دنیا بھر میں پہلوانوں کے شہر کے طور پر جانا جانے والا گوجرانوالہ کچھ عرصے سے جرائم پیشہ افراد کے شدید نرغے میں دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں بھی یہاں جرائم کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے مگر اب ان کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ متعدد وارداتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے مدعی پولیس تک جانے کے بجائے لٹنے کے بعد سیدھا اپنے گھر کی راہ لیتے ہیں، کیونکہ عام طور پر پولیس میں رپورٹ درج کرانے کے باوجود سوائے طفل تسلیوں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ضلع کی حدود میں تین سرکلز کے 32 تھانوں کی پولیس تمام تر سہولیات فراہم ہونے کے باوجود شہریوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے، جس کی وجہ سے وارداتوں کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ شہر کے باسی، روڈ پر سفر کرنے کے دوران اور گھروں کے اندر خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، ضلع بھر کے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کے گروہ ایک سے ایک انوکھے طریقے اپناکر وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں، کوئی لفٹ لینے کے بہانے، تو کوئی بینکوں کے اندر کیش جمع کروانے کے بہانے سے لوٹ مار کررہا ہے۔ یہ واقعات شہر کو امن کا گہوارہ بنانے کے دعووں کے کھوکھلے نعرے لگانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
متحدہ علماء بورڈ پنجاب کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی گزشتہ ہفتے ایک تقریب میں شرکت کے لیے یہاں آئے اور میڈیا سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ فواد چودھری کا دائرۂ کار صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی وزارت کی معلومات رویت ہلال کمیٹی کو دیا کریں، وہ اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب دونوں اگر مل جائیں تو روز چاند چڑھانے کے بجائے ایک ہی چاند ہو اور ہم سب ایک ہی دن عید اور رمضان کرلیا کریں۔
شہر میں ایک اور پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ریسکیو 1122 نے شجرکاری مہم کا آغاز کردیا ہے، جس کا مقصد ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا ہے۔ متعدد این جی اوز بھی اس کام میں شریک ہیں۔ لیکن ایک اہم مسئلہ جس نے شہر کو گھیر رکھا ہے وہ زرعی اراضی پر ہائوسنگ منصوبے بنانے کی اجازت ہے۔ گوجرنوالہ ایک زرعی علاقہ ہے، یہاں چاول اور گندم اگائی جاتی ہے، یہ دونوں فصلیں ملک کی زرعی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں، مگر جس تیزی سے زرعی اراضی پر ہائوسنگ منصوبے بن رہے ہیں، بہت جلد یہ اراضی ختم ہوجائے گی اور ہمارا ملک تیزی سے زرعی اجناس کی درآمدات کی جانب بڑھ جائے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہائوسنگ منصوبوں کے نام پر زرعی اراضی ختم نہ کریں، اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ملٹی اسٹوریز عمارتوں کی جانب توجہ دے اور مستقبل میں ایسی اسکیموں کی ہی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔
یہ شہر ہمیشہ سے سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بھی رہا ہے، یہاں صنعت، زراعت اور سیاست کی ایک تکون ہے، یہ تینوں موضوع شہر کی پہچان ہیں۔ اس وقت پی پی51 میں ضمنی انتخاب ہونے والا ہے۔ اگرچہ ضمنی انتخاب کے لیے پولنگ کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا، کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ابھی تک امیدوار کا اعلان نہیں کیا گیا، تاہم جماعت اسلامی نے اپنے امیدوار کا اعلان کردیا ہے۔ اس حلقے میں زیادہ تر برادری ازم کا زور ہے اور ووٹ بھی تقریباً اسی بنیاد پر ملتے ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار شوکت منظور چیمہ کامیاب ہوئے تھے، تحریک انصاف کے امیدوار دوسرے اور متحدہ مجلس عمل کے تیسرے نمبر پر تھے۔