بات چیت بھی کی گئی ہے۔
طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ پومپیو اور مُلّا برادر کے درمیان افغان حکومت کی جانب سے بعض طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر پر بھی بات ہوئی ہے جو ان کا مطالبہ ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان، حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔
قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا، تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی کا شکار رہا ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے اختیار کیا جانے والا ٹال مٹول پر مبنی رویہ تھا، جس کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی تھی، جس پر امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد شٹل ڈپلومیسی کے تحت دوحہ، اسلام آباد اور کابل کے متعدد دورے کرتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ان کی جانب سے اب تک ساڑھے چار ہزار سے زائد طالبان قیدی رہا کیے جا چکے ہیں، جب کہ طالبان طے شدہ معاہدے کے تحت افغان حکومت کے سرکاری اہلکاروں اور سیکورٹی فورسز کے ایک ہزار کارندوں کو رہا کرچکے ہیں جس کی تصدیق حکومتی ذرائع بھی کرتے ہیں۔ دراصل قیدیوں کی رہائی پر دونوں جانب سے تعطل اُس وقت پیدا ہوا تھا جب طالبان نے افغان حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ طالبان کی دی گئی فہرستوں کے بجائے عام جرائم پیشہ افراد، حتیٰ کہ داعش کے جنگجوئوں کو طالبان قرار دے کر رہا کررہی ہے، جس پر افغان حکومت نے قیدیوں کی رہائی کو عارضی طور پر معطل کردیا تھا، جس سے دونوں جانب بداعتمادی کے ایک نئے سلسلے نے جنم لیا تھا، البتہ اس حوالے سے تازہ تعطل اُن چار سو قیدیوں کی رہائی سے انکار پر پیدا ہوا ہے جن کے بارے میں افغان صدر اشرف غنی برملا کہہ چکے ہیں کہ ان کی رہائی کی اجازت نہ تو ملک کا آئین دیتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس بطور صدر ایسے کچھ اختیارات ہیں جن کے بل بوتے پر وہ ان قیدیوں کو رہا کرسکیں۔ دراصل ان قیدیوں کے بارے میں افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ وہ قیدی ہیں جو قتل وغارت، بم دھماکوں، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ دریں اثناء افغان حکومت نے ان قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے اِس ماہ کی 7 تاریخ کو افغان لویہ جرگہ بلانے کا نہ صرف اعلان کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ افراد کو دعوت نامے بھی جاری کردیے گئے ہیں جس کو طالبان نے وقت کا ضیاع اور اس معاملے کو طول دینے کا حربہ قرار دیتے ہوئے رد کردیا ہے۔
اس تمام تر پس منظر، نیز خود افغان حکومت میں طالبان کی رہائی اور انٹرا افغان بات چیت پر پائے جانے والے واضح اختلافات کے تناظر میں شاید اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہوگا کہ آیا 7اگست کا مجوزہ لویہ جرگہ اتنے شارٹ نوٹس پر منعقد ہو بھی سکے گا یا نہیں؟ اور اگر بالفرض یہ جرگہ منعقد ہو بھی جاتا ہے تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ یہ جرگہ ان چار سو طالبان قیدیوں کی رہائی پر آمادہ اور یکسو ہو بھی سکے گا یا نہیں جن کی رہائی کو حکومت نے اپنی اَنا اور طالبان نے امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کی بقا کی بنیاد قرار دیا ہے۔ لہٰذا افغانستان کے پُرامن مستقبل کے حوالے سے گو ابھی ایک طویل سفر طے ہونا باقی ہے، لیکن کم از کم اس سفر کی شروعات کا انحصار یقیناً 7اگست کے لویہ جرگے کے فیصلے پر ہوگا جس کا ہم سب کو شدت سے انتظار ہے۔